وطن پرستوں نے عوام کے بے پناہ نقصانات اورنہتے لوگوں کو خون میں نہاتے دیکھ کر ‘ آخر کار صورتحال کو بہتر بنانے کاایک راستہ ڈھونڈ ہی لیا۔ وہ ہے اپیکس کمیٹی۔ مثلاً پولیس کے لئے سندھ میں جو اپیکس کمیٹی بنائی گئی ہے‘ اس میں فوج کے نمائندے بھی ہوں گے اور کسی پولیس افسر کی تقرری یا تبادلہ‘ اس کمیٹی کی رپورٹ کے بغیر نہیں کیا جا سکے گا۔ دنیا بھر میں پولیس کی خرابیاں دور کرنے کے لئے مختلف طریقے آزمائے گئے۔ ان میں سے کئی کامیاب بھی رہے۔ جیسے لندن پولیس کی تشکیل نو۔ اس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ شہر کو بتدریج اچھی‘ فرض شناس اور مستعد پولیس دینے کا سلسلہ مرحلہ وار شروع کیا جائے۔ پہلا ہی تجربہ نہایت کامیاب ثابت ہوا۔ شہر کے ایک خاص علاقے کو منتخب کر کے‘ اس کے لئے نئی پولیس بھرتی کی گئی۔ اسے مکمل تربیت دینے کے بعد ‘ پرانی پولیس کو وہاں سے فارغ کر دیا گیا اور فوراً ہی نئی تیارشدہ پولیس نے علاقے کا انتظام سنبھال لیا۔ نئی پولیس نے جیسے ہی انتظام سنبھالا‘ چند روز کے اندر اندر عوام کو اندازہ ہو گیا کہ اب وہ ایک نئی طرح کی دنیا میں داخل ہو گئے ہیں۔ نئی پولیس نے اپنی اخلاقی اور پیشہ ورانہ اہلیت کو اس طرح سے نکھارا کہ عوام نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ وہ ایک بدعنوان اور فرائض سے غفلت برتنے والی پولیس کے ساتھ گزارا کر رہے تھے۔ نئی پولیس نے جب خوش اخلاقی‘ دیانتداری اور فرض شناسی کا تجربہ شروع کیا‘ تو جلد ہی عوام اس سے مانوس ہو گئے اور پھر یہ تجربہ‘ مرحلہ وار پورے لندن میں دہرایا گیا۔ یہاں تک کہ شہر میں نئی پولیس مثالی کلچر متعارف کرانے میں کامیاب ہو گئی‘ جو وقت کی آزمائشوں سے گزرتا ہوا‘ آج بھی کامیابی سے چل رہا ہے۔ لندن میں بھی انسان ہی بستے ہیں۔ اختیارات کے ساتھ‘ انہیں بھی فائدے اٹھانے کی علت پڑ سکتی تھی اور پڑی۔ لیکن جمہوری نظام کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے۔ منتخب حکومتیں ہر وقت عوام کی فلاح و بہبود اور بہتری کے طریقے سوچتی اور معاشرے میں بہتری لانے کے تجربات کرتی رہتی ہیں۔ لندن کی موجودہ پولیس بھی ایک دن میں ایسی نہیں بن گئی۔ طویل تجربوں سے گزرنے کے بعد‘ لندن میں پولیس اور شہریوں کا جو رشتہ استوار ہوا‘ آج اسے دیکھ کر‘ ہم جیسے تیسرے ملکوں کے لوگ رشک بھی کرتے ہیں اور آہیں بھی بھرتے ہیں۔
عام پاکستانیوں کی طرح میں بھی یہ سوچا کرتا تھا کہ جب تک ہماری پولیس ٹھیک نہیں ہو گی‘ معاشرہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ پولیس ‘ گنتی کے چند لوگوں کو مستثنیٰ کر کے‘ پستی کی انتہا پر جا چکی ہے۔ پاک فوج کے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف‘ جنرل راحیل شریف نے اپنے ملک کے بگڑے ہوئے معاشرے کو پُرامن اور شہریوں کے لئے سازگار بنانے پر بھی توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ ابھی تک سول حکومت نے اصلاحات نافذ کرنے میں‘ وہ تیزرفتاری اختیار نہیں کی‘ جس کی فوج عادی ہوتی ہے۔ تازہ مثال انسانی تاریخ کا وہ عظیم المیہ ہے‘ جو پشاور میں رونما ہوا۔ چھوٹی عمر کے وہ معصوم بچے‘ جو فرشتوں کی طرح نیک اور پاک ہوتے ہیں‘ دہشت گرد درندوں نے انہیں نشانے لگا لگا کر شہید کیا۔ 138بچے اپنے خون میں نہا گئے۔ حملہ آور درندوں کی بے رحمی اور سنگدلی کا اندازہ اس سے کریں کہ انہوں نے بچوں کے چہروں اور سروں پہ نشانے لگا لگا کر ان پر فائر کیا تاکہ ہدف بننے والے بچوں کے زندہ بچنے کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ اس سانحے نے قوم کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ عوامی دبائو اتنا زیادہ تھا کہ ہمارے وزیراعظم کو فوراً پشاور پہنچ کر آل پارٹیز کانفرنس بلانا پڑی اور انہوں نے عوام کے بھڑکے ہوئے جذبات ٹھنڈے کرنے کے لئے‘ متعدد اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔
مگر اس کے بعد کیا ہوا؟ اے پی سی پر اے پی سی ہوتی رہی۔ کمیٹیوں پر کمیٹیاں بنتی گئیں۔ سیاستدان تو اپنا سارا وقت میٹنگوں میں ہی گزارتے ہیں۔ انہوں نے فوجیوں کو بھی اپنے ساتھ اسی کام پر لگا لیا۔ گزشتہ روز کراچی میں‘ جنرل راحیل شریف نے جو تقریر کی‘ اس سے اندازہ ہوا کہ حکومت کمیٹی بازی میں دو مہینے گزارنے کے بعد بھی‘ کوئی فیصلہ کن اقدام نہیں کر سکی۔ یہ بیان ‘ ان کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے‘ جس میں انہوں نے پولیس کو سیاسی اثرات سے آزاد کرنے کی تجویز دی اور پہلا عملی قدم یہ کہہ کر اٹھا دیا کہ سب سے پہلے ہمیںپولیس کو درست کرنا ہو گا۔ تجویز کیا گیا کہ آئندہ پولیس افسروں کی تعیناتیاں اور تبادلے‘ کسی ایک شخص کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جائیں گے۔ ہر نئی تعیناتی اور تبادلے کا فیصلہ‘ اپیکس کمیٹی میں ہو گا۔ یہ تجویز پڑھ کے دل خوش ہو گیا۔ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ پاکستان میں کم و بیش ہر فوجی حکمران نے اصلاح معاشرہ کی کوشش کی‘ مگر جلد ہی اسے ناکام بنا دیا گیا‘ کیونکہ جو بھی علاج سوچا گیا‘ اسے کرنے کی ذمہ داریاں سول حکام پر چھوڑ دی گئیں۔ ظاہر ہے‘ نتیجہ کیا نکلنا تھا؟ فوجی حکمران جلد ہی مایوس ہو گئے اور کسی نے بھی اصل مرض کے علاج پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کی۔ دراصل وہ سیاستدانوں کی طرح ہو گئے۔ ایک فوجی لیڈر نے‘ اقتدار سے دور رہتے ہوئے‘ اصلاح احوال کی ایسی ترکیب سوچی ‘ جو شرطیہ کامیابی حاصل کرے گی۔ اس ایک علاج سے‘ ان گنت امراض ختم ہو جائیں گے۔ سب سے پہلا اختیار یہ ہے کہ ہر صوبائی حکومت ‘ پولیس کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے‘ ان کی ترقیاں‘ تبادلے اور تعیناتیاں اپنے کنٹرول میں کر لیتی ہے۔ سیاستدانوں کی کرپشن‘ اب شک و شبہے سے بالا ہے۔ باربار کے تجربے کے بعد‘ اب یہ روایت بن گئی ہے کہ ہر نئی صوبائی حکومت کا سربراہ‘ چارج لیتے ہی سب سے پہلے اعلیٰ پولیس افسران کو اپنے قابو میں کرتا ہے۔ جو افسر ناجائز احکامات کو ماننے میں پس و پیش کرتا ہے‘ اسے نہایت بے آبروئی کے ساتھ بلوچستان کے کسی دور افتادہ علاقے میں بھیج دیا جاتا ہے‘ جہاں انتہائی تکلیف دہ اور پُرخطر زندگی گزارتے ہوئے‘ وہ توبہ کر لیتا ہے کہ آئندہ وزیراعلیٰ صاحب کو شکایت کا موقع نہیں دے گا۔ وہ بار بار چھٹیاں لے کر‘ صوبائی دارالحکومت کا رخ کرتا ہے۔ دربار میں حاضریاں لگواتا ہے۔ آئندہ نیک چلنی کی ضمانتیں دیتا ہے۔ سفارشیں کراتا ہے۔ تب کہیں جا کر اس کی مصیبت ختم ہوتی ہے اور جہاں بھی اس کی نئی تعیناتی ہوتی ہے‘ وہاں بیٹھ کر وہ اپنے صاحب کے احکامات بجا لانے کے لئے مستعدی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کئی پولیس افسروں نے صرف اس کام میں شہرت پائی کہ انہوں نے ایک اشارے پر ‘ جس کے بارے میں حکم ہوا اسے بے رحمی سے قتل کر دیا۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے‘ ایک جلاوطن پولیس افسر‘ جو ان دنوں جان بچانے کے لئے لندن میں بیٹھا ہے‘ میڈیا پر انٹرویو میں قبول کر چکا ہے کہ اس نے جتنے بھی قتل کئے ہیں وہ اعلیٰ سطح سے ملنے والے احکامات کے تحت کئے گئے۔
پولیس ‘ لاٹ صاحبان کو خوش رکھنے کے لئے ایسی ایسی ذلت اٹھانے پر مجبور ہوتی ہے کہ اسے خود بھی رونا آتا ہے۔ لیکن کیا کریں؟ جتنی طاقت اور پیسہ پولیس کی نوکری میں ہے‘ وہ کسی دوسری ملازمت میں نہیں۔ پیسہ کمانے میں کسٹم‘ انکم ٹیکس‘ محکمہ مال ‘ یوں کہیے کہ سارے سرکاری محکمے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں‘ لیکن جس اتھارٹی کے ساتھ پولیس اپنے کام کراتی ہے‘ وہ رعب اور دبدبہ کسی دوسرے محکمے کے پاس نہیں۔ سیاسی کرپشن کا سارا نظام‘ پولیس کے زور پہ چلتا ہے۔ یوں تو ہر طاقتور محکمے کے ملازمین‘ وزیروں اور اراکین اسمبلی کے اشاروں پر چلتے ہیں‘ لیکن وہ دستیاب اختیارات کے تحت فائدے پہنچاتے ہیں۔ پولیس ‘ حکمرانوں کے خلاف سر اٹھانے والوں کی سرکوبی بھی کرتی ہے۔ جب تک پولیس افسر ‘ حکومت کے مخالفین کا ناک میں دم کئے رکھتا ہے‘ اسے دربار کی خوشنودی حاصل رہتی ہے اور جو مخالفین کو دربار میں لے جا کر معافی مانگنے پر مجبور کر دے‘ وہ سب سے پسندیدہ قرار پاتا ہے‘ لیکن اگر پولیس اپنے فرض منصبی کو ادا کر بیٹھے‘ تو لائل پور میں پولیس کا جو حشر ہوا‘ وہ آپ کو ضرور یاد ہو گا۔ ایک منتخب رکن اسمبلی‘ اپنے گرفتار کارکنوں کو چھڑانے کے لئے تھانے گئے۔ پولیس والوں کو مارا پیٹا اور اپنے بندے نکال کر لے گئے۔ مارپیٹ اور توہین کے زیراثر انہوں نے‘ اس واقعے کی ایف آئی آر لکھ دی اور دستور کے عین مطابق جب تک رکن اسمبلی نے پولیس کو اپنی ہی لکھی ہوئی ایف آئی آر بدلنے پر مجبور نہیں کر دیا‘ اس پر دبائو کا سلسلہ جاری رہا۔ ماڈل ٹائون میں‘ منہاج القرآن کے مدرسے پر گولیاں چلا کے‘ کئی لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ جب انکوائری کا وقت آیا‘ تو مقدمہ انہی پولیس افسروں پر قائم ہو گیا‘ جنہوں نے حکومت کے احکامات کی تعمیل میں گولی چلائی تھی۔ آج وہ پولیس والے معطل ہیں اور چندے کر کے‘ مقدمے بھی بھگت رہے ہیں۔ لائل پور میں عوام اور ٹی وی کیمروں کے سامنے سرکاری غنڈوں نے جس طرح مظاہرین پر گولیاں چلائیں‘ اس کا ویڈیو ریکارڈ موجود ہے‘ لیکن پولیس کو مجبور کیا گیا کہ وہ گولیاں چلانے والے کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہ کرے۔ سچ پوچھئے‘ تو پولیس بھی اس بے عزتی اور ناانصافی سے تنگ آئی ہوئی ہے۔ اگر تبادلوں اور تعیناتیوں کا فیصلہ اپیکس کمیٹی کے سپرد ہو گیا‘ جس میں فوج کے نمائندے بھی شامل ہوں گے‘ تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس آزادی پر جتنی خوشی پولیس کو ہو گی‘ اس کااندازہ نہیں کیا جا سکتا۔اپیکس کمیٹیوں نے صرف دو مہینے مسلسل کام کر کے صحیح افسروں کو صحیح جگہ لگا دیا اور انہیں اطمینان ہو گیا کہ اب کوئی حکومتی اتھارٹی‘ انہیں ناجائز کاموں پر مجبور نہیں کرے گی‘ تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پولیس دیکھتے ہی دیکھتے‘ معاشرے کو بدل کے رکھ دے گی۔ جرائم پیشہ افراد چھپتے پھریں گے اور دہشت گردوں کوبلوں میں ابلتا پانی ڈال کر باہر نکلنے میں مجبور کر دیا جائے گا۔میں تو چاہوں گا کہ دیگر محکموں کے لئے بھی اپیکس کمیٹیاں بنائی جائیں۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ کسی اگلے کالم میں عرض کروں گا۔