تین کا دنگل تھا۔ تینوں میں کشتی ہوئی۔ کوئی جیتا‘ نہ ہارا۔ نقصان پاکستان کا ہو گیا۔ جھگڑا گزشتہ انتخابات سے شروع ہوا۔ پنجاب میں نوازشریف ناقابل شکست بن چکے تھے۔پیپلزپارٹی کی قیادت ہمت ہار کے سندھ میں دبک بیٹھی۔ کسی ایک پارٹی کی بالادستی سے فکرمند پاکستانی فوج ‘ مجیب اور بھٹو کے تجربے سے گزر کے برسوں پہلے فکرمند ہونے لگی تھی۔ پہلے‘ شیخ مجیب الرحمن دوتہائی کی فیصلہ کن اکثریت سے قومی اسمبلی پر قابض ہو گئے‘ تو ملک پر 13سال حکومت کرنے والی فوج کو نیا تجربہ ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد ‘ پاکستان کی دستورساز اور پھر قومی اسمبلی میں‘ کسی پارٹی کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ مختلف گروپ باہمی لین دین کر کے‘ اکثریت بناتے اور اس کے بل بوتے پر حکومت بنا لیتے۔جیسے ہی کابینہ حلف اٹھاتی‘ اس کے خلاف سازشوں کا آغاز ہو جاتا۔ ایک بار تو ایسا بھی ہوا کہ وزیر حلف اٹھانے کے بعد‘ گھروں کو واپس گئے‘ تو ان کے مہمان خانوں میں سیاسی بروکر براجمان تھے‘ جو نئی پیش کش لے کر آئے اور صرف 3مہینے میں وزیراعظم کو ہٹا کر‘ نیا وزیراعظم لے آئے۔ باربار ہارتے جیتتے سیاسی گروپوں کے ایک شاطر کھلاڑی نے سوچا ''کیوں نہ ترپ کا پتہ کھیل دیا جائے۔‘‘ ایوب خان درپردہ بنتی ٹوٹتی حکومتوں کو آتے جاتے دیکھ کراس کھیل میں شریک ہونے پر تیار ہوگئے۔ ادھر سکندر مرزا‘ سیاسی طالع آزمائوں کے پشتوں کے کشتے لگاتے ہوئے‘ سیاسی منظر پر چھا گئے۔ ایوب خان انہی کا ترپ کا پتہ تھا۔ کمانڈرانچیف کو ساتھ ملا کر سکندر مرزا مطمئن تھے اور پاکستان پر بلاشرکت غیرے حکومت کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔ اس دوران ایوب خان ‘ سیاستدانوں کی نالائقیاں دیکھ کر‘ پاکستان پر حکومت کرنے کے منصوبے بنا چکے تھے۔ انہوں نے اپنی کسی ڈائری میں لکھا ہے کہ اقتدار پر قبضے سے بہت پہلے ‘انہوں نے پاکستان کے لئے اپنے اصلاحاتی پروگرام پر سوچنا شروع کر دیا تھا۔ سوچ وہ رہے تھے۔ ہاتھ سکندر مرزا نے مار لیا۔ انہوں نے اقتدار پر پوری طرح قابض ہونے کے لئے‘ ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ تدبیر الٹی پڑ گئی۔ قبل اس کے کہ سکندر مرزا پھونک مارتے‘ گھوڑے نے پھونک مار دی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ گھوڑے کی طبیعت خراب ہونے پر اس کے مالک نے ڈاکٹر سے دوا لی۔ یہ ایک پائوڈر تھا۔ اسے ٹرے میں رکھ کر گھوڑے کے عین نتھنوں کے سامنے پھونک مارنا تھی۔ مالک نے جیسے ہی ٹرے‘ گھوڑے کے نتھنوں کے سامنے رکھ کر‘ پھونک مارنے کی تیاری کی۔ گھوڑا پہلے پھونک مار گیا اور مالک صاحب بے ہوش ہو گئے۔ یہی کچھ سکندر مرزا کے ساتھ ہوا۔ مارشل لا نافذ کرنے کے بعد وہ اپنے ترپ کے پتے کے بل بوتے پر‘ اقتدار مستحکم کرنے میں لگے تھے۔ ایوب خان نے پہلے وار کر دیا۔ انہوں نے دو جنرل سکندر مرزا کے پاس بھیجے۔ دونوں کی جیبوں میں بھرے ہوئے پستول تھے‘ جو بیٹھتے وقت انہوں نے‘ جیبوں سے نکال کر جھولی میں رکھ لئے اور سکندر مرزا سے مؤدبانہ درخواست کی کہ ازراہ کرم اپنی سبکدوشی کے پروانے پر دستخط کر دیں۔ سکندر مرزا کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ انہوں نے دستخط کئے اور ایوب خان نے سکندر مرزا کو جہاز میں لادکر لندن بھیج دیا۔ باقی زندگی انہوں نے ایک ریسٹورنٹ کے مینجر کی حیثیت سے لندن میں گزاری۔
ایوب خان نے قریباً 12سال بلاشرکت غیرے حکومت کی۔ اپنے زیرسایہ سیاستدانوں کی فصل کاشت کی۔ جس نے آگے چل کر پاکستان کو سیاسی قیادت کا نیا مواد فراہم کیا۔ پرانے سیاستدان گھروں میں بٹھا دیئے گئے۔ نئی فصل پروان چڑھتی ہوئی اس قابل ہو گئی کہ قائداعظمؒ کے زمانے کے تمام سیاستدان‘ اقتدار کے کھیل سے عملاً باہر ہو گئے۔ نئے سیاستدان میدان میں آئے۔ انہی کے تیار کردہ ایک سیاستدان‘ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی بنا کر ‘ ایوب خان کو چیلنج کر دیا۔ وہ اتنے کمزور پڑے کہ انہی کے بنائے ہوئے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے پھونک مار کے ایوب خان کو ہٹایا اور خود کرسی پر براجمان ہو گئے۔ وہ سیاسی کھلاڑی نہیں تھے۔ جتنے اناڑی تھے‘ خود کو اتنا ہی ماہر سمجھا کرتے۔ انہوں نے بھی اپنے پیشرو کی طرح الیکشن کرا کے مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہے۔ مگر کام نہ بنا۔ اس زمانے میں خفیہ ایجنسیاں سیاسی معاملات پر پوری طرح عبور حاصل نہیں کر پائی تھیں۔ یحییٰ خان کو اپنے سیاسی مشیروں پر انحصار کرنا پڑتا۔ مختلف جماعتوں نے انہیں‘ انتخابات میں اپنی اپنی کامیابی کے جھانسے دیئے۔ جھانسے دینے میں تو وہ کامیاب ہو گئے۔ الیکشن میں ناکام رہے۔ 1970ء کے انتخابات کے بارے میں جس حقیقت پر توجہ نہ دی گئی‘ وہ یہ تھی کہ جماعت اسلامی اور خان عبدالقیوم خان نے یحییٰ خان سے الیکشن کے لئے ‘ بھاری رقمیں بٹوریں۔ دونوں نے یحییٰ خان کو یقین دلا رکھا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کی 34 اور 40 کے درمیان نشستیں حاصل کر لیں گی۔ شیخ مجیب الرحمن اور مولانا بھاشانی بھی برابر کی نشستیں لے آئیں گے اور ہم سب کو ملا کر یحییٰ خان مرضی کی حکومت قائم کریں گے اور ہم اپنے اپنے دائو لگاتے رہیں گے۔ سکیم یحییٰ خان کو بہت پسند آئی۔ انہوں نے اپنی طرف سے ''پورے انتظامات‘‘ کر کے اطمینان سے الیکشن کرا دیئے۔ دھاندلی کی ضرورت ہی نہ سمجھی۔ لیکن قسمت دھوکا دے گئی۔ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کا مقابلہ صرف مولانابھاشانی کر سکتے تھے۔ وہ راستے سے ہٹ گئے۔ شیخ مجیب ایک کے سوا مشرقی پاکستان کی تمام نشستیں جیت لائے۔ صرف نورالامین کی بزرگی کا خیال کرتے ہوئے ان کے مقابلے میں امیدوار کھڑا نہیں کیا اور وہ کامیاب ہو گئے۔ جماعت اسلامی مغربی پاکستان میں بھی اپنے دعوے کے مطابق نشستیں حاصل نہ کر پائی اور نہ ہی مغربی پاکستان میںقیوم لیگ کی دال گلی۔ یہاں بھٹو صاحب اکثریت لے آئے۔ مشرقی پاکستان کی اعلیٰ قیادت‘ مغربی پاکستان کے جنرلوں اور جاگیرداروں کی سازشوں کی وجہ سے اقتدار میں کبھی اپنا حصہ نہ پا سکی۔ 1970ء تک مشرقی پاکستان کے تمام بڑے سیاستدان یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ انہیں علیحدہ ملک بنائے بغیر اقتدارنصیب نہیں ہو گا۔ بھٹو صاحب کو مجیب کے منصوبوں کا شایدعلم
تھا۔ دونوں نے مجیب الرحمن کو بھوت پھیریاں دے کر جنگ کی صورتحال میں پھنسایا اور کسی کو اس قابل نہ چھوڑا کہ آمریت سے آزاد ہونے والے ان دونوں ملکوں میں اقتدار پر اپنا دعویٰ کر سکتا۔ دونوں نے حکومتیں بنائیں۔ دونوںاپنی طاقت کے نشے میں سرشار تھے اور دونوں نے فوج پر غلبہ حاصل کر کے‘ اقتدار اپنے ہاتھوں میں سمیٹ لیا۔شکست کے صدمے سے نڈھال فوج نے سیاستدانوں کی بالادستی قبول تو کر لی۔ لیکن موقعے کی تلاش میں بیٹھ گئی۔ شیخ مجیب الرحمن کو جلد ہی اڑا دیا گیا اور بھٹو صاحب فوج کی دو سازشیں ناکام بنانے کے بعد‘ آخرکار 1977ء میں تیسری سازش کا شکار ہو گئے۔ فوج نے انہیں بھی پھانسی دے دی۔ دونوں ملکوں میں دوبارہ فوجی آمریت مسلط کر دی گئی۔ ہمارے حصے میں جنرل ضیاالحق کی آمریت آئی۔ جنرل ضیا نے پہلے مجلس شوریٰ بنا کر اور پھر غیرجماعتی انتخابات کرا کے‘ اپنی سیاسی فصل تیار کی اور شجرے دیکھ کر ‘ مکمل اختیارات کے ساتھ‘ اپنے زیرسایہ حکومت بنا لی۔ ان کے اپنے ہی بنائے ہوئے سیاستدانوں نے پرپرزے نکالنے کی کوشش کی‘ تو جنرل ضیا نے انہیں چلتا کیا۔ وہ اسلامی نظام نافذ کر کے امیرالمومنین بننے کے خواب دیکھ رہے تھے کہ قدرت نے انہیں آسمانوں ہی سے اٹھا لیا۔ جنرل ضیا کے طویل دور اقتدار میں‘ فوج پوری طرح اقتدار پر اپنا کنٹرول قائم کر چکی تھی۔ ان کی موت کے بعد10برس تک فوج نے پس پردہ رہ کر حکومت کی۔ اس دوران دو وزیراعظم بھگتائے۔ دونوں کو دو دو مرتبہ اقتدار ملا۔ جیسے ہی سال دو سال اقتدار میں رہ کر انہیںفوج پر برتری حاصل کرنے کا جوش چڑھا‘ فوج انہیں رخصت کرتی گئی۔ آخری وزیراعظم نوازشریف تھے۔ انہیں رخصت کرنے والے پرویزمشرف ہیں‘ جو آج مختلف مقدمات بھگت رہے ہیں۔ انہیں جیل میں ڈالنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی۔ پرویزمشرف کے بعد پیپلزپارٹی کو وفاق میں مخلوط حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ بے نظیربھٹو شہید ہو چکی تھیں۔ پارٹی کے سربراہ آصف زرداری تھے۔ انہوں نے روایتی سندھی زمیندار کی طرح ''سائیں! سائیں!‘‘ کرتے ہوئے 5سال گزار دیئے اور انتخابات منعقد کرا کے‘ اقتدار نوازشریف کے حوالے کر دیا۔ نوازشریف نے اقتدار میں آتے ہی‘ فوج پر غلبہ پانے کی کوشش میں پرویزمشرف کو حراست میں لیا اور غداری کا مقدمہ بنا کے‘ انہیں سزا دلوانے کی کوشش کی۔ جنرل کیانی کے بعد اپنی مرضی کا چیف آف آرمی سٹاف لگا کر‘ نوازشریف نے سوچا کہ جنرل راحیل شریف ان کے ممنون احسان ہوں گے اور وہ فوج پر غالب آ جائیں گے۔ وہ یہ اندازہ کرنے میں ناکام رہے کہ فوج پس پردہ رہ کراپنے مخصوص شعبوں میں پالیسی سازی کے اختیار پر قناعت کر گئی تھی۔ نوازشریف نے اس حقیقت کو تسلیم نہ کیا۔ حالات کچھ یوں بنے کہ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی نوازشریف کا دم چھلا بن کر سندھ کے کونے میں دبک کر بیٹھ گئی۔عمران خان ‘ نوازشریف کے مقابلے میں اپوزیشن لیڈر بن کر میدان میں اترے۔ ان کی کشتی میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا بھاری پتھر رکھ دیا گیا۔ دنگل کا بگل بجا‘ یہ تینوں فریق اکھاڑے میں کود پڑے۔ خوب زور آزمائی ہوئی۔ تینوں چت ہوئے۔ خسارے میں پاکستان رہا۔تینوں کچھ عرصے تک اپنی چوٹیں سہلائیں گے اور تازہ دم ہو کر‘ نئے دنگل میں اترنے کا انتظار کریں گے۔