کٹھمنڈو میں حالیہ سارک کانفرنس جہاں منعقد ہوئی‘ اس کمپلیکس کی تعمیر کے لئے‘ فنڈز چین نے فراہم کئے تھے۔جب سارک کی تشکیل کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گا‘ تو اس تنظیم میںچین کے حصے میں اسی طرز پر اضافہ ہو گا۔ یہ دونوں علاقائی طاقتیں‘ جنوبی ایشیا میں اپنا دائرہ اثر بڑھانے کے لئے کوشاں ہیں۔ جب سارک کا قیام عمل میں آیا‘ تو چین تیزی سے ترقی کے راستے پر آگے بڑھ رہا تھا‘ جبکہ بھارت ترقی کی رفتار میں سست لیکن خطے میں اثرورسوخ بڑھانے کی کوششوں میں تیز تھا۔ ظاہر ہے کہ چھوٹی پونجی‘ بڑے دھن کا راستہ نہیں روک سکتی۔ بھارت نے 30سال تک کشمیر کے معاملے میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ علاقائی تعاون کے راستے نہیں کھلنے دیئے اور کوشش کے باوجود سارک ممالک کی باہمی تجارت ‘کل تجارتی حجم کا صرف 5فیصد حصہ ہو سکی۔بھارت اگر دوراندیشی سے کام لیتا‘ تو وہ کشمیر کے معاملے پربات چیت کو امیدافزاانداز میں آگے بڑھاتا رہتا اور ساتھ ساتھ سارک ممالک کی باہمی تجارت میں بتدریج اضافے کے لئے‘ اپنی مارکیٹ کے دروازے آہستہ آہستہ کھولتا رہتا۔ بہت تاخیر کے بعد یہ راستہ اٹل بہاری واجپائی نے تلاش کیا تھا۔ انہوں نے تنازعہ کشمیر کے پُرامن حل کے امکانی راستے بھی ڈھونڈ لئے تھے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین روایتی کشیدگی کا خاتمہ کر کے‘ خیرسگالی کے نئے دور کا آغاز بھی کر لیا تھا۔ افسوس کہ کارگل پر کی گئی مہم جوئی کے نتیجے میں یہ سارا عمل‘ تہہ و بالا ہو گیا۔ کشیدگی پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ لوٹ آئی اور سارک برادری آج بھی اسی مقام پر کھڑی نظر آتی ہے‘ جہاں سے اس نے مل کر چلنا شروع کیا تھا۔ پاکستان اور بھارت نے معاہدہ لاہور پر دستخط کر کے‘ تنازعہ کشمیر کے حل کی جن امیدوں کے دروازے کھولے تھے‘ ان میں داخل ہو کر‘ ہم سارک برادری کے مابین باہمی تجارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ مشترکہ ترقی کے طورطریقے بھی ڈھونڈ لیتے اور خطے کے عوام کے لئے اچھے مستقبل کی تعمیر میں اپنی ذمہ داریاں بھی نبھا لیتے۔
پاکستان نے تنازعہ کشمیر پر مذاکرات کے علاوہ‘ جس بات پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی‘ وہ سارک میں چین کی مکمل رکنیت کا مطالبہ تھا‘ جسے بھارت بہانے بازیوں کے ذریعے مسلسل ٹالتا چلا آ رہا ہے۔ چین اب خطے کی بڑی طاقت کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ امریکہ نے اسے علاقائی طاقت تو 1970ء میں ہی مان لیا تھا۔ آج وہ اسے عالمی طاقت کی حیثیت سے ماننے لگا ہے۔ چین کی معاشی ترقی کے چھینٹے گردونواح میں بھی پہنچنے لگے ہیں۔ وہ سارک ملکوںکو چھوٹی چھوٹی گرانٹس اور قرضے دینے لگا ہے۔بھارت کے مقابلے میں اس کی زیادہ بڑی اور خوشحال مارکیٹ‘ ان ملکوں کی صنعت و تجارت اور ترقی کے لئے وسیع مواقع فراہم کر سکتی ہے۔بنیاگیری کے مقابلے میں یہ دونوں طاقتیں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ فرق صرف تنگ دلی کا ہے۔ بھارت اس کا مظاہرہ بلاامتیاز کرتا ہے‘ جبکہ چین موقع محل کے مطابق۔ یہی خوبی اسے آگے بڑھنے میں مدد دے رہی ہے۔ سارک کی حالیہ کانفرنس میں دیکھا گیا کہ چین کی مکمل رکنیت کے سوال پر بھارت کی مزاحمت میں کافی کمی آ گئی ہے اور وہ وقت زیادہ دور نہیں‘ جب چین کا کردار‘ جنوبی ایشیا میں اس کے سائز اور طاقت کے مطابق ہو جائے گا۔
پاکستان کو کشمیر کے سوال پر اپنے موقف کو نئی شکل و صورت دینا پڑے گی۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ پاکستان جب تک امریکہ کے لئے ایک مفید اتحادی رہا‘ اس نے تنازعہ کشمیر کے معاملے میں ہر عالمی سٹیج پر‘ کسی نہ کسی انداز میں ہماری حمایت جاری رکھی۔ اب پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت بدل گئی ہے۔ یہ فرق تو بہرحال پیدا ہونا تھا۔ افسوس ہے کہ تعلق بدمزگی اور بداعتمادی کی فضا میں خراب ہوا۔ اب جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ کے دوران باہمی بدمزگی اور کشیدگی میں کمی کا عمل شروع ہو گیا ہے‘ لیکن باہمی اعتماد بحال ہونے میں کافی وقت لگے گا۔ مستقبل قریب میں خطے کے اندر پاکستان جو کردار ادا کرے گا‘ اس کا امریکہ ہی نہیں‘ پوری دنیا گہری نظر سے جائزہ لے گی۔ ساری توجہ ریاست اور دہشت گردی کے اس رشتے پر رہے گی‘ جسے تبدیلی کی ٹھوس شکل میں دیکھا جائے گا۔ اگر پاکستان اپنے طرزعمل سے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ ہمارے حکمرانوں کودہشت گردی کے خلاف عالمی تحفظات کا پورا احساس ہے‘ توافغانستان میں ہمارے کردار کو وسیع اور موثر بنانے کی خاطرہرممکن امداد کا سلسلہ پھر شروع ہو سکتا ہے‘ جس کا پورا بوجھ تو یقینا امریکہ نہیں اٹھائے گا‘ لیکن اب بھی وہ دوسروں کے مقابلے میں کشادگی کا ثبوت دے سکتا ہے۔ اس مرتبہ چین بھی افغانستان میں کافی دلچسپی لے رہا ہے۔ افغانستان کے اندر‘ قدرتی وسائل کی دریافت کے لئے‘ چین کو پہلے ہی سے مراعات حاصل ہیں۔ وہ بہتر تجارتی حالات کے لئے سرمایہ کاری میں بھی اضافہ کرے گا اور افغانستان کی سلامتی کے تقاضے پورے کرنے میں بھی موثر کردار ادا کرے گا۔ اس ارادے کا وہ کئی بار اعادہ کر چکا ہے۔ افغانستان کے استحکام میں پاکستان اور چین دونوں ہی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے اہل ہوں گے۔ دونوں کے مقاصد عالمی طاقتوں اور افغانستان کے ہمسایوں کی خواہشات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ چین وسائل کے ساتھ ساتھ افرادی قوت بھی فراہم کر سکتا ہے اور پاکستان بھی منتخب افغان حکومت کی رضامندی کے مطابق‘ اپنا حصہ ڈالنے میں عالمی خواہشات پوری کرنے کے مخلصانہ ثبوت فراہم کر سکتا ہے‘ لیکن سلامتی اور تحفظ کے اعتبار سے افغانستان میں دونوں کی موجودگی‘ باہمی تعلقات کو زیادہ مضبوط اور ٹھوس بناسکتی ہے۔ پاکستان نہ تو اپنے خطے میں توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے اور نہ ہمارے پاس اس کے وسائل ہیں‘ لیکن اپنے محل وقوع اور مارکیٹ کی وجہ سے‘ یہ سارک کے دیگر اراکین کا ساتھ دے کر بھارتی دبائو میں کمی اور بہتر مساویانہ اور سفارتی تعلقات کی فضا پیداکرسکتا ہے۔ مکمل مساوات کی تھیوری محض ایک کتابی تصور ہے۔ حقیقت کی دنیا میں اصل فیصلے طاقت‘ جغرافیے اور رقبے کے مطابق ہوتے ہیں۔
حالات ہمارے لئے مایوس کن نہیں۔ ایک راستہ بند ہوتا ہے‘ تو دوسرے دریافت کرنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ اہلیتوںکا امتحان‘ ان راستوں کو دریافت اور اختیار کرنے میں ہوتا ہے۔ افغانستان میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور اس پر عالمی قوتوں کی رضامندی‘ ایسے عناصر ہیں‘ جن سے ہم پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ لیکن ہمیں اپنی خواہشات میں چین کی رائے سے استفادہ کرنا ہو گا۔ چین بطور دوست‘ ہمیں بہت دیر سے مشورہ دے رہا ہے کہ پاکستان‘ بھارت کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعے کو معقول عرصے کے لئے منجمد کر کے‘ معمول کے تعلقات سے استفادہ کر سکتا ہے اور جب مذاکرات کے لئے حالات سازگار ہوں‘ تو یہ سلسلہ پھر شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس دوران ظاہر ہے بھارت کو بھی‘ کشمیر کے معاملات ‘ جوں کے توں چھوڑنا ہوں گے۔ ظاہر ہے‘ باہمی بدگمانیوں کے طویل ریکارڈ کی بنا پر‘ دونوں کو عالمی ضمانتیں حاصل کرنا ہوں گی۔ بھارت چونکہ اب اپنا علاقائی کردار ادا کرنے کے لئے خود بھی امن اور تعاون کے ماحول کا ضرورت مند ہے‘ لہٰذا اسے بھی یہ انتظام قابل قبول ہو گا۔ اس کے برعکس اگر ہم زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی حالت میں رہے‘ تو بھارت تیزرفتاری سے کشمیر کی حیثیت بدلنے کی راہ پر گامزن ہے۔صورتحال میں تبدیلی واقع ہو جائے‘ تواس کو دوبارہ بحال کرنازیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ ہماری طرف سے نئے نئے امکانات دریافت کئے بغیر‘بھارت کو اس کے راستے سے ہٹانا آسان نہیں ہو گا۔جس کشمیر پالیسی پر ہم 60سال سے چلتے آ رہے ہیں‘ وہ ہمیں بند گلی کے آخری کونے تک لا چکی ہے۔ فوجی طاقت سے‘ ہم یہ مسئلہ اپنی خواہش کے مطابق حل نہیں کر سکتے۔ ہمارے لئے واحد انتخاب ایٹمی تباہی رہ جاتی ہے۔ اپنے لئے مکمل۔ بھارت کے لئے جزوی۔ قدرت ہر کسی کو امتحان میں ڈالتے وقت اسے سرخرو اور کامیاب ہونے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ مواقع آج بھی موجود ہیں اور انشاء اللہ آئندہ کی صورتحال میں بھی دستیاب رہیں گے۔ سوال اپنی صلاحیتوں کا ہے کہ ہم ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا نہیں؟مواقع‘ آسمانوں کی طرح لامحدود ہوتے ہیں۔ اڑنے کی طاقت ہونا چاہیے۔ افغانستان کو تو ہم سٹریٹجک گہرائی نہیں بنا پائے‘ مناسب ہو گا کہ ہم خود افغانستان کی سٹریٹجک گہرائی بن کر دیکھ لیں۔وسطی ایشیا کی طرف‘ جنوبی ایشیا کا دروازہ۔