دشمن کے خلاف موثر کارروائی کے لئے ہمیشہ خفیہ تیاریوں اور اچانک حملہ کرنے کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ سانحہ پشاور کے فوراً بعد‘ دہشت گردوں نے جو تین بڑی وارداتیں کی ہیں‘ ان میں دو مقاصد واضح نظر آتے ہیں۔ پشاور‘ شکار پور اور اسلام آباد میں تینوں کارروائیوں سے‘ دہشت گردوں کے عزائم بڑی حد تک واضح ہوئے ہیں۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحفے نے محاذ جنگ کا نقشہ واضح کر دیا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی‘ مختلف مقاصد رکھنے والے گروہوں کی اپنی اپنی کارروائیاں ہوا کرتی تھیں۔ مختلف طالبان اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے مسلح دستے‘ الگ الگ مقاصد کے تحت کارروائیاں کرتے اور پاکستانی عوام اور فورسز کو نشانہ بناتے۔ یہ ساری کارروائیاں کسی ایک ہی منصوبے کا حصہ نہیں تھیں۔ بہت پہلے‘ یہ القاعدہ کے تربیت یافتہ لوگ ہوتے اور اسی کے ایجنڈے کے تحت کارروائیاں کرتے تھے۔ ان کے مقاصد‘ ریاستی اداروں پر فرقہ وارانہ ضرب لگانے تک محدود تھے۔ جیسے ہی القاعدہ کی قیادت منتشر ہوئی‘ اس کے جنگجو مختلف گروہوں میں بٹ گئے اور کسی مرکزی قیادت کے بغیر کارروائیاں کرنے لگے۔ جب تحریک طالبان پاکستان‘ پھیلنے لگی تو جلد ہی اس کے مختلف گروہ‘ مختلف مقاصد کے تحت سرگرم ہو گئے۔ سب کے مقاصد میں مشترکہ عنصر پاکستانی عوام اور فوج کے حوصلے پست کرنا تھا۔ افغان جنگ کے دور میں جنرل ضیاالحق نے امریکیوں کے ایما پر جو مذہبی دہشت گردی متعارف کرائی‘ بظاہر اسے سوویت افواج کے خلاف طویل جنگ کا ایک منصوبہ ظاہر کیا گیا۔ پاکستان کے کئی فوجی لیڈر ابھی تک اس وہم میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے افغانستان میں پاکستان اور اسلام کی جنگ لڑی ہے۔ ان میں سے حالیہ واقعات کے بعد کسی کی آنکھ کھل گئی ہے‘ تو اس نے یقینا سمجھ لیا ہو گا کہ جو جنگ ہمارے حکمرانوں نے افغانستان میں پاکستان اور اسلام کے دفاع کے نام پر چھیڑی تھی‘ درحقیقت وہ خود پاکستان ہی کے خلاف تھی۔
جیسے جیسے امریکہ کے اصل مقاصد پورے ہونے لگے اور سوویت یونین اس کی حریف عالمی طاقت کے درجے کی حیثیت سے کمزور پڑنے لگا‘ تو افغان جنگ میں امریکہ کی دلچسپی کم ہوتی گئی۔ سوویت افواج کی واپسی کے بعد امریکہ نے اس جنگ سے باہر نکلنے کے طریقے سوچنا شروع کر دیئے‘ لیکن امریکہ کی ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ نے سوویت یونین کی طاقت منتشر ہونے کے بعد کی دنیا کا جو نقشہ بنایا تھا‘ اس کے مطابق امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت دلانا تھا۔ 9/11 کا واقعہ امریکہ کے سیاسی اور دفاعی اداروں کی الگ الگ سوچوں کی علامت تھا۔ جب اس طرح کی صورتحال پیش آتی ہے تو عموماً سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے لئے اچانک اور خوفناک واقعات جنم لیتے ہیں‘ جن میں سب سے اہم واقعات 11 ستمبر 2001ء کو امریکہ میں ہوئے۔ نئی صدی کی واحد عالمی طاقت نے اپنے لئے جو نیا دشمن تیار کیا‘ وہ جغرافیائی سرحدوں سے ماورا تھا۔ نئے دشمن کے ساتھ جو جنگ شروع کی گئی‘ وہ جغرافیے کی پابند نہیں تھی۔ اس کی جڑیں ماضی کی ان جنگوں میں ڈھونڈی گئیں‘ جنہیں تاریخ میں صلیبی جنگوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس جنگ کا اعلان کرتے ہوئے‘ امریکی صدر بش کی تقریر میں ایک لفظ استعمال ہوا ''کروسیڈ‘‘۔ یہ وہ جنگیں تھیں‘ جو یورپ کے عیسائیوں اور عرب کے مسلمان بادشاہوں کے درمیان ہوئیں۔ جاننے والے اسی وقت سمجھ گئے تھے کہ امریکہ‘ نئے دور کی جنگ کو کیا رخ دینا چاہتا ہے اور پھر فوراً ہی طے شدہ ایجنڈے کے خدوخال واضح ہوتے گئے۔
9/11 کے بہانے‘ افغانستان میں جس دشمن کو امریکہ پر حملے کا ذمے دار قرار دیا گیا‘ وہ ساری دنیا کے لئے حیران کن تھا۔ جن دہشت گردوں پر امریکہ میں کارروائیوں کا الزام لگایا گیا‘ ان سب کا تعلق مختلف عرب ملکوں سے تھا۔ ان میں کوئی ایک بھی افغانستان سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ سوویت یونین کی واپسی کے بعد افغانستان میں جو خانہ جنگی ہوئی‘ اس میں سعودی عرب کا ایک تاجر اسامہ بن لادن پہلے سوویت یونین اور پھر امریکہ کا دشمن بن کر سامنے آیا۔ اس حیثیت میں اس کا پہلا ٹھکانہ پاکستان بنا۔ یہاں سے افغانستان جا کر اس نے اسلام دشمن روسیوں کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔ اس جنگ کے لئے عرب ملکوں کے جتنے جنگجو‘ سی آئی اے نے جمع کر کے‘ پاکستان اور افغانستان بھیجے تھے‘ وہ سب اسامہ بن لادن کے حامیوں میں شامل ہو گئے۔ اس دور میں افغان جنگ کا ہیڈکوارٹر پشاور میں تھا۔ یہیں پر عرب دنیا سے آنے والے جنگجوئوں کو پاکستانی ایجنسیوں کی نگرانی میں اسامہ بن لادن کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔ آج کے معروف سیاستدان رحمن ملک‘ آئی بی کے افسر تھے۔ جو عرب‘ دنیا بھر سے جمع کر کے‘ پشاور میں لائے جاتے‘ ان کا ایک رجسٹر میں اندراج ہوا کرتا۔ اس رجسٹر کا عنوان ''القاعدہ‘‘ رکھا گیا اور آگے چل کر اسامہ‘ اسی تنظیم کے لیڈر کی حیثیت سے مشہور ہوا۔ یہ اسامہ بن لادن ہی تھا‘ جس نے شیعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیا۔ اسی جنگ کو‘ جسے کروسیڈ کے نام سے شروع کیا گیا‘ شیعہ مخالف مہم میں بدل دیا گیا۔ اگر آپ سوویت افواج کی واپسی کے بعد‘ افغانستان کی خانہ جنگی کا جائزہ لیں تو القاعدہ ایک شیعہ دشمن تنظیم کی حیثیت سے آگے بڑھی۔ اسامہ نے پاکستانی سیاست میں دخل دینے کی بھی کوشش کی۔ وہ بے نظیرشہید کو اقتدار سے محروم رکھنے کے لئے‘ ان کے مخالفین کی مدد بھی کرتے رہے۔ یہی وہ دور ہے‘ جب شیعہ مخالف تنظیم کی مدد کر کے‘ پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی گئی۔ مگر آفرین ہے پاکستانی عوام پر کہ وہ ہر طرح کے لالچ اور ترغیبات کو ٹھکرا کر‘ فرقہ وارانہ تصادم کا حصہ نہیں بنے۔ شیعہ دشمن دہشت گرد زور پکڑتے گئے اور ان کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کر دیا گیا۔ دہشت گردوں کی قیادت نے اس مسلک سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ اور مختلف علوم و فنون کے ماہرین کو بطور خاص نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اسامہ بن لادن کو پاکستان میں شیعہ دشمن گروہ منظم کرنے کی کیا ضرورت پڑی تھی؟
عراق پر امریکہ کے فوجی قبضے کے دوران‘ شیعہ سنی تنازعات کو شدت سے بھڑکایا گیا اور جب یہ فرقہ وارانہ تقسیم زور پکڑنے لگی‘ تو امریکیوں نے اپنی افواج کو نکال کر‘ عراق میں شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان جنگ شروع کرا دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عراق میں ایک دوسرے سے برسر پیکار شیعہ اور سنی دونوں کو امریکیوں کا خفیہ تعاون حاصل ہے۔ ایک طرف وہ شیعہ حکومت کو جمہوری قرار دے کر‘ اس کی حمایت کرتا ہے اور دوسری طرف سنّیوں کے دشمن گروہوں کو طاقت اور اسلحہ بھی مہیا کرتا ہے۔ شام اور عراق کے کچھ علاقوںکو‘ حکومتی کنٹرول سے نکال کر شیعہ دشمن تنظیم کے کنٹرول میں دے دیا گیا اور یہ نام نہاد تنظیم پوری مسلم دنیا میں شیعہ سنّی تصادم کو پھیلانے میں مصروف ہے۔ پاکستان اور افغانستان پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنا کر جو خون بہایا جا رہا ہے‘ اس کی منزل افغانستان ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ دنیا بھر کے شیعہ دشمن مسلمان‘ داعش کے زیر کنٹرول علاقوں میں جا رہے ہیں اور مغرب کا میڈیا اس کی بڑھ چڑھ کے تشہیر کرتا ہے۔ ایک طرف داعش کے جنگجو بیرونی دنیا کے مختلف لوگوں کو پکڑ کے سزائیں دیتے ہیں اور دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ان علاقوں پر دکھاوے کی بمباری کرتے ہیں۔ حالانکہ داعش کے جنگجوئوں کے پاس نہ تو جنگی جہاز ہیں اور نہ ہی ایسے میزائل جو بمباری کرنے والے طیاروں کو نشانہ بنا سکیں۔ کردوں کے علاقے میں تیل پیدا کرنے والے ایک مرکز پر داعش کا قبضہ ہو چکا ہے اور انہیں یہ سہولت حاصل ہے کہ مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ان باغیوں سے تیل خرید کر ڈالر فراہم کرتی ہیں۔ تیل تو معلوم نہیں کتنا بکتا ہے؟ لیکن داعش سینکڑوں ملین ڈالر اپنے جنگجوئوں پر خرچ کر رہی ہے۔ سانحہ پشاور کے نتیجے میں جب قوم نے متحد ہو کر‘ دہشت گردوں کا زور توڑنے کے لئے فیصلہ کن اقدامات کرنے کی تیاریاں کیں اور دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا‘ تو جس تیز رفتاری سے اس فیصلے پر عملدرآمد کا چرچا ہوا‘ اب وہ ماند پڑتا جا رہا ہے۔ بی بی سی کی تازہ رپورٹ ہے کہ لشکر جھنگوی نے حکومت پر دبائو ڈالنے کے لئے دہشت گردی کے سلسلوں کو بڑھانے اور پھیلانے کی حکمت عملی بنائی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شیعہ کمیونٹی پر بڑے بڑے حملے کرنے کا مقصد حکومت پر دبائو ڈالنا ہے کہ وہ اس تنظیم کے اراکین کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ بند کر دے۔ اس دھمکی کا کیا اثر ہوا؟ اس پر آپ خود خیال آرائی کر سکتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں کبیروالا کے ایک ذمہ دار شخص کو مامور کیا گیا ہے کہ وہ بڑے حملوں کی تیاریاں کرائے۔ بی بی سی کے مطابق اس جنگجو تنظیم نے پہلے القاعدہ سے مدد مانگی تھی۔ وہاں سے انکار ہونے پر انہوں نے تحریک طالبان پاکستان اور مولوی فضل اللہ سے مدد لی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے حساس علاقوں میں دہشت گردی کی مزید بڑی بڑی وارداتوں کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ بڑے بڑے پرندے‘ لمبی پروازوں کے ارادے باندھ رہے ہیں۔ امریکیوں نے لاہور اور پشاور میں اپنے قونصل خانے بند کر دیئے ہیں۔ موضوع اتنا نازک ہے کہ ایک کالم کی محدود جگہ میں اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے صرف کہیں کہیں طائرانہ نظر سے حقائق کے میدانوں میں بکھرے ہوئے مناظر کو جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ پورا منظر آنے والے کچھ دنوں میں نمایاں ہو کر سامنے آنے لگے گا۔ لیکن بہت خوفناک ہوتی ہے وہ جنگ‘ جس میں ایک دوسرے کا خون بہانے والے گھل مل کر بھی رہتے ہوں اور جنگ بھی جاری رکھیں۔ مارنے اور مرنے والے دونوں بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔