کچھ قومیں مستقبل کو برسوں میں دیکھتی ہیں‘ کچھ عشروں میں اور کچھ صدیوں میں۔مستقبل کی منصوبہ بندیاں کرتے ہوئے‘ چینی صدیوں کا منظرنامہ سامنے رکھتے ہیں۔ میں اکثر ہانگ کانگ کی مثال دیاکرتا ہوں کہ جب ہانگ کانگ پر برطانیہ کی لیز ختم ہو رہی تھی اور چین‘ برطانیہ کی جگہ وہاں اپنی حاکمیت قائم کرنے کا حقدار ہونے والا تھا‘ تو برطانوی حکمرانوں نے حسب عادت‘ ہانگ کانگ پر کسی نہ کسی حالت میں اپنے اثرورسوخ کو طول دینے کے حیلے بہانے شرع کر دیئے۔ بہانے مختلف انداز کے تھے۔ کبھی کہا جاتا ‘ یہاں کے عوام کی اکثریت انگریزی زبان جانتی ہے۔ آپ یہاں زبردستی چینی زبان نافذ کر دیں گے۔ یہاں کے لوگ جمہوریت کے عادی ہیں۔ آپ کا نظام جمہوری نہیں۔ ہانگ کانگ پر کنٹرول کے بعد‘ آپ چینی نظام مسلط کر دیں گے۔ غرض اسی طرح کے مختلف بہانے بنا کر‘ برطانیہ درحقیقت وہاں کسی نہ کسی انداز میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ مذاکرات کے متعدد دور ہوئے۔ انگریزوں کے حیلوں بہانوں میں فرق نہ پڑا۔ ہانگ کانگ کی چین کو واپسی کا وقت نزدیک آتا جا رہا تھا۔ اس وقت ڈنگ شیائوپنگ چین کے رہنما تھے۔ معاملہ ان کے سامنے رکھا گیا۔ چینی مذاکرات کاروں سے ڈنگ نے پوچھا کہ برطانیہ کب تک ہانگ کانگ میں اپنی مزید موجودگی رکھنا چاہتا ہے؟ جواب ملا‘ وہ دس بیس سال کا عرصہ چاہتے ہیں۔ ڈنگ کا جواب تھا‘ آپ انہیں 50 سال دے دیں۔ انہیں بہرحال جانا ہے۔ ہمیں بہرحال یہیں رہنا ہے۔ ان کی ساری شرطیں بھی مان لیں اور انہیں بروقت ہانگ کانگ چھوڑنے پر آمادہ کر لیں۔ انگریز حیران رہ گئے۔ بہت غور کیا کہ چین جو آٹھ دس برسوں کی مزید مہلت دینے کو تیار نہیں تھا‘ اس نے ازخود 50 برس کی آفر کیسے کر دی؟ اس نے حیرت کے عالم میں یہ زبردست رعایت قبول کرتے ہوئے‘ اپنی حکومت لیز ختم ہونے کے ساتھ ہی رخصت ہونے کا معاہدہ کر لیا۔
ابتدائی چند سال برطانوی انتظامیہ ہی موجود رہی۔ چین کا نمائندہ علامتی سربراہ کے طور پر ہانگ کانگ میں داخل ہو۔ ایک عظیم الشان جشن کے ماحول میں انگریز رخصت ہو گئے اور چین اپنے اس جزیرے کا کنٹرول سنبھالنے آ گیا۔ نئے انتظامی سربراہ نے آتے ہی اعلان کر دیا کہ معیشت جوں کی توں برقرار رہے گی۔ شہریوں کے طرززندگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تجارتی آزادیاں اسی طرح حاصل رہیں گی۔ ایک نظام سے دوسرے نظام میں منتقلی کا عمل اچانک نہیں بلکہ بتدریج ہو گا تاکہ عوام کو اپنے معمولات میں کوئی فرق محسوس نہ ہو۔ یہ عمل شروع کر دیا گیا۔ برطانیہ کو رخصت ہوئے ابھی دوسرا عشرہ پورا نہیں ہوا کہ ہانگ کانگ اپنی تمام تر انفرادی خصوصیات کے ساتھ چین کا حصہ بن چکا ہے۔ کبھی کبھار تھوڑی بہت عوامی شکایت سامنے آ جاتی ہے‘ مظاہرے بھی ہو جاتے ہیں‘ لیکن ہانگ کانگ کی عالمی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہاں عالمی مالیاتی ادارے اسی طرح کام کر رہے ہیں۔ کرنسی کے کھلے لین دین کی آزادی ہے اور آج دنیا ڈنگ شیائوپنگ کے ان الفاظ کا مفہوم واضح طور سے سمجھنے لگی ہے۔ جب یہ کہے گئے تھے‘ تو کسی کو ان پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ الفاظ یہ تھے''قوموں کی زندگی میں برسوں کا عرصہ کچھ نہیں ہوتا۔ وہ 10سال مانگتے ہیں تو دے دیں۔ 50 برس مانگتے ہیں‘ تو بھی دے دیں۔ اس سے زیادہ وہ سوچ بھی نہیں پائیں گے۔ 50سال گزرنے کے بعد کسی کو یاد بھی نہیں ہو گا کہ لوگ ایک طرززندگی سے نکل کر‘ دوسرے میں داخل ہو چکے ہیں۔‘‘ جس رفتار سے ہانگ کانگ اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے‘ چینی معاشرے کا حصہ بنتا جا رہا ہے‘ اب کسی کو شک نہیں رہا کہ ڈنگ شیائو پنگ کی بات درست تھی۔
چین نے جب موجودہ صدی میں داخل ہونے کی تیاریاں کی تھیں‘ تو اس کے منصوبے بہت کم عالمی ماہرین کی سمجھ میں آئے تھے۔ بیشتر عالمی رہنمائوں کا خیال تھا کہ چینی قیادت ہوائی قلعے بنا رہی ہے۔ وہ اپنے ملک میں حکومتی نظام ہی پوری طرح نہیں سنبھال پا رہی اور باتیں صدیوں کی کر رہی ہے۔ 21ویں صدی کو شروع ہوئے‘ ابھی 15 سال بھی نہیں ہوئے کہ چین کے منصوبوں کی جھلکیاں دکھائی دینا شروع ہو چکی ہیں۔ یاد رہے‘ چینیوں نے 21ویں صدی کو کبھی اپنی منزل قرار نہیں دیا۔ ان کے نزدیک یہ عبوری صدی ہے۔ چین کا اصل زمانہ 22ویں صدی میں آئے گا۔ اس وقت وہ دنیا کا تجارتی‘ مالیاتی اور مواصلاتی مرکز بن چکا ہو گا۔ جو نشانیاں ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو چکی ہیں‘ وہ کچھ اس طرح ہیں کہ چین کاسلک روڈ‘ اکنامک بیلٹ کا منصوبہ شروع ہو چکا ہے۔ اسے میری ٹائم سلک روڈ بھی کہا جا سکتا ہے۔ میں قریباً ڈیڑھ سال پہلے اس منصوبے کی ابتدائی جھلکیاں‘ انہی کالموں میں پیش کر چکا ہوں اور آج جس وقت یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ چین نے تعمیر شروع کرنے کے لئے 40ارب یو ایس ڈالر کی پہلی قسط‘ ریلیز کر دی ہے اور اس دوران یہ بحری اور بری سڑک جن ملکوں سے گزرے گی‘ ان سب میں تعمیری عمل کے مختلف مرحلے‘ ایک ساتھ شروع کئے جائیں گے۔ چین نے اپنی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی طرف‘ سڑک کے بری حصے کے سرویز شروع کر دیئے ہیں۔ مغرب میں گرینڈ سلک روڈ کو پاکستان سے گزرتے ہوئے‘ ایران میں داخل ہونا تھا‘ لیکن پاکستان اور افغانستان کی داخلی صورتحال کو دیکھتے
ہوئے‘ مستقبل کے بارے میں ٹھوس اندازے نہیں لگائے جا سکتے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ چین بنیادی روٹ کو عارضی طور پر موقوف کرتے ہوئے‘ واخان کوریڈور سے تاجکستان کی طرف رخ کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ یہ روٹ اختیار کیا گیا‘ تو دونوں قریبی ملکوں کو بائی پاس کر کے‘ سڑک وسطی ایشیا سے ہوتی ہوئی‘ ایران میں داخل ہو جائے گی اور اس طرح ہم مستقبل کے ترقیاتی عمل سے دور رہ جائیں گے۔جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ چین دنوں اور برسوں کی نہیں‘ صدیوں کی سوچتا ہے۔ بری بحری سڑک کا بنیادی روٹ بھی پیش نظر رکھا جائے گا۔ جونہی حالات سازگار ہوئے‘ سڑک کا یہ حصہ بھی تعمیر کر کے‘ مرکزی سڑک سے جوڑ دیا جائے گا۔ جس کا روٹ پاکستان سے ایران کی طرف ہو گا اور پھر وہی راستہ مرکزی سڑک کا درجہ اختیار کر جائے گا‘ جو مناسب وقت پر پاکستان میں تعمیر ہو گا۔تعمیروترقی کے عمل کو مشرق میں منتقل ہوتے دیکھ کر‘ روس اپنا مستقبل ‘چینی منصوبوں سے منسلک کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ ماسکو‘ یورو اور امریکی ڈالرسے بتدریج علیحدگی اختیار کرتا ہوا‘ اپنے مالیاتی لین دین کو چین کے سٹاک ایکسچینج سے منسلک کر دے گا۔ روسیوں نے ابھی سے اس کے منصوبے بنانا شروع کر دیئے ہیں۔ وہاں کے بی ٹی بی بنک نے یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ وہ اپنا لین دین لندن سے شنگھائی منتقل کرے گا۔ شنگھائی سٹاک ایکسچینج‘ ہانگ کانگ سے مربوط ہوگا۔ ہانگ کانگ پہلے ہی انرجی کے روسی جائنٹس (Giants) کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اگر آپ چینی یوان اور روبل کے دہرے لین دین کا تصور کریں‘ تو منظر کافی واضح ہو جاتا ہے۔ روس کو اندازہ ہو گیا ہے کہ مغربی بلاک کے ملک اس کی کرنسی کی ویلیو گھٹانے کے لئے روبل کو بتدریج نقصان پہنچا رہے ہیں۔ قبل اس کے کہ روسی معیشت مزید نقصان اٹھائے‘ وہ اپنی کرنسی کو یوان سے ملا دے گا۔ یہ ایک بہت بڑا دھماکہ ہو گا۔ روس‘ بالخصوص سائبیریا کے انرجی کے ذخائر کی تجارت‘ جب روبل اور یوان میں منتقل ہو گی‘ تو عالمی ماہرین اس کا اندازہ لگا کر پریشان ہو جاتے ہیں کہ ڈالر اور یورو کی قدر برقرار رکھنے کے لئے انہیں کیا کچھ کرنا پڑے گا؟ یہ تعاون یہیں تک محدود نہیں رہے گا۔ روس اور چین اس مالیاتی ساجھے داری کے ساتھ فوجی ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی تعاون شروع کر سکتے ہیں۔ خصوصاً ماسکو S-400 اور مستقبل میں S-500 چین کو بیچنا شروع کرے گا‘ تو امریکہ کا سارا دفاعی نظام ان کے سامنے Sitting Ducks بن کر رہ جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ بیجنگ اپنے سطح زمین سے بحری جنگی جہازوں کو نشانہ بنانے والے میزائلوں کو مزید ترقی دے گا تو امریکہ‘ نیوی اور فضائی‘ جو بھی وسائل جمع کر سکے گا‘ سب چین کے نشانے پر ہوں گے۔ آج کا کالم یہیں پر ختم۔ اگلی قسط میں عرض کروں گا کہ آنے والی صدیوں میں‘ انسانی معاشرے کیا کیا صورتیں اختیار کریں گے؟ عین ممکن ہے جب وہ دنیا معرض وجود میں آئے‘ تو چین کی حیثیت انجن کی ہو جائے اور دوسرے ملک اس کے پیچھے لگے ہوئے ڈبے ہوں۔(جاری)