"NNC" (space) message & send to 7575

قبل ازوقت اعتراضات و شبہات

وزیراعظیم نوازشریف نے‘ حالیہ بحران سے نکلنے کے لئے فوج سے تعاون حاصل کرنے کی جو کوشش کی ہے‘ خدا کرے اس کے نتائج ملک و قوم کے لئے بہتر ہوں۔ فوج اور سیاستدانوں کے مابین‘ 1958ء کے بعد باہمی اعتماد کا وہ رشتہ کبھی قائم نہیں ہوا‘ جو کسی ریاست کے لئے ناگزیر ہوتا ہے۔ اس میں فوج کا قصور کم اور سیاستدانوں کا زیادہ ہے۔ فوج میںبھی بہرحال انسان ہوتے ہیں۔ اگر اس کی صفوں میں چند‘ اقتدار کے خواہش مند تھے‘ توچند ایسے بھی تھے‘ جنہوں نے اپنی جھولی میں گرتے ہوئے اقتدار کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ جب ایوب خان کے خلاف عوامی نفرت شدید ہو گئی تھی‘ تو جنرل موسیٰ کے لئے اقتدار پر قبضہ کرنا‘ اس سے بہت زیادہ آسان تھا‘ جتنا خود 1958ء میں جنرل ایوب خان کے لئے۔جنرل ضیاالحق کی ناگہانی موت کے بعد‘ جنرل اسلم بیگ کی صوابدید پر تھا کہ وہ اقتدار خود سنبھال لیتے یاضیاالحق کے بنائے ہوئے سیاسی انتظام کو چلنے دیتے۔ انہوں نے سیاسی نظام کو ترجیح دیتے ہوئے‘ اس وقت کے آئین کے مطابق اقتدار چیئرمین سینٹ کے سپرد کر دیا‘ جو ایک غیرسیاسی شخصیت تھے اور فوج کے اقتدار پر قبضے کو روکنا‘ ان کے اختیار میں نہیں تھا۔ موجودہ وزیراعظم جناب نوازشریف نے جسٹس سجاد علی شاہ سے محاذ آرائی شروع کر دی‘ تو اس وقت کے صدر‘ فاروق لغاری نے سپریم کورٹ کے ساتھ مل کر وزیراعظم نوازشریف کو وزارت عظمیٰ سے سبکدوش کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں دونوں قریب قریب کامیاب ہو چکے تھے۔ سپریم کورٹ نے‘ وزیراعظم کے خلاف اپنی مدد کے لئے فوج کو طلب کر لیا تھا۔ یہ خط انہوں نے براہ راست اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیرکرامت کو لکھا۔ جنرل کرامت بھی چاہتے‘ تو سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کے بہانے اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور صدر فاروق لغاری‘ دونوں ان کا ساتھ دینے پر مجبور ہوتے۔ لیکن جنرل کرامت نے قواعد کے مطابق‘ یہ خط کارروائی کے لئے اس وقت کے سیکرٹری دفاع کو بھیج دیا‘ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ فیصلے کا اختیار وزیراعظم کے پاس چلا گیا کیونکہ سیکرٹری دفاع وزیراعظم کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب صدر غلام اسحق خان اور وزیراعظم نوازشریف کے درمیان اختلافات ہوئے‘ تو جنرل وحید کاکڑ کے لئے اقتدار پر قبضہ کرنا بے حد آسان تھا‘ لیکن انہوں نے بھی صدر اور وزیراعظم کی لڑائی سے فائدہ اٹھا کر‘ اقتدار پر قبضہ کرنے کی بجائے‘ ان دونوں سے خود فیصلہ کرنے کے لئے کہا۔ لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کو نکالنے کی تجویز دے رہے تھے‘ یعنی صدر کہہ رہے تھے کہ آپ وزیراعظم کو فارغ کرنے میں‘ میرا ساتھ دیں اور وزیراعظم یہی بات صدر کے لئے کہہ رہے تھے۔ جنرل وحید کاکڑ کے لئے بھی یہ‘ اقتدار پر قبضے کا معقول بہانہ تھا‘ لیکن انہوں نے دونوں کو مشورہ دیا کہ وہ استعفے دے کر‘ نئے انتخابات کا انتظام کر دیں۔ جنرل مشرف کی رخصت کے بعد‘ جب پیپلزپارٹی کی حکومت تھی‘ تو اس وقت بھی حکومت سے باہر کی تمام سیاسی جماعتیں اور میڈیا‘ اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ جنرل کیانی کو بار بار دعوتیں دی گئیں کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر لیں۔ لیکن انہوں نے حکومت پر کرپشن کے بے شمار الزامات اور عوام میں حکومت کی عدم مقبولیت کے باوجود‘ اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ ہمارے سیاستدان اور میڈیا‘ اقتدار پر قابض ہونے والے جنرلوںکو تو یاد کرتے ہیں‘ لیکن انہیں وہ بھول جاتے ہیں‘ جنہیں اقتدار پر قبضے کا موقع ملا مگر انہوں نے اس کا فائدہ اٹھانے کی بجائے‘ منتخب حکومتوں کی مدد کی۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ حکومت‘ عوام سے پوری طرح کٹ چکی ہے۔ اس کی پالیسیاں عوام کے لئے شدید تکالیف اور مصائب کا باعث بن رہی ہیں۔ جن انتخابات کی بنیاد پر موجودہ حکومت قائم ہوئی‘ ان میں دھاندلیوں کی شکایت ہر ایک نے کی۔ اعتراض کرنے والوں میں وہ بھی تھے‘ جن کی حکومت بنی اور اپوزیشن پارٹیاں بھی۔اس کے باوجود شروع میںسب نے‘ اس حکومت کو نہ صرف تسلیم کیابلکہ اس کے ساتھ تعاون بھی شروع کر دیا۔ صرف عمران خان نے‘ 4حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کامطالبہ کیا‘ لیکن جب حکومت نے اس مطالبے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے‘ عمران خان کو جواب دینے کے قابل بھی نہ سمجھا‘ تو عمران کے علاوہ حکومت سے باہر اپوزیشن پارٹیوں اور میڈیا نے بھی شکوک و شبہات کا اظہار شروع کر دیا۔ جیسے جیسے حکومت دوبارہ گنتی سے بھاگتی رہی‘ انتخابی نتائج پر شکوک میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ عمران نے باقاعدہ احتجاجی مہم شروع کر دی۔ حکومت نے اس پر بھی پروا نہ کی اور عمران دوبارہ انتخابات کا مطالبہ سامنے لے آئے۔انتخابات میں دھاندلی کا تاثر زورپکڑتا گیا‘ یہاں تک کہ دو پارٹیوں نے باقاعدہ احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ اس تحریک کو عوام میں پذیرائی ملنے لگی اور وہ جماعتیں جو اسمبلیوں میں نہیں تھیں‘ وہ بھی اس تحریک کی حمایت کرنے لگیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھی اپوزیشن بلاامتیاز حکومت کی حامی ہو گئی اور اس پر الزامات لگائے جانے لگے کہ اپوزیشن کے اراکین‘ حکومت سے بھرپور مفادات حاصل کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کے بعض لیڈروں کے مقدمات‘ نیب میں پڑے ہیں۔ ایک الزام یہ بھی ہے کہ حکومت نے ان کے خلاف کارروائیاں روک کر ان کی مدد کی۔ پارلیمنٹ ایک منتخب ادارے کی بجائے‘ کسی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے حصے داروں کا اجتماع بن کر رہ گئی‘ حتیّٰ کہ پارلیمنٹ کے اراکین نے ان مسائل کو بھی نظرانداز کیا‘ جن کی وجہ سے عوام کا جینا دوبھر ہو رہا تھا۔ مثال کے طور پر بجلی کے نرخ بلاجواز تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد‘ مسلسل بڑھائے جا رہے تھے‘ لیکن پارلیمنٹ نے ایک بار بھی عوام کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی پر آواز نہیں اٹھائی۔ عالمی منڈیوں میں تیل کے نرخوں میں کمی کے باوجود‘ پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ پارلیمنٹ اس پر بھی خاموش رہی۔ تمام بڑے بڑے منصوبوں میں اندھادھند لوٹ مار کی گئی۔ پارلیمنٹ میں اس پر بھی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ بڑے بڑے منصوبوں میں اربوں روپے کی خوردبرد کے متعدد الزامات سامنے آئے۔ پارلیمنٹ میں ان میں سے ایک منصوبہ بھی زیربحث نہیں لایا گیا۔ ان میں میٹروبس سے لے کربجلی کے بڑے بڑے منصوبے شامل ہیں۔ لوگ روٹی کو ترس رہے تھے اور حکمران سارا پیسہ بڑے بڑے منصوبوں پر لگانے کی آڑ میں‘ اپنی جیبیں بھر رہے تھے۔کرپشن میں ارباب اقتدار کی دلچسپی کا یہ عالم تھا‘ بلکہ ہے کہ ملک کے بڑے بڑے محکموں اور کارپوریشنوں میں‘ سربراہوں کے منصب خالی پڑے تھے اور ان کی تقرریاں نہیں کی جا رہی تھیں۔ افواہیں یہ تھیں کہ حکومت ہر بڑے عہدے پر سودے بازی کر رہی ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی ملازمت بھی‘ رشوت کے بغیر ملنا محال ہو گیا۔ ایسی صورتحال میں عوام اپنی فریاد لے کر کس کے پاس جائیں؟ ایک تحریک انصاف کے سوا‘ پارلیمنٹ میں بیٹھے تمام اراکین‘ کسی نہ کسی طرح حکومت سے فائدے اٹھا رہے تھے۔ کسی نے وزارتیں لے رکھی تھیں۔ کسی نے اپنے رشتہ داروں کو بڑے بڑے عہدے دلوا رکھے تھے‘ جیسے محمود خاں اچکزئی‘ جنہوں نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے نام بنایا تھا‘ وہ بھی عہدوں کی لوٹ مار میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ دوسروں پر سبقت حاصل کر گئے۔ ایسی صورت میں عوام کہاں جاتے؟ڈاکٹرطاہر القادری اور عمران خان پہلے بھی احتجاج کرتے رہے ہیں‘ لیکن حال میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک‘ اس لئے کامیاب ہوئی کہ موجودہ حکومت نے پہلے ہی سال میں عوام کا کچومر نکال کر رکھ دیا۔ نوازشریف پہلے بھی دو مرتبہ وزیراعظم رہے ہیں۔ تب ان کی حکومت میںعوام کی آواز سنی جاتی تھی۔ خود وزیراعظم ‘ مظلوموں کی مدد کے لئے چلے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے سیلاب کے دوران غریبوں کے گرے ہوئے گھروں کی دیواریں تعمیر کرنے میں مدد کی۔ مصیبت زدہ لڑکیوں کے گھروں تک جا پہنچے۔ مگر اس مرتبہ 
وزیراعظم تو کیا؟ ان کا پورا خاندان ہی رائل فیملی کا درجہ اختیار کر گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی تحریکوں میں‘ عوام بڑھ چڑھ کر شریک ہو گئے۔ جب دارالحکومت میں دھرنوں کی وجہ سے‘ وفاقی حکومت بری طرح مفلوج ہو کر رہ گئی اور روزمرہ کا کام کاج بھی بند ہو گیا‘ تو وزیراعظم نے مجبور ہو کر فوج سے مدد مانگی۔ جنرل راحیل شریف نے آئین اور قواعد و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے‘ وزیراعظم کے حکم کی تعمیل کی اور انہی کے کہنے پر‘ احتجاج کرنے والی جماعتوں کی قیادت سے مذاکرات شروع کئے۔ جو لوگ اس اقدام کو ماضی کے طالع آزما جنرلوں کی ہوس اقتدار سے ملا کر دیکھ رہے ہیں‘ وہ سراسر ناانصافی کر رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ اپنا کام وزیراعظم کی تفویض کردہ ذمہ داریوں کے مطابق کر یں گے۔ کل میں اس موضوع پر اظہار خیال کروں گا کہ عوام‘ جنرل راحیل شریف سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں