مسلمان ملکوں میں‘ امریکہ کے پسندیدہ یا حمایت یافتہ لیڈروں کی فہرست یوں تو بہت لمبی ہے‘ فی الحال چندمثالیں پیش کر رہا ہوں۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی کی حمایت میں امریکہ نے کیا کچھ نہیں کیا؟ لیکن چند ہفتے پہلے‘ خود امریکہ نے ہی انہیں مسترد کر کے‘ نئے صدر کی حمایت شروع کر دی۔ عراق میں نوری المالکی ‘ امریکہ کے انتہائی حمایت یافتہ صدر تھے‘ لیکن چند ہی روز پہلے‘ امریکہ نے انہیں زبردستی ایوان اقتدار سے باہر دھکیل کر‘ جان چھڑائی۔ ان بے چاروں کا قصور بھی نہیں۔ امریکہ نے خودان کی حد سے زیادہ حمایت کر کے‘ انہیں ایوان اقتدار میں داخل کر کے قدم جمانے کا موقع دیا‘ جس کی وجہ سے وہ عوام میں غیرمقبول ہو گئے اور پھر امریکہ خود ہی انہیں بوجھ سمجھ کر‘ اتارنے پہ تل گیا۔ پاکستانی عوام میں امریکی مقبولیت کچھ زیادہ قابل رشک نہیں‘ البتہ قابل رحم ضرور کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت میرے سامنے 2012ء کا گیلپ ہے۔ اس کے تحت پاکستان میں‘ امریکہ کی مقبولیت 4فیصد اور عدم مقبولیت 92فیصد ہے۔ پاکستان میں مقبولیت کے اس شاندار گراف کے ساتھ‘ امریکہ نے ہمارے وزیراعظم جناب نوازشریف کی جو زبردست حمایت کی ہے‘ اسے ہم کیا سمجھیں؟ وزیراعظم نوازشریف‘ 1999ء میں بھی امریکی حمایت کو بھگت چکے ہیں۔ اس وقت بھی امریکہ نے‘ نوازشریف کی بطور وزیراعظم بھرپور حمایت کی تھی۔ اس کے چند ہفتے بعد ہی ان کا اقتدار ختم ہو گیا۔ تب انہیں اقتدار میں آئے قریباً3سال ہو نے والے تھے۔ وہ اپنی وزارت عظمیٰ کا چوتھا سال نہ دیکھ پائے۔
اس بار تو انہیں دوسرے ہی سال حمایت کی ضرورت آن پڑی۔ اللہ خیر کرے۔ کہا نہیں جا سکتا کہ امریکہ نے یہ حمایت نیک دلی سے کی ہے یا اسی مقصد کے تحت‘ جو 1999ء میں تھا۔ وزیراعظم نوازشریف کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئے‘ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ امریکہ فوراً ہی خم ٹھونک کر ان کی حمایت میں اتر آیا۔ امریکی ترجمان نے واضح کیا کہ ''میاں محمد نوازشریف 5سال کے لئے ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں‘ امریکہ ان سے مستعفی ہونے کے مطالبے کی حمایت نہیں کرتا‘‘۔ ترجمان نے کہا کہ ''امریکہ پاکستان کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور وہاں کے موجودہ سیاسی حالات کو تشویش ناک سمجھتا ہے‘‘۔ اسی پر بس نہیں کیا گیا۔ آگے چل کر امریکہ وہ سوال بھی زیربحث لاتا ہے‘ جس پر احتجاجی تحریک چلائی جا رہی ہے۔ ترجمان نے واضح کیا ''پاکستان کے جمہوری نظام میں بالائے آئین تبدیلیاں لانے اور ان کی کوشش کرنے والے افراد کو‘ امریکہ کی حمایت حاصل نہیں ہے‘‘۔ اگر گیلپ کی روشنی میں دیکھا جائے‘ تو امریکہ کی یہ حمایت درحقیقت اپوزیشن کو ملے گی۔ امریکہ کے مخالف 94فیصد پاکستانی‘ عمران اور ڈاکٹر قادری کے کھاتے میں چلے جاتے ہیں اور امریکہ کو پسند کرنے والے 4فیصد پاکستانیوں کی حمایت‘ جناب نوازشریف کو ملے گی۔ امریکہ یہ حرکت سادگی میں کر رہا ہے یا کسی اور وجہ سے؟ اعداد و شمار کے اثرات و نتائج کو امریکی‘ ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ جانتے ہیں۔ امریکی ترجمان نے آگے چل کر کہا ''امریکہ سمجھتا ہے کہ حالیہ بحران سے پُرامن طور پر نکلنے کا راستہ موجود ہے۔ بحران کے باوجود پاکستان میں سیاسی مکالمے کی بہت گنجائش ہے۔ جسے پُرامن انداز سے انجام پانا چاہیے‘‘۔ یہ بیان 20اگست کو آیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس پر بھی امریکہ کی تسلی نہیں ہوئی اور اگلے ہی دن 21 اگست کی بریفنگ میں‘ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان میری ہارف نے مزید حمایت کرنا ضروری سمجھا۔ انہوں نے کہا ''امریکہ کا پورا وزن منتخب حکومت کے حق میں ہے۔ ہم بالائے آئین تبدیلیوں کے حق میں نہیں ہیں‘ جو مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔ ہارف نے مزید کہا ''امریکہ یقین رکھتا ہے کہ نوازشریف منتخب لیڈر اور وزیراعظم ہیں۔ وہاں ایک منتخب حکومت قائم ہے‘‘۔
ترجمان نے ڈی چوک میں احتجاج کرنے والے مظاہرین پر غصے کا اظہار کیا ‘جوایک ہفتے سے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان برسبیل تذکرہ بات نہیں کر رہی تھیں بلکہ انہوں نے امریکی موقف کی پوری وضاحت کی اور کہا''ہم ‘ پاکستان میں آئینی اور جمہوری عمل کی حمایت کرتے ہیں‘ جس کے تحت نوازشریف وزیراعظم منتخب ہوئے۔وہ جمہوری عمل سے گزرے اور انتخابات کرائے۔ ہماری توجہ پاکستان کے ساتھ کام کرنے پر مرکوز ہے‘‘۔ اس سوال پر کہ وزیراعظم سے مستعفی ہونے کامطالبہ کیا جا رہا ہے؟ انہوں نے کہا ''ہم جمہوری نظام میں بالائے آئین تبدیلیوں کی حمایت نہیں کرتے‘ جو کہ مخالفین مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ رپورٹر نے کہا ''تو آپ‘ نوازشریف کووزارت عظمیٰ چھوڑنے کے لئے نہیں کہہ رہے؟‘‘ ترجمان نے جواب دیا ''ہم یہ بات کسی بھی طرح نہیں کہہ رہے‘‘۔ جب ایک اور صحافی نے پاکستان میں سیاسی بے چینی کا موازنہ‘ عراق میں جاری تشدد کی لہر سے کرتے ہوئے کہا کہ ''پاکستانی فوج خراب صورتحال میں اقتدار پر قبضہ تو نہیں کرے گی؟‘‘ ترجمان نے انتباہ کیا کہ ''اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ میں ''خراب صورتحال‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں کروں گی۔ نوازشریف‘ منتخب وزیراعظم ہیں۔ وہاں کی حکومت منتخب ہو کر آئی ہے‘‘۔ انہوں نے صحافی سے کہا کہ ''اس بات کا تصور بھی نہ کریں کہ سیاسی بے چینی کے نتیجے میں ‘فوج مداخلت کرے گی۔ آپ ایسے تصورات سے محتاط ہی رہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے اور ہم جانتے ہیں کہ سیاسی مذاکرات کے لئے کافی گنجائش ہے‘ لیکن یہ سب کچھ پُرامن ہونا چاہیے‘‘۔ اس سوال پر کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور مسٹرنوازشریف غیرآئینی وزیراعظم ہیں ترجمان نے جواب دیا''اس وقت وہ وزیراعظم ہیں‘‘۔ ترجمان نے اس خیال سے اختلاف کیا کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران‘ وہاں کے ایٹمی اسلحہ کو
غیرمحفوظ کر سکتا ہے۔ ترجمان نے کہا''ہم اس مسئلے پر ہمیشہ محتاط رہتے ہیں‘‘۔ میں نے پاکستان‘ ہماری جمہوریت اور وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں امریکی حکومت کے خیالات تفصیل سے درج کر دیئے ہیں۔ ماضی کے واقعات کی روشنی میں ان باتوں سے ہر طرح کا مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ نے جہاں زیادہ توجہ‘ زیادہ دوستی اور زیادہ دلچسپی کا اظہار کیا ہے‘ وہاں عموماً نتیجہ اس کا الٹ نکلا۔ اس سلسلے میں شاہ ایران کی مثال آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ دوستی‘ حمایت‘ ہر حال میں ساتھ دینے کے وعدے‘ غرض باہمی دوستانہ تعلقات کے اظہار کے لئے‘ ایسا کوئی لفظ نہیں جو امریکہ نے شاہ ایران کے لئے استعمال نہ کیا ہو‘ لیکن جب اس کی ضرورت نہ رہی‘ تو امریکہ نے شاہ کو اپنی سرزمین پر رہنے کی جگہ بھی نہ دی۔ وہ اپنے سارے دوست ملکوں میں قبر کے لئے جگہ ڈھونڈتے پھرے‘ جو آخر انہیں مصر میں ملی۔ ہمارے حکمرانوں میں جنرل ضیاالحق پر امریکہ انتہائی مہربان تھا۔ جنرل مرحوم نے امریکہ کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا؟ اپنے ملک کی سلامتی دائو پر لگا کر‘ ایک سپرپاور کے خلاف جنگ چھیڑی۔ 50لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کو اپنے وطن میں جگہ دی‘ جن میں سے 20لاکھ آج بھی یہیں پر موجود ہیں اور واپسی کا ارادہ نہیں رکھتے‘ لیکن جنرل ضیا کے ساتھ امریکیوں نے دوستی کیسے نبھائی؟ وہ بھی ایک مثال ہے۔ اردن کے شاہ حسین‘ امریکہ کے انتہائی پسندیدہ حکمران تھے۔ خارجہ تعلقات میں وہ ہرقدم امریکہ سے پوچھ کراٹھاتے‘ لیکن یہ امریکہ ہی تھا‘ جس نے شاہ حسین کے آدھے ملک پر اسرائیل کا قبضہ کرا دیا۔ ہمارے دیگر حکمران بھی ہیں‘ جو امریکہ کو بہت پسند تھے اور امریکہ نے مشکل وقت میں ان کے اقتدار کو حد سے بڑھ کر تحفظ دیا‘ ان کے تجربات بھی زیادہ اچھے نہیں۔ صدر ایوب خان ‘ امریکہ کے فوجی اتحادی بن گئے تھے۔ انہوں نے بھی جنرل ضیا کی طرح سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی کاسہ لیسی کی‘ حتیٰ کہ اس کے خلاف امریکہ کو‘ پشاور میں جاسوسی کا اڈہ تک فراہم کر دیا‘ لیکن جب 1965ء کی جنگ کے بعد‘ بھارت سے آبرومندانہ جنگ بندی کے لئے‘ امریکہ سے مدد مانگی‘ تو اس نے سوویت یونین کا راستہ دکھا دیا۔ جس کے خلاف ایوب خان نے‘ امریکہ کو جاسوسی کا اڈہ فراہم کر رکھا تھا۔ جنرل یحییٰ خان نے امریکہ کو‘ چین کے ساتھ پہلے باضابطہ رابطے کی سہولت انتہائی رازداری سے فراہم کی تھی۔ وہ جب مشرقی پاکستان میں الجھا‘ تو امریکہ بھارت کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔ محترمہ بے نظیر شہیدکی مدد کرتے ہوئے‘ امریکہ نے جنرل مشرف کے ساتھ ان کا معاہدہ کرایا تاکہ وہ پاکستان میں آ کر سیاست میں حصہ لے سکیں۔ بے نظیر کے حصے میں ناگہانی موت آئی اور نوازشریف قبل ازوقت جلاوطنی ختم کر کے‘ پاکستان آ گئے۔ پہلے انہیں‘ پنجاب کی حکومت ملی اور اب پورے پاکستان کی۔ تیسری مرتبہ اقتدار کا دوسرا سال شروع ہوتے ہی نوازشریف مشکلات میں گھر گئے۔ امریکہ ان کی بھرپور حمایت رہا ہے۔ مجھے تو امریکہ کی مہربانیوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟