ضمنی الیکشن‘ ایک یا دوچار نشستوں پر بھی ہو‘ تو حکمران جماعت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسمبلی میں اس کے پاس اچھی خاصی اکثریت موجود ہوتی ہے۔ معمول کے حالات میں کسی کی ہارجیت بے معنی ہے۔ بعض اوقات ایک نشست کا ضمنی انتخاب بھی قومی سیاست کا رخ بدل ڈالتا ہے۔ ہماری جمہوری تاریخ میں ‘ایسا ایک الیکشن لاہور میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ نمبر6کا ہوا تھا۔ اس وقت پیپلزپارٹی کی مستحکم حکومت قائم تھی۔ بھٹو صاحب ‘ عوام کی بھاری اکثریت کے ووٹ لے کر منتخب ہوئے تھے۔ ان کے سامنے کوئی دوسرا سیاسی لیڈر چیلنج کرنے کی پوزیشن میںنہیں تھا۔ اپوزیشن کی صورتحال ابتر تھی۔ اس کے حوصلے پست تھے۔ انہیں سجھائی نہیں دیتا تھاکہ بھٹو صاحب کی مضبوط حکومت کے سامنے‘ اپنے لئے کیا راستہ نکالیں؟ تب لاہور کی صوبائی نشست خالی ہوئی۔ بھٹو صاحب کے رفیق خاص‘ مصطفی کھر‘ جو ایک مرتبہ ناراض ہو کربھٹو صاحب سے صلح کر چکے تھے‘ نے ٹکٹ کے لئے درخواست دے دی۔ دونوں لیڈروں میں صلح رسماً تو ہو گئی تھی، لیکن باہمی اعتماد ختم ہو چکا تھا۔ بھٹو صاحب کے مشیروں نے حسب توقع مشورہ دیا کہ کھر صاحب کو ٹکٹ نہیں دینا چاہیے۔ اس پر طویل بحث مباحثہ ہوا۔ میں نے اس وقت رائے دی تھی کہ کھر صاحب کو ٹکٹ دے کر ‘ کسی مضبوط آزاد امیدوار سے ہرا دینا چاہیے۔اگر وہ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے مقابلے پر اتر آئے‘ تو زیادہ خطرناک ہو جائیں گے۔ لیکن ہر مستحکم حکومت کے سربراہ کی طرح‘ بھٹو صاحب کا اعتماد بلندیوں پر تھا۔ وہ مقبولیت کے پرانے زمانے میں بیٹھے تھے اور ان کا خیال تھا کہ پیپلزپارٹی کے ادنیٰ کارکن کو ٹکٹ دے کر بھی جتوایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ایک غریب سے کارکن شیرمحمد بھٹی کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ کھر صاحب امیدوار بن کر سامنے آ گئے اور پھر صوبائی اسمبلی کا یہ الیکشن پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایسا الیکشن ثابت ہوا‘ جس نے پورا منظر ہی بدل کے رکھ دیا۔
مایوس اور بے حوصلہ اپوزیشن کو قوت آزمائی کا بہانہ مل گیا۔ میڈیا‘ بھٹو صاحب کا روایتی مخالف تھا۔ وہ میدان میں آیا۔ اپوزیشن نے جمع ہو کراپنی طاقت‘ کھر صاحب کی انتخابی مہم میں جھونک دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ضمنی الیکشن‘ بھٹو صاحب کی سیاسی طاقت کے لئے چیلنج بن گیا۔عوام جو پیپلزپارٹی کے لیڈروں کی لوٹ مار اور دھونس دھاندلی سے تنگ آئے ہوئے تھے‘ پیپلزپارٹی کی مخالفت میں نکل کھڑے ہوئے۔ پارٹی اور ایجنسیوں کی رپورٹیں‘ خطرے کی گھنٹیاں بجانے لگیں۔ بھٹو صاحب کو اپنی سیاسی طاقت کا بھرم رکھنے کے لئے میدان میں اترنا پڑا۔ مصطفی کھر کے انتخابی جلسے بھرپور ہوتے گئے۔ جبکہ شیرمحمد بھٹی کو کارنر میٹنگ کے لئے بھی حاضرین نہیں ملتے تھے۔ کھر صاحب نے اپنے حلقے میں ایک بھرپور انتخابی جلسہ رکھا۔ حاضرین کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس جلسے میں بھگدڑ مچائی گئی۔ کھر صاحب سٹیج سے کود کر بھاگ نکلے۔ سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے، لیکن کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ اس کے بعد پولیس ‘ کھر صاحب کے مقابلے پر اتر آئی۔ ان کا حلقے میں جانامشکل ہو گیا۔ الیکشن والے دن‘ حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے‘ تمام پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ کر لیا۔اندھا دھند ووٹ بھگتائے گئے اور کھر صاحب بھاری اکثریت سے ہار گئے۔ حکمران جماعت نے الیکشن تو جیت لیا، لیکن اس کی سیاسی شکست کا آغاز ہو گیا۔ بھٹو صاحب کی ناقابل شکست سیاسی طاقت کا بھرم کھل گیا اور اپوزیشن نے پھر سے قدم جمانا شروع کر دیئے۔ حکمران جماعت کی عدم مقبولیت کا عملی ثبوت دیکھ کر‘ بھٹو صاحب کی مخالف طاقتوں نے نئی صف بندیاں کیں۔ نئے منصوبے بنائے اور صورتحال ایسی پیدا کر دی کہ بھٹو صاحب کو قبل ازوقت انتخابات کا فیصلہ کرنا پڑا۔1977ء میں انتخابات ہوئے۔ ان میں بھٹو صاحب واقعی جیت چکے تھے، لیکن حلقہ 6 کے ضمنی الیکشن کی کہانیاں ‘ عام انتخابی نتائج کے حوالے سے دہرائی گئیں، حالانکہ عام انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی تھی۔ عوام نے بھٹو صاحب کو خطرے میں دیکھ کر‘ ان کی بھرپور حمایت کی۔ وہ الیکشن جیت گئے۔ لیکن حلقہ نمبر6کی رسمی کامیابی کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا‘ اسے عام انتخابات پر چسپاں کر کے‘ مفروضہ دھاندلی کے خلاف مہم چلا دی گئی۔ آگے سب تاریخ ہے۔ بھٹو صاحب کے داخلی اور خارجی دشمنوں نے مل کر انہیں گھیر لیا اور اس کے بعد کی کہانی ہم سب جانتے ہیں۔
ملتان میں حالیہ ضمنی الیکشن‘ مختلف وقت اور حالات میں ہوا۔ مگر سیاسی نتائج کے اعتبار سے ‘ حکومت کے مستقبل پر‘ اس کے گہرے اثرات ہوں گے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ اس ضمنی الیکشن کا موقع جان بوجھ کر پیدا کیا گیا۔ ن لیگ کی حکومت‘ دھرنوں کی وجہ سے شدید دبائو میں آ چکی تھی۔ نوازشریف شدید مشکلات میں گھرے بلکہ گھبرائے ہوئے تھے۔ ان کی بے بسی دیکھ کر‘ عوام کے دلوں میں ان کے لئے ہمدردیاں پیدا ہونے لگیں۔ ایک بار پہلے انہیں غیرجمہوری طریقے سے ہٹایا جا چکا تھا۔ عمران خان کی پارٹی بلاشبہ مقبولیت حاصل کر رہی تھی، لیکن ''ماہرین‘‘ نے بھانپ لیا کہ اگر اس وقت نوازشریف کو پھر اچانک اور زبردستی ہٹایا گیا‘ تو نہ صرف وہ مظلوم بن جائیں گے بلکہ عوام بھی ان کے حق میں نکل کھڑے ہوں گے اور کوئی سیاسی جماعت یا تو الیکشن جیت ہی نہیں سکے گی اور زبردستی پٹھو سیاستدان مسلط کئے گئے‘ تو وہ سنبھل نہیں پائیں گے اور براہ راست غیرجمہوری قوتیں‘ ماضی کے فوجی حکمرانوں کی طرح‘ ملکی حالات پر کنٹرول قائم نہیں کر پائیں گی۔ بنے بنائے نقشے کو بگڑتا دیکھ
کر‘ غیرمتوقع واقعہ ہوا کہ جاوید ہاشمی نے اچانک ''سازش‘‘ کا انکشاف کر کے قابو سے باہر ہوتے ہوئے حالات کو‘ دوبارہ سنبھالنے کی صورتحال پیدا کر دی۔ پارلیمنٹ مدد کے لئے آ گئی۔ نوازشریف کا اعتماد بحال ہو گیا اور عمران خان کی کامیابی کی طرف بڑھتی ہوئی سیاست‘ جس زوال کا شکار ہونے جا رہی تھی‘ اس سے محفوظ رہ گئی۔جاوید ہاشمی نے جو نشست خالی کی تھی‘ اس پر ضمنی انتخاب میں ‘حکمران جماعت کی عوامی مقبولیت کابھرم کھل گیا۔ تحریک انصاف یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ اسے عوام کی جائز اور سچی حمایت حاصل ہے۔ نوازشریف کو درحقیقت اتنی عوامی تائید حاصل نہیں‘ جو 2013ء کے انتخابات میں ظاہر کی گئی تھی۔
اب بے خوف و خطر ہو کے‘ انتخابات میں ن لیگ کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔وہی اپوزیشن‘ جس نے پارلیمنٹ میں نوازشریف کے بچائو کے لئے‘ آئین اور جمہوریت کے نام پر ان کا ساتھ دیا‘ سب نے قبل ازوقت انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ عمران خان اپنی سیاسی مہم کو برقرار رکھتے ہوئے‘ چڑھائی جاری رکھیںگے۔ پیپلزپارٹی اپنے اکھڑے ہوئے قدم‘ دوبارہ جمانے کی کوشش کرے گی۔ نئے نئے سیاسی اتحاد معرض وجود میں آئیں گے۔ انتخابی طاقت رکھنے والے امیدوار‘ ابھی سے اپنے اپنے حلقوں میں کام شروع کر چکے ہیں یا کرنے والے ہیں۔ ملتان کے الیکشن نے ثابت کر دیا ہے کہ نوازشریف‘ حکومت میں رہ کر بھی سرکاری طاقت سے ایک حلقے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے‘ تو پورے ملک میں کیسے کریں گے؟ پنکچر لگانے مشکل ہوں گے۔ اب واقعات کو غور سے دیکھتے جایئے۔ ہر روز ایسی خبریں پڑھنے کو ملیں گی ‘ جن میں آنے والے واقعات کی آہٹیں سنائی دیں گی۔ بڑے بڑے انکشافات ہوں گے۔ رازکھلیںگے اور جب عام انتخابات کا اعلان ہو گا‘ تو فضا بدل چکی ہو گی۔ بظاہر ایسی ایک بھی جماعت دکھائی نہیں دے رہی‘ جو فیصلہ کن اکثریت حاصل کر کے‘ حکومت بنا سکے۔ عمران خان بہرحال مرکزی کھلاڑیوں میں ہوں گے، لیکن اس کا اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے کہ وہ حکومت کی سربراہی بھی کر پائیں گے؟ اگریہ فیصلہ کیا گیا کہ کرپشن کی موجودہ سطح برقرار رکھتے ہوئے‘ ملک کو چلانا مشکل ہو گا‘ تو احتساب کا جھاڑو حرکت میں لایا جائے گااور تطہیر کے بعد‘ ایک موثر اور فعال انتظامیہ کھڑی کی جائے گی۔ پاکستان کو عدم استحکام سے بچانے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ اس وقت بھارت سمیت دنیا بھر میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو‘ جو پاکستان میں عدم استحکام کے نتائج سے خائف نہیں۔ ہر ایک کی یہی کوشش ہے کہ پاکستان کے اندر سیاسی اور سماجی استحکام پیدا ہو اور یہاں ایک موثر حکومت وجود میں آ کے‘ معاشی اور سماجی بحران ختم کرنے کے راستے پر گامزن ہو۔دوسری کوئی بھی صورت‘ ہمیں عدم استحکام اور گہرے بحران کی طرف لے جائے گی۔ اس کے نتائج ہمارے لئے ہی نہیں‘ پورے خطے کی حکومتوں اور عوام کے لئے خطرناک ہوں گے۔باقی رہ گئی ''سازش‘‘ کی کہانی‘ تو اس لطیفے پر ہنسنے کا وقت بھی جلد آ جائے گا۔