کراچی میں کسی ایک طاقت کی حکمرانی نہیں‘ طاقت کے کئی مراکز ہیں۔ حکومت ہے۔ ایم کیو ایم ہے۔ اے این پی ہے۔ جماعت اسلامی ہے۔ مدرسہ گروپ ہے۔ لینڈ مافیا ہے۔ سندھی قوم پرست ہیں۔ ان میں سے اگر ایک بھی نہ چاہے تو کوئی احتجاجی مظاہرہ‘ کراچی میں پُرامن نہیں رہ سکتا۔ حکومتی پارٹی‘ تمام سرکاری وسائل کے ساتھ انتظامات کرے‘ تو پُرامن احتجاج کی توقع کر سکتی ہے۔ ایم کیو ایم‘ تربیت یافتہ سٹریٹ فورس کے ساتھ‘ اپنے ہر مظاہرے کو کامیاب بنانا جانتی ہے۔ مدارس کے گروپ یا مذہبی جماعتیں بھی اپنے جلسے اور جلوسوں کو منظم کرنے کی طاقت رکھتی ہیں لیکن یہ سب کی سب‘ کسی بھی وقت‘ کسی نہ کسی دہشت گرد تنظیم کا ہدف بنتی رہتی ہیں۔ ایک ایسے شہر میں جہاں روزانہ ہلاکتیں ہوتی ہوں۔ اغوا ہوتے ہوں۔ کاریں اور موٹر سائیکلیں چرائی جاتی ہوں‘ وہاں عشروں سے کام کرنے والی پارٹیوں کی موجودگی میں‘ ایک نئی جماعت‘ جس نے صرف 2013ء کے انتخابات میں قابل ذکر ووٹ لئے ہوں اور کراچی میں زیادہ نشستیں بھی حاصل نہ کر سکی ہو‘ کی طرف سے دن بھر ایسے پُرامن‘ منظم اور مہذب دھرنے بخیر و خوبی اختتام تک پہنچا لینا‘ اس انقلابی تبدیلی کا پتہ دیتا ہے جو بظاہر غیر معمولی طور پر تحریک انصاف نے 110 دنوں کے دوران پیدا کر دی اور اس کا سہرا کرکٹ کے قومی ہیرو اور دیکھتے ہی دیکھتے‘ صف اول کا لیڈر بن جانے والے‘ عمران خان کے سر باندھا جا سکتا ہے۔ یہ دھرنے اپنے ساتھ‘ بہت کچھ لائے‘ جو اب ہماری زندگی میں حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارے وہ شہر‘ جہاں پُررونق بازاروں میں بھی خواتین کو پریشان کیا جاتا ہے‘ وہاں بڑے بڑے ہجوموں اور جلوسوں میں شریک ہو کر‘ اپنے آپ کو یوں محسوس کرتی ہیں‘ جیسے وہ گھر کے آنگن میں ہیں۔ اس تبدیلی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ یہ کارنامہ ایسے شخص نے سر انجام دیا‘ جو نہ مبلغ ہے‘ نہ خطیب ہے‘ نہ واعظ ہے اور نہ مصلح۔
اہل کراچی نے ایک ہی دن میں‘ ایک دو نہیں شہر کے 28 مقامات پر‘ سارا دن پُرامن دھرنے‘ شاید ہی دیکھے ہوں۔ کسی ملک یا بستی کے عوام کا حقیقی کردار دیکھنا ہو تو اسے ہجوم کی صورت میں دیکھنا چاہئے۔ یوں اس کی اجتماعی نفسیات‘ کرداری خصوصیات اور اخلاق عامہ کے معیار سامنے آتے ہیں۔ وہی کراچی‘ جو گزشتہ دو عشروں سے ٹارگٹ کلرز‘ راہزنوں‘ برائے تاوان اغوا کاروں‘ بھتہ خوروں اور ایسے ہی دیگر کالے دھندے کرنے والوں کی آماجگاہ دکھائی دے رہا تھا‘ وہ ایک دن میں نہیں بدل سکتا۔ 12 دسمبر کے دھرنوں سے جو ظاہر ہوا‘ وہ یہ ہے کہ اصل کراچی وہ نہیں جو میڈیا میں دکھایا جاتا ہے۔ اصل کراچی وہ ہے‘ جو 12 دسمبر کو ہمارے سامنے آیا۔ یہ تھی اس شہر کی اجتماعی روح۔ وہاں کے باسیوں کی اصلیت اور انسانیت۔ جو زندگی شہریوں کو عملی طور پر گزارنا پڑتی ہے‘ وہ ان کا انتخاب نہیں‘ ان پر مسلط کی گئی ہے۔
اگر امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار‘ یعنی پولیس‘ سکیورٹی ایجنسیاں‘ شہری انتظامیہ اور مقامی حکومتیں‘ 12 دسمبر کی نظیر کو سامنے رکھتے ہوئے‘ مطالعہ اور تجزیہ کریں تو شہر کو آسانی کے ساتھ‘ تمام جرائم سے نجات دلا سکتے ہیں۔ ہر قانون بناتے اور نافذ کرتے وقت‘ شہریوں کی اجتماعی امنگوں اور خواہشوں کو پیش نظر رکھا جائے اور انہی کی بنیاد پر سماجی زندگی مہیا کی جائے اور شہریوں کے انفرادی کردار کو نکھارنے کے لئے‘ وہی طریقہ کار اختیار کیا جائے‘ جو عمران نے کیا تو کراچی کے سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ عمران نے اصل میں کیا کیا؟ انہوں نے خوف کا ہتھیار استعمال نہیں کیا۔ انفرادی فوائد اور نقصانات کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کسی بھی نوعیت کے تعصبات نہیں بھڑکائے۔ نفرت اور محبت کی جبلی طاقتوں کو غلط مقاصد کے لئے نہیں ابھارا۔ صرف سماجی اور سیاسی شعور بیدار کرنے کے لئے‘ اچھی زندگی کے خواب دکھائے اور بتایا کہ اگر انہیں اپنی مرضی کے مطابق‘ ایسی زندگی مطلوب ہے جس میں انصاف ہو‘ تو وہ خود ان خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں مگر انہیں لاتعلقی‘ بے زاری اور مایوسی کے رویے چھوڑ کر‘ اپنے معاملات کو خود اپنے ہاتھوںمیں لینا ہو گا اور یہ مشکل نہیں۔ عمران نے مخصوص فلسفے‘ سیاسی نظریات یا قومی تعصبات کا پرچار نہیں کیا۔ اس نے صرف چند باتیں نہایت سادگی سے عوام کے سامنے پیش کیں اور انہیں یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ عوام ان کی قیادت پر اعتماد کریں تو مشترکہ جدوجہد کے ذریعے‘ منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔
عمران نے چند بنیاد ی اصول‘ عوام کو ذہن نشین کرائے‘ مثلاً ایک اچھا انسانی معاشرہ جمہوریت کے ذریعے ہی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت انتخابی عمل کے ذریعے قائم ہوتی ہے۔ اگر انتخابی عمل شفاف نہ ہو تو حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوتی اور یہیں سے عوام کے دکھوں کی ابتدا ہو جاتی ہے۔ خرابی کی اصل جڑ‘ کرپشن ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام قوانین کی خلاف ورزی کر کے‘ دولت جمع کرنے والے‘ انتخابی نتائج خریدتے یا بذریعہ طاقت انہیں اپنی مرضی کے مطابق بنا لیتے ہیں۔ انتخابی کرپشن کی وجہ سے وہ سیاسی طاقت حاصل کرتے ہیں۔ اس سیاسی طاقت کے ذریعے‘ حکومتوں پر قبضے کرتے ہیں اور حکومتوں کے ذریعے‘ ناجائز دولت بناتے ہیں۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والا دائرہ در دائرہ ایک سلسلہ ہے۔ ہر نئے انتخابات کے ساتھ‘ آپ ایک دائرے سے نکل کر بظاہر دوسرے دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن اصل میں آپ وہیں رہتے ہیں‘ جیسے کولہو کا بیل‘ جو دن بھر مسلسل چلتا ہے لیکن جب شام کو آنکھوں سے پردہ ہٹایا جاتا ہے تو وہ وہیں کا وہیں ہوتا ہے‘ جہاں سے اس نے چلنا شروع کیا تھا۔ ہم بھی 1947ء سے وہیں کھڑے ہیں۔ ہم نے ہر حکومت کی تبدیلی پر سمجھا کہ ہم نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں مگر یہ ہماری غلط فہمی تھی کیونکہ نظام وہیں کا وہیں رہا۔ صرف چلانے والے بدلتے رہے۔ سب کے طریقے الگ الگ تھے لیکن مقصد ایک ہی تھا‘ ناجائز طریقوں سے دولت اور طاقت کا حصول۔ چند سال پہلے‘ ایک بھارتی مصنف نے اپنے ملک کی سیاست کا جائزہ لیتے ہوئے ایک کتاب لکھی تھی‘ جس میں اس نے سادہ الفاظ میں بتایا کہ سیاست دان پیسے سے‘ سیاسی حیثیت بناتے ہیں اور اس حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید پیسہ کماتے ہیں اور یہ دائرہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔ سیاست سے پیسہ‘ پیسے سے سیاست۔
کامیاب جمہوریت وہی ہے‘ جہاں سیاست سے پیسہ بنانے کے مجرمانہ فعل کو‘ مشکل سے مشکل تر بنا دیا جائے۔ اس دنیا میں رہ کر انسان‘ کسی چیز میں کامل نہیں ہو سکتا۔ کہیں نہ کہیں کمی ضرور رہ جاتی ہے لیکن جمہوریت واحد نظام ہے‘ جس کے ذریعے ہم خرابیوں کو نچلے ترین درجے پر لا کر‘ اچھی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کرپشن کو جتنا مشکل اور ناممکن بنا دیا جائے‘ معاشرے اسی نسبت سے عام آدمی کو ایسی زندگی مہیا کر سکتے ہیں‘ جس میں فرد‘ ایک اوسط زندگی کے لئے‘ درکار روحانی اور دنیوی آسودگی حاصل کر سکتا ہو۔ اس کی ابتدا سیاسی شعور سے ہوتی ہے۔ جب سے انسان نے اجتماعی زندگی اختیار کی ہے‘ اسی وقت سے اس میں سیاسی شعور پیدا ہو گیا تھا۔ قبیلہ داری نظام کی پنچایت‘ افراد کے باہمی معاملات پر جو فیصلے کرتی‘ وہ سیاسی عمل کا ابتدائی درجہ تھا‘ جو بے شمار ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے‘ آج کی جمہوریت تک آیا لیکن اس کی بنیاد پنچایتی نظام کے اندر سے اٹھی۔ ہر جمہوری نظام‘ کسی نہ کسی پنچایتی نظام کی ارتقائی صورت ہے۔ جس جمہوری نظام میں مقامی حکومتیں موثر اور فعال ہیں‘ وہ اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ مقامی حکومت اپنی انتظامی طاقت کو گلی محلے کی سطح تک استعمال کرتی ہے۔ یہ طاقت گلی محلے یا گائوں کے ووٹروں سے پیدا ہوتی ہے اور درجہ بدرجہ اوپر کی طرف جاتے ہوئے‘ سیاست کے اعلیٰ ترین بااختیار ادارے‘ پارلیمنٹ تک چلی جاتی ہے۔ طاقت کے اس عظیم الشان ڈھانچے کی بنیاد‘ آپ کے ووٹ پر ہے۔ آپ اپنے ووٹ کو جتنی احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ استعمال کر کے‘ اس کی بنیاد پر طاقت حاصل کرنے والوں کا محاسبہ کریں گے‘ جمہوریت سے فیض یاب ہوں گے۔ ووٹ محض ایک پرچی نہیں‘ جسے آپ بے پروائی اور بے گانگی کے ساتھ‘ ایک صندوقچی میں پھینک کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ آپ کو ہمہ وقت اس کا نگران رہنا پڑتا ہے کہ آپ کے ووٹ کی طاقت کو‘ آپ کے لئے استعمال کر کے زندگی کی سہولتیں مہیا کی جا رہی ہیں یا اس طاقت کے ذریعے‘ آپ کے ووٹوں پر قبضہ کرنے والے اپنے خزانے بھر رہے ہیں۔ یہ کہانی بڑی لمبی ہے۔ عام آدمی نے ابھی الف بے پڑھنا شروع کیا ہے۔ جب عام آدمی‘ ذاتی پیسے کی طرح اپنے ووٹ کی حفاظت کرنا اور اس کا حساب مانگنا سیکھ جائے گا‘ جمہوریت کی طاقت میں اپنا حصہ لینا شروع کر دے گا۔ (جاری ہے)