"NNC" (space) message & send to 7575

اسلامی جمہوریہ فرانس

فرانس میں جلد ہی ایک ایسا ناول شائع ہونے والا ہے‘ جو کم از کم مغربی دنیا میں ایک نئی بحث کا موضوع بنے گا۔ حقیقت میں تو ایسا ہو چکا ہے اور ہونا ہی چاہیے کہ مذکورہ ناول اس بنیادی خیال پر تخلیق کیا گیا ہے کہ جب فرانس میں اسلامی نظام نافذ ہو گا‘ تو اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں؟
یہ ناول ہے‘ جس میں فرانس کو ایک اسلامی مملکت کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ جہاں یونیورسٹیوں کو قرآن پڑھانے پر مجبور کیا جا چکا ہے، خواتین کے لیے حجاب لینا ضروری ہو چکا ہے اور ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا قانونی حق بن چکا ہے۔پیرس سے بی بی سی کے نامہ نگار ہیو سکوفیلڈ کا کہنا ہے کہ ''اس کتاب کے مطابق فرانسیسی معاشرہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتا رہتا ہے اور آخر سنہ 2022 ء میں‘ ایک مسلمان جماعت کا رہنما ملک کی صدارت اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔اس کے بعد عورتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ ملازمتیںچھوڑ دیں۔ جس سے ملک میں بے روزگاری کم ہو جاتی ہے۔ فرانس میں جرائم کا دور دور تک نشان نہیں رہتا۔ خواتین کا پردہ معمول کی بات بن جاتی ہے اور مردوں کو اجازت مل جاتی ہے کہ وہ جتنی شادیاں چاہیں کریں۔
اس وقت تک فرانس کی عمومی آبادی‘اس قدربے حس اور زوال پذیر ہو چکی ہوتی ہے کہ لوگ نئے صدر کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کرتے بلکہ اس نئی حکومت کو قبول کر لیتے ہیں اور ان کا ملک ایک اسلامی فرانس بن جاتا ہے۔مندرجہ بالا منظر کشی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں فرانس کے عہدِ حاضر کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب مشل ہولے بیک کی یہ کتاب کس قدر متنازعہ ہو سکتی ہے؟ اس کتاب کا عنوان ''سبمشن‘‘ (اطاعت، فرمابنرداری) ہے۔ اگرچہ اس کی باقاعدہ فروخت بدھ 8 جنوری سے شروع ہو رہی ہے، لیکن فرانس میں کتاب کے مندرجات پر بحث‘پچھلے کئی ہفتوں سے جاری ہے۔کیا واقعی یہ کتاب ادب کے لبادے میں‘ محض لوگوں کو اسلام سے ڈرانے کی کوشش ہے؟ کیا یہ بہانہ کہ کتاب محض ایک خیالی کہانی ہے‘ مصنف کو اس الزام سے بچا سکتا ہے کہ ان کی کتاب دائیں بازو کے سیاستدان‘ اپنے اسلام مخالف ایجنڈے کے لیے استعمال کریں گے؟ دوسری جانب یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مصنف نے کچھ غلط نہیں کیا بلکہ کسی بھی اچھے ادیب کی طرح انہوں نے معاشرے کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے اور بغیر کسی لگی لپٹی کے، اس نے کڑوے سچ لوگوں کے سامنے رکھ دیے ہیں۔فرانس میں مشل ہولی بیک کی کتاب پر اتنی زیادہ تکرار و بحث کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے فرانس میں اسلام اور مسلمانوں کی اپنی شناخت پر قومی سطح پر بحث ہو رہی ہے۔
گذشتہ برس یورپی پارلیمان کے انتخابات میں‘ غیر ملکی تارکین وطن کی مخالف دائیں بازو کی جماعت ‘نیشنل فرنٹ نے فرانس میں پہلی مرتبہ غیر معمولی کامیابی حاصل کر لی تھی۔ نیشنل فرنٹ کے رہنما مارین لی پین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سنہ 2017ء کے صدارتی انتخابات میں ایک بڑی امیدوار ہو سکتی ہیں۔ ناول کی کہانی میں بھی ہوتا یہی ہے کہ مارین لی پین کو صدارت سے دور رکھنے کی غرض سے‘ دیگر سیاسی جماعتیں‘ محمد بن عباس نامی ایک طلسماتی رہنما کی حمایت کرنا شروع کر دیتی ہیں۔یہ ناول جس تناظر میں شائع ہوا ہے‘ اس میں اسی قسم کے ایک دوسرے ناول کی کامیابی بھی شامل ہے۔ ''لی سوسائڈ فرانسیا‘‘ (فرانسیسی خود کشی) نامی یہ ناول بھی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صحافی‘ ایرک زمور نے لکھا تھا اور اس کا مرکزی خیال بھی یہی ہے کہ فرانس اخلاقی طور ایک نئے اور زیادہ پُراعتماد اسلام کے سامنے مجبور ہو چکا ہے اور اس سے شکست کھا رہا ہے۔مشل ہولی بیک کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کا ناول دراصل ایرک زمور اور شدید ردعمل کے حامل ان جیسے دیگر لوگوں کے منافرت انگیز خیالات کو ادبی تقویت پہنچا رہا ہے۔بائیں بازو کے اخبار ''لبریشن‘‘ کے ایک کالم نگار‘ لارین جوفرن کے بقول ‘اس ناول کے ذریعے 'مشل ہولی بیک صرف یہ کر رہے ہیں کہ وہ بائیں بازو کے فلسفیوں کے مشہور کیفے فلور میں‘ مارین لی پین کی کرسی گرم کر رہے ہیں۔کالم نگار آگے چل کر لکھتے ہیں ''مجھے نہیں معلوم مشل ہولی بیک کی نیت کیا ہے؟ لیکن جہاں تک ان کے ناول کا تعلق ہے تو اس کے ناول سے تو مجھے یہی لگتا ہے کہ اس کے مقاصد سیاسی ہیں۔ایک مرتبہ جب میڈیا میں‘ اس ناول کے بارے میں شور وغوغا ختم ہو جائے گا، تو لوگ اس کتاب کو فرانس کی تاریخ کے ایک اہم موڑ کے حوالے سے یاد رکھیں گے۔ ایک ایسے وقت کے حوالے سے‘ جب انتہائی دائیں بازو کے خیالات‘ ادب کا حصہ بنے اور عظیم ادب کہلائے۔‘‘کچھ دیگر ناقدین نے اس ناول پر مذکورہ کالم نگار سے زیادہ سخت تنقید کی ہے۔ ٹی وی میزبان علی بداؤ کے بقول ''اس کتاب کا سن کر مجھے تو بوریت ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کتاب سے میری تضحیک ہوئی ہے۔ سنہ 2015ء کا نئے سال کا آغاز ‘ایک ایسی کتاب سے ہو رہا ہے‘ جس میں اسلام سے خوف کو ایک ادبی ناول کی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘دوسری جانب مشل ہولی بیک کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس ناول میں ایسے مسائل پر بات کی گئی ہے‘ جن کے بارے میں بائیں بازو کے بڑے شہروں میں رہنے والے ناقدین کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے کو ان مسائل کا سامنا نہیں ہے۔
فرانس کے معروف فلسفی اور ملک کی سب سے بڑی ادبی تنظیم کے رکن‘ الین فن کلکرات (Francaise Alain Finkielkraut)نے مشل ہولی بیک کو آنے والے وقت کا عظیم ناول نگار قرار دیا ہے۔''فرانس میں اسلامائزیشن کے مسئلے کو اجاگر کر کے ایسی جگہ نشانہ لگایا ہے‘ جہاں سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ترقی پسندوں کو تکلیف ہو رہی ہے اور ان کی چیخیں نکل رہی ہیں۔‘‘جہاں تک مشل ہولی بیک کا اپنا تعلق ہے‘ تو وہ ماضی میں اسلام کو ''ناقابل فہم مذہب‘‘ قرار دے چکے ہیں، تاہم وہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ اپنے ناول کے ذریعہ لوگوں کے جذبات ابھار رہے ہیں۔اپنے ناول کی اشاعت سے کچھ عرصہ پہلے ''پیرس ریو‘‘ نامی جریدے کو ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ خیال حقیقت سے دور نہیں کہ ایک اسلامی جماعت‘ فرانس کی شبیہ تبدیل کر رہی ہے۔ تاہم انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کے ناول میں فرانس میں‘ اسلام کا غلبہ ‘آنے والے چند سالوں کی بات دکھائی دیتا ہے۔''میں نے خود کو ایک فرانسیسی مسلمان کی جگہ پر رکھ کے سوچا تو مجھے محسوس ہوا کہ دراصل یہ لوگ وہاں کھڑے ہیں‘ جہاں ان کا دماغ ساتھ نہیں دے رہا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اپنے پس منظر کے لحاظ سے پسماندہ ہیں اور یہ لوگ بائیں بازو کی سوچ سے‘ بہت دور ہیں، خاص طور پر اس وقت سے جب سوشلسٹوں نے ہم جنس شادیوں کی منظوری دی ہے لیکن یہ لوگ اس دائیں بازو سے بھی دور ہیں جو مسلمانوں کو رد کرتا ہے۔
مصنف کے بقول ''اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر مسلمان فرانس میں ووٹ ڈالنا چاہتا ہے تو وہ کسے ووٹ دے گا؟ سچ یہ ہے کہ فرانسیسی مسلمان‘ ایک ایسی جگہ کھڑا ہے‘ جہاں اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ جائے تو جائے کدھر۔ سیاسی نظام میں اس کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔‘‘ناول نے سنہ 2022ء کے جس فرانس کا نقشہ کھینچا ہے‘ وہاں یونیورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم لازمی ہوچکی ہے۔مشل ہولی بیک کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی اس کتاب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ مذہب کو انسانی زندگی میں مرکزی حیثیت حاصل ہو اور روشن خیالی کے ان نظریات کو موت کی نیند سلا دینا چاہیے جو فرانس میں 18ویں صدی سے رائج ہیں۔
روزنامہ ''لی فگارو‘‘ سے بات کرتے ہوئے مشل ہولی بیک کا کہنا تھا ''جہاں تک عام زندگی میں مذہب کی واپسی کا تعلق ہے تو یہ ایک عالمی تحریک بن چکی ہے۔ آج کل ملحدانہ نظریات بہت اداس ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آج کل ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں‘ جہاں وہ تحریک دم توڑ رہی ہے‘ جس کا آغاز قرون وسطیٰ کے اختتام سے ہوا تھا۔‘‘اپنے انٹرویوز کے اختتام پر مصنف نے اس جانب اشارہ کیا کہ مذہب کی واپسی ایک اچھی چیز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ بھی ملحد نہیں رہے، بلکہ ان کے بقول روشن خیال انسان کو ‘جس آفاقی خالی پن یا دماغی خلا کا سامنا ہے۔ اس سے سے تو اسلام بھی بہتر ہے۔ آخر کار جب میں نے قرآن کو دوبارہ پڑھا، بلکہ پہلی مرتبہ پڑھا تو مجھے لگا کہ یہ کتاب میرے خیال سے خاصی اچھی ثابت ہوئی۔''صاف ظاہر ہے کہ تمام مذہبی کتابوں کی طرح‘ قرآن کی بہتر تفسیر کی ضرورت ہے لیکن اگر آپ اس کا دیانتداری سے مطالعہ کریں تو یہ کتاب مقدس جنگ (جہاد) کی عموماً اجازت نہیں دیتی، صرف دعا یا عبادت کی اجازت دیتی ہے۔ اس بنیاد پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے اپنے خیالات تبدیل کرلیے ہیں۔ اسی لیے میں محسوس نہیں کرتا کہ میں جو لکھ رہا ہوں وہ کسی خوف کی وجہ سے لکھ رہا ہوں۔ بلکہ میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم اس بات کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ اگر سچ پوچھیں تو عورتوں کے حقوق کے علمبردار (قرآن کے بارے میں) ان باتوں سے اتفاق نہیں کریں گے۔ لیکن میں اور میرے جیسے کئی دیگر لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے۔‘‘
ناول کے آخر میں کہانی کا ہیرو فرینکوس خود 'دوسروں کے ساتھ رہنا سیکھ لیتا ہے‘ اور ایک 'اسلامی‘ یونیورسٹی میں اپنی ملازمت پر واپس چلا جاتا ہے۔ اس کی اس واپسی میں اس کی تنخواہ میں اضافے کا لالچ بھی شامل ہوتا ہے اور یہ وعدہ بھی کہ اسے کئی بیویاں ملیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں