"NNC" (space) message & send to 7575

ووٹ پرچی نہیں‘ سرمایہ ہے…(آخری قسط)

ووٹ کی قیمت اور افادیت کا تذکرہ ہو چکا۔ آج میں ان دو طاقتوں کے بارے میں کچھ عرض کروں گا‘ جو2013ء کے انتخابات میں ابھر کر سامنے آئیں اور آج تک برسرپیکار ہیں۔ ایک طرف سٹیٹس کو‘ کی طاقتیں ہیں اور دوسری طرف تبدیلی کی۔ماضی میں بھی ہمیشہ انہی دو عنوانات کے تحت ‘ سیاسی کشمکش جاری رہی لیکن اس میں مغالطے‘ فریب اور گمراہیاں تھیں۔ اصل میں جتنے بھی فریق‘ سیاسی سٹیج پر‘ بظاہر ایک دوسرے سے نبردآزما دکھائی دیتے رہے‘ سب کے سب‘ ایک ہی کہانی کے کردار تھے۔تضاد اور تصادم‘ محض ڈرامہ دیکھنے والوں اور اس کے کرداروں کی دلچسپی کے لئے تھا۔ملٹی پارٹی سسٹم کی یہی خوبی ہے۔عام شہری کے لئے ‘مختلف پارٹیوں کی باہمی کشمکش‘ اچھے اور برے کے درمیان جنگ دکھائی دیتی ہے۔ درحقیقت ایسا ہوتا نہیں ۔اس کی شاندار مثال‘ امریکی سیاست میں موجود ہے۔ وہاں طویل مدت سے دو پارٹیاں‘ اقتدار کی جنگ لڑتی آرہی ہیں‘ یہی دونوں ہر انتخابی مہم کے دوران‘ دو ایشوز کو اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بناتی ہیں۔ اس پر زبردست مباحثے چلتے ہیں ‘ جو پرائمریز سے شروع ہو کر صدارتی امیدواروں تک پہنچتے ہیں۔ ان طویل مباحثوں کے دوران‘ ووٹروں میں تفریق بڑھتی جاتی ہے۔د ونوں پارٹیوں کے پرانے وفادار کارکن‘ توا پنے اپنے دھڑے میں قائم رہتے ہیں لیکن عام ووٹر ہر بار سامنے لائے گئے دوایشوز‘ میں سے کسی ایک کا حامی بن کر‘ دوسرے کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ قریباً سوا دو صدیوں سے امریکی ووٹر یہی سمجھتا آرہا ہے کہ وہ انتخابات میں صحیح پارٹی کے حق میں ووٹ دے کر‘ اپنی پسند کی حکومت لاتا ہے۔ حقیقت یہ نہیں۔حکمرانی کرنے والے وہی رہتے ہیں۔ طرزِ حکمرانی وہی رہتا ہے۔ صرف چہرے بدلتے ہیں۔ دوسری مثال بھارت کی ہے۔ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں مغربی طرزِ سیاست کے رائج ہوتے ہی‘ دو سیاسی طاقتیں معرض وجود میں آئی تھیں۔ ایک کی قیادت وہ لوگ کر رہے تھے‘ جو مغربی نظام سے متاثر تھے اور دوسرے کی قیادت اکثریتی آبادی کے تصورات سے مطابقت رکھنے والے نعرے لگا کر‘ اپنی سیاست کرتے تھے۔ دونوں ہی قوم پرست تھے۔ دونوں ہی سامراجی آقائوں سے متاثر تھے۔ دونوں میں بنیادی فرق نہیں تھا۔ دونوں ہی استحصالی نظام پر یقین رکھتے تھے۔ صرف نعروں کا فرق تھا۔
مختلف ملکوں میں قومی آزادی کی تحریکیں ‘ بظاہر اپنے اپنے مقامی کلچر کے تحت منظم ہوئیں۔ برصغیر کی دونوں بڑی جماعتیں‘ مذہبی اشرافیہ نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے‘ بنائیں۔کانگرس کے نام سے کئی گروپ ہندومہاراجوں‘ سرمایہ داروں 
اور جاگیر داروں کے طبقاتی مفادات کے ترجمان تھے۔جب ‘گاندھی جی نے افریقہ سے واپس آکر‘ کانگرس کو قوم پرست جماعت کے طور پر منظم کیا تو اس کے ڈھانچے میں بے شمار تبدیلیاں کر کے‘ اسے ایک جمہوری پارٹی میں بدلا۔پہلے کانگرس صرف شہروں تک محدود تھی۔ گاندھی جی نے دیہات تک پھیلا کر‘ اس میں کسانوں کو بھی شامل کیا لیکن درحقیقت وہ ہندو اشرافیہ اور سرمایہ داروں کی بالادستی کے حامی تھے ‘اس پر مسلم اشرافیہ کو اپنا وجود خطر ے میں نظر آیا۔1906ء میں مسلم لیگ قائم کی گئی۔ اس کے پہلے سربراہوں میں آغا خان III‘ خواجہ سلیم اللہ اور سید احمد خان شامل تھے۔ بنیادی اراکین میں‘ ان کے ساتھ محمد علی جناح‘ لیاقت علی خان‘ سر ظفراللہ خان اور خواجہ ناظم الدین بھی شامل ہو گئے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ قائداعظم کی قیادت میں‘ جس مسلم لیگ نے پاکستان حاصل کیا‘ اسے خود قائداعظم نے 14اگست1947ء میں تحلیل کر دیا تھا ۔اب میں بنیادی بات کی طرف آتا ہوں کہ برصغیر میں‘ جب آزادی کی تحریکوں نے جنم لیا تو ان پر ابتدا میں ہی‘ مذہبی رنگ غالب آگیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ سیاست میں اس نفرت کو بھی انگریز نے داخل کیا۔بیسویں صدی کے اوائل میں‘ انگریز ہندوستان پر مزید طویل عرصے تک حکومت کرنا چاہتا تھا۔ اسی منصوبے کے تحت‘ اس نے خود ہی‘ ہندو اور مسلمانوں کی دو علیحدہ علیحدہ جماعتیں بنوائیں۔ ایک کا نام‘ آل انڈیا کانگرس تھا اور دوسری کا آل انڈیامسلم لیگ ۔انہی دونوں جماعتوں نے لڑتے لڑتے‘1909ء میں جداگانہ طرز انتخاب پر اتفاق کرلیا۔1937ء میں اس کے تحت پہلے عام انتخابات ہوئے تو کانگرس اور مسلم لیگ نے مخلوط حکومت قائم کی‘ جس کے سربراہ‘ پنڈت نہرو تھے۔ جلد ہی دونوں کو اندازہ ہو گیا کہ مخلوط حکومت کا یہ نظام نہیں چل پائے گا۔ قائداعظم نے1940ء میں‘ مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن مانگ لیا اور کانگریس ‘مسلمانوں کے ساتھ مخلوط حکومت کے تلخ تجربات کے بعد‘ یہ سوچنے لگی تھی کہ ہندو اور مسلم‘ متحدہ ہندوستان میں مل جل کر حکومت نہیں چلا پائیں گے۔ باقی سب ارتقائی مراحل ہیں ۔آخر کار کانگرس کو تقسیم کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑ گیا لیکن نہ تو کانگرس کی بنیادوں سے ہندوازم نکل پائی اور نہ مسلم لیگ کی سوچ سے‘ مذہبی ریاست کا تصور نکل سکا۔کانگرس نے بے شک آئینی طور پر سیکولرازم کو نظام حکومت قرار دیا لیکن پاکستان کے پہلے ہی آئین میں قراردادِ مقاصد داخل کر دی گئی۔سیکولر بھارت اور اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘دونوں کی سیاست پر وقت کے ساتھ ساتھ‘ مذہبی تنگ نظری غالب آتی گئی۔ آج روشن خیال بھارت میں بدترین مذہبی عصبیت کی حامل‘ بی جے پی‘ بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت بنا چکی ہے اور پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی جماعت باقی ہی نہیں رہ گئی‘ جو فرد کی مذہبی آزادی پر یقین رکھتی ہو۔ہم دونوں ایک ہی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ پاکستانی عوام نے مذہبی حکمرانی کی انتہائیں دیکھ لی ہیں اور اسلام کے نام پر ضیا الحق کا دس سالہ دور اقتدار بھی گزار لیا ہے۔یحییٰ خان کانظریہ پاکستان بھگت آئے اور پرویز مشرف کی روشن خیالی کو بھی آزما لیا۔ یہ سارے مراحل طے کرنے کے بعد ہم‘ ایسے دور میں آگئے ہیں جب عوام کی بھاری اکثریت‘ انصاف پر مبنی نظام کے نفاذ کی خواہش مند ہے۔ اسی خواہش کا اظہار 2013ء کے جعلی انتخابات کے خلاف‘ بھر پور عوامی تحریک میں کیا جا رہا ہے۔جب سے عمران خان نے انتخابی دھاندلی کے خلاف آواز اٹھائی ہے‘ میں نے اسے عوام کی اکثریت کے جذبات سے ہم آہنگ پایا اور مسلسل لکھ رہا ہوں کہ عوامی تحریک جب زور پکڑ جائے تو اسے کوئی نہیں روک سکتا۔حکومت نے دھاندلی کے ثبوت چھپانے کے لئے‘ جتنی دیواریں کھڑی کی تھیں‘ اب گرنا شروع ہو چکی ہیں۔ عمران نے نمونے کے طور پر جن چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا‘ ان میں سے دو کی گنتی شروع ہو چکی ہے اور پہلے ہی مرحلے میں عوام اور عمران کا یہ الزام ‘درست ثابت ہو گیا کہ ووٹ شماری میں کھلی دھاندلی کی گئی۔اب یہ حکومت پر ہے کہ وہ دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ دیگ کے ایک دانے کا ذائقہ چکھ کر‘ پلائو کے ذائقے کا اندازہ کر لے۔ڈاکٹرز خون کے ایک قطرے کا تجزیہ کر کے‘ سارے جسم کے خون کی بیماری سمجھ لیتے ہیں۔ سائنس دان بھی زمین کی گہرائیوں پر کھدائی کرکے‘ تہہ کے نیچے کی تھوڑی سی مٹی نکال کر بتا دیتے ہیں کہ وہاں تیل ہے یا گیس؟انتخابی دھاندلی کے کئی نمونے سامنے آچکے ہیں۔ سیدغوث علی شاہ سے لے کر‘ حامد علی خان تک‘ جہاں بھی دوبارہ گنتی ہوئی‘ نتیجہ ایک ہی نکلا... دھاندلی۔ اب عوام کا مطالبہ صرف انتخابات نہیں‘ شفاف اور منصفانہ انتخابات ہو گا اور وہ بھی کھلی عوامی نگرانی میں۔عوامی ووٹوں کا سرمایہ لوٹنے کی کوشش کی گئی تو پھر فیصلہ کرنے کا اختیار عوام اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔ حکمران طبقوں کا بھلا اسی میں ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق تبدیلی کو آنے دیں ورنہ عوام کے فیصلے فرانس‘روس‘ چین اور کیوبا کی تواریخ میں رقم ہیں اور عرب ملکوں میں لکھے جا رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں