"NNC" (space) message & send to 7575

پاک امریکہ تعلقات کا نیا دور

واشنگٹن کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو یہ بتایا کہ ''پاکستانی جنرل نے امریکی حکام سے کہا ہے کہ بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر جس طرح کارروائی ہو رہی ہے اور جس طرح کے بیانات آ رہے ہیں‘ وہ دہشت گردی کے خلاف ہماری مہم پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے اپنی مغربی سرحد پر ایک لاکھ 40 ہزار فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ امید یہ تھی کہ مشرق میں بھارت سے متصل سرحد پر امن رہے گا‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ‘‘ خبر کے مطابق پاکستانی آرمی چیف کے ان تحفظات پر‘ امریکہ کے سرکاری ردعمل کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل پایا‘ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اب بھارت اور پاکستان کے باہمی معاملات میں مداخلت سے گریز کرتا ہے۔ میں اس رپورٹ کوامریکی اہلکار کی شرارت ہی سمجھوں گا‘ کیونکہ یہ حقیقت ہر پاکستانی کو معلوم ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا روایتی تعلق ختم ہو چکا ہے۔جنوبی ایشیا کے خطے میں بھارت کے من مانی کرنے کے اختیار کو امریکہ نے 1970ء میں تسلیم کر لیا تھا۔ اس سال نکسن ڈاکٹرین جاری ہوئی تھی‘ جس میں واضح طور سے درج تھا کہ ''امریکہ ‘ بھارت کو ایک علاقائی طاقت کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے۔‘‘ اس وقت پاکستان ابھی متحد تھا۔ افغان جنگ کا نام و نشان نہیں تھا۔ یہ جنگ کئی برسوں کے بعد 1979ء میں شروع ہوئی۔ اسی جنگ کی وجہ سے امریکہ نے پاکستان کو سٹریٹجک پارٹنر ہونے کا جھانسہ دیا۔ اسی جنگ کی وجہ سے بھارت اور امریکہ کے درمیان یہ سمجھوتہ ہوا تھا کہ پاکستان‘ افغان جنگ میں بے فکری سے اپنا کردار ادا کرے‘ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ یہ ضمانت مرارجی ڈیسائی نے دی تھی اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا تھا۔ جنرل ضیاالحق نے اس پر بھارتی وزیراعظم کو پاکستان کا بہت بڑا اعزاز بھی دیا تھا۔ 
امریکہ کے ساتھ ہمارا وہ انتظام‘ سوویت یونین کی واپسی کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تھا۔ 9/11کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر فوج کشی کا فیصلہ کیا‘ تو یہ پاکستان کے ساتھ کسی سمجھوتے کا نتیجہ ہرگز نہیں تھا۔ امریکہ نے حملے کا فیصلہ پہلے کر لیا اور بعد میں ہمیں پیغام دیا کہ'' اگر اس جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دو گے‘ تو تمہیں پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا جائے گا۔‘‘اس دور کے باخبر لوگوں نے بتایا تھا کہ فوجی حکمران پرویزمشرف کو‘ جب ٹیلی فون پر یہ دھمکی دی گئی‘ تو انہوں نے کوئی شرط یا مطالبہ رکھے بغیر سرتسلیم خم کر دیا اور امریکہ کو افغان جنگ میں ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ اس وقت بھی امریکہ نے بھارت کے ساتھ یہ انتظام کیا تھا کہ جب تک امریکہ ‘ افغانستان کے اندر اس جنگ میں پاکستان سے مدد لے رہا ہے‘ مشرقی سرحدوں پر اس کے ساتھ چھیڑخانی سے گریز کیا جائے۔ جب تک افغانستان کی جنگ میں امریکہ اور پاکستان ایک دوسرے کے قابل اعتماد ساتھی رہے‘ اس سمجھوتے کی پابندی کی گئی‘ لیکن جب امریکیوں کو پتہ چلا‘ یا انہوں نے محسوس کیا کہ پاکستان‘ ان سے کولیشن سپورٹ فنڈ کے اربوں ڈالر لے کر‘ امریکی فوجوں پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے‘ تو باہمی اعتماد کا یہ رشتہ ختم ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت اور امریکہ کے درمیان یہ سمجھوتہ بھی ختم ہو گیا کہ جب تک پاکستان ‘ افغانستان میں امریکی جنگ میں اس کی مدد کر رہا ہے‘ بھارت کی طرف سے اس کے لئے پریشانی پیدا نہیں کی جائے گی۔ جیسے ہی امریکہ اس حتمی فیصلے پر پہنچ گیا کہ پاکستان امریکی فوجیوں کے خلاف کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے‘ تو پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری آ گئی تھی اور 2010ء میں تو امریکہ اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون بھی عملی طور پر ختم ہو گیا۔ باہمی اعتماد کا رشتہ بھی باقی نہ رہا۔ پاکستانی حکمرانوں اور امریکیوں کے درمیان کیسے کیسے مضحکہ خیز واقعات رونما ہوئے‘ ان کا اندازہ میموگیٹ سکینڈل سے کیا جا سکتا ہے۔ اس سکینڈل میں اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف سے لے کر‘ آئی ایس آئی کے ڈی جی تک سب ملوث تھے۔ اس وقت کی حکومت اور امریکی انتظامیہ کی طرف سے بظاہر تو تحمل کامظاہرہ کیا گیا‘ لیکن حقیقت یہ تھی کہ پاک امریکہ تعلقات ‘ جو عدم اعتمادی کا شکار تھے‘ باہمی بدگمانی میں بدل گئے اور کئی مرحلوں پر تو تلخی بھی پیدا ہوئی۔ یہ تھے وہ حالات جن میں جنرل راحیل شریف نے‘ پاک فوج کی قیادت سنبھالی۔ انہیں ذمہ داریاں سنبھالتے ہی ایک اور مشکل سے واسطہ پڑ گیا۔ نئی منتخب حکومت نے دہشت گردوں کے ساتھ بغیرکسی پیشگی شرط کے براہ راست مذاکرات شروع کر دیئے۔ یہ دہشت گرد50ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کو شہید کر چکے تھے‘ جن میں پاک فوج کے ہزاروں افسر اور جوان بھی شامل تھے۔ امریکہ پہلے ہی ان سے زخم خوردہ تھا۔ مذاکرات کے فیصلے کا پاک فوج پر گہرا اثر ہوا اور جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا فیصلہ کر کے‘ آپریشن کا آغاز کر دیا اور اس طرح پاکستان اور امریکہ کے مفادات میں ہم آہنگی پیدا ہونے لگی۔ پاک فوج نے کسی شرط اور مدد کے بغیر اپنے وسائل کے بل بوتے پر دہشت گردوں سے ٹکر لی اور آپریشن ضرب عضب شروع کر کے‘ میدان جنگ میں ثابت کر دیا کہ وہ یہ کارروائی از خود اور اپنے ہی بل بوتے پر کر رہے ہیں۔ نہ انہیں کسی خوشنودی مطلوب ہے اور نہ ہی وہ کسی طرف سے امداد کی توقع رکھتے ہیں۔ امریکہ نے اس آپریشن کو گہری دلچسپی سے دیکھنا شروع کیا۔ جب زمینی حقائق سے یہ ثابت ہو گیا کہ پاک فوج کی یہ تازہ کارروائی‘ کسی مصلحت ‘ خوشنودی یا مفاد کی خاطر شروع نہیں کی گئی‘ یہ پاک فوج کا اپنا مشن ہے اور وہ اپنے ملک اور عالمی برادری کے حقیقی مفاد میں یہ جنگ لڑ رہی ہے اور اس مرتبہ اس کا مقصد کسی دوسرے ملک سے پیسے بٹورنا یا فوائد حاصل کرنا نہیں‘ عالمی برادری کو دہشت گردی سے بچانے کے لئے پاکستان اپنی حد تک موثر کردار ادا کر رہا ہے‘ تو اس یقین کے بعد‘ امریکہ نے پاک فوج کے ساتھ دوبارہ اعلیٰ سطحی رابطے شروع کئے۔ دوطرفہ ملاقاتوں کے دوران‘ اعتماد کی ایک نئی فضا قائم ہونے لگی۔ اسی کے نتیجے میں جنرل راحیل شریف کو امریکہ کے دورے کی باضابطہ دعوت دی گئی۔ اس دورے میں جنرل راحیل شریف کی جس طرح پذیرائی ہوئی‘ اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ امریکی انتظامیہ ‘ جنرل راحیل شریف کے بارے میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں رکھتی۔ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف جو آپریشن شروع کیا ہے‘ اس کی واحد وجہ پاکستان کے قومی مفادات ہیں۔ پاکستان کی نئی فوجی قیادت نے کسی بیرونی امداد یا انعام کی خاطر یہ فیصلہ کن جنگ شروع نہیں کی۔ تو فیصلہ ہوا کہ اس جنگ میں پاکستان پر کوئی مشکل آئے‘ تو اس کی مدد کرنا چاہیے۔ جنرل راحیل شریف کی پالیسیوں کو دیکھ کر چین اور روس کو بھی اندازہ ہو گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کسی فائدے کی امید میں جنگ نہیں کر رہا‘ بلکہ وہ قومی مفاد میں‘ اپنے بل بوتے پر دہشت گردوں سے برسرپیکار ہے۔ 
اس پس منظر میں گزشتہ چند روز کے واقعات کا جائزہ لیا جائے‘ تووہ بدلے حالات کا منطقی نتیجہ دکھائی دیتے ہیں۔ جنرل عاصم باجوہ کا وہ بیان کہ ''ہم دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کر رہے ہیں‘‘۔ فوج کا نقطہ نظر تھا۔ حکومت پاکستان کے ترجمان کا بیان کہ ''ہم ایسے دہشت گردوں کو کیوں ماریں‘ جو ہمیں نقصان نہیں پہنچاتے‘‘اس سوچ کی ترجمانی کر رہا تھا‘ جس نے اپنی ہی فوج اور عوام کے قاتلوں کے ساتھ غیرمشروط مذاکرات شروع کر دیئے تھے۔ حکومتی بیان پر امریکیوں کو شدید تشویش ہوئی۔ اندیشہ پیدا ہو گیا کہ پاک امریکہ مذاکرات کا‘ جوسلسلہ امریکہ میں جاری ہے‘ کہیں وہی بے نتیجہ نہ ہو جائے؟ اندازہ ہے کہ فوج نے فوری طور پر وزارت خارجہ کی طرف سے اس اعلان کا اہتمام کیا کہ پاکستان کی پالیسی وہی ہے‘ جس کی وضاحتیں جنرل راحیل شریف ‘ امریکیوں کے ساتھ مختلف ملاقاتوں میں کر رہے ہیں۔ واشنگٹن سے آنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوا کہ جنرل راحیل کے میزبانوں میں‘ یہ موقف سامنے آنے پر بے چینی پیدا ہونے لگی تھی۔ وزارت خارجہ کی وضاحت سے صورتحال بہتر ہو گئی۔اب امید ہے کہ پینٹاگون اور جی ایچ کیو میں اعتماد کا جو رشتہ قریب قریب ختم ہو گیا تھا‘ اب بحال ہو جائے گا۔ خطے اور دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں یہ نیا رشتہ‘ نئی بنیادوں پر استوار ہو گا۔ اس مرتبہ پاک فوج نے کسی سے مدد کی امید رکھے بغیر ‘عالمی برادری کے مشترکہ دشمن یعنی دہشت 
گردوں کے خلاف اپنے زوربازو پر بھروسہ کرتے ہوئے‘ ٹھوس کارروائی شروع کی اور حالیہ مذاکرات اسی کی وجہ سے خوشگوار اور پروقار انداز میں شروع ہوئے۔ جنرل راحیل شریف کو ''لیجن آف میرٹ میڈل‘‘ ایک سچے سپاہی کی حیثیت میں دیا گیا ہے‘ باوردی سیاستدان کو نہیں۔ یہ امریکی فوج کے دو اعلیٰ ترین اعزازات میں سے ایک ہے۔ درج بالا وجوہ کی بنا پرمیں کہہ سکتا ہوں کہ ایک گمنام شخص نے جنرل راحیل شریف سے یہ بات غلط منسوب کی ہے کہ انہوں نے امریکہ کے سامنے جنگ بندی لائن پر بھارتی کارروائیوں کے حوالے سے کوئی شکایت کی۔امریکہ کون ہے؟ جس سے ہم اپنے مخالفین کی شکایتیں لگائیں۔ ایک خوددار قوم اپنے مسائل کا سامنا ‘ اپنی طاقت سے کرتی ہے۔اگر بھارت کی طرف سے جنگ بندی لائن کی خلاف ورزیوں کا ذکر آیا بھی ہوگا تو اس کی وجہ ان ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے جو دہشت گردی کے خلاف عالمی ذمہ داریوں کے تحت بھارت پوری نہیں کر رہا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں