"NNC" (space) message & send to 7575

عطائے دوست-ڈالر بھی‘ دانائی بھی

پاک چین دوستی کے رشتے کو بیان کرنے کے لئے‘ جتنی شاعری ہوئی ہے‘ وہ ازخود حسن سے بھرپور اس رشتے کی معنویت کا اظہار کرتی ہے۔دوستانہ تعلقات پر شاعرانہ اظہار کی پہلی مثال یہ تاریخی جملے ہیں۔ ''پاک چین دوستی‘ ہمالیہ سے اونچی اور بحیرہ عرب کی گہرائیوں سے زیادہ گہری ہے۔‘‘ یہ 1965ء کا اظہاریہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں نئی وسعتیں‘ نئے انداز‘ نئے استعارے اور نئی علامتیں شامل ہوتی گئیں۔ تازہ ترین اصطلاح ''آہنی دوستی‘‘ ہے۔ یہ اصطلاح چینی بھائیوں کی طرف سے آئی ہے۔ چینیوں کے کسی بھی لفظ یا ترکیب کو سرسری نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس کے پیچھے ایک ٹھوس مفہوم ہوتا ہے۔ پاک چین تعاون‘ ایک مسلسل عمل ہے اور دوستی کے اس رشتے کو دراز کرنے کے لئے‘ ہر سال دوسال میں باہمی تعاون کی‘ ایک نہ ایک پرت شامل ہوتی رہتی ہے۔جذبہ دوستی کے اظہار کے لئے تازہ ترین اصطلاح ‘چین نے اس وقت پیش کی‘ جب پاکستان کے صنعتی اور معاشی ڈھانچے کی تشکیل نوکے لئے‘ وہ باہمی تعلقات کے طویل عرصے میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ یہ دوستی کے سفر کا ایک نیا سنگ میل ہو گا‘ جس میں سڑکیں ‘ بندرگاہیں اور ریلوے ٹریک بچھائے جائیں گے۔ پاور پلانٹ تیار کئے جائیں گے۔ پائپ لائنیں بچھائی جائیں گی۔ گویا تعلقات کے اس نئے دور میں فولاد کا حصہ بنیادی ہو گا۔ شاید اسی نسبت سے چینی بھائیوں نے رشتے کی نئی پرت کو ''آہنی دوستی‘‘ کا نام دیا ہے۔ہماری باہمی دوستی میں بے شمار مراحل آئے۔ ہر مرحلے میں چین نے یہ کوشش کی کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے پاکستانی عوام کی زندگی میں بہتری لانے کے لئے کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتا رہے۔ بدنصیبی سے ہمارے حکمران طبقوں نے چین کی اس کوشش کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔ چین ‘ ہمارے عوام کو جب بھی کوئی فائدہ پہنچانا چاہتا‘ ہمارے حکمران آگے بڑھ کر اس طرح کی صورتحال پیدا کرتے کہ چین پاکستان کے لئے‘جو کچھ بھی کرنا چاہتا‘ وہ میٹریل یا زرمبادلہ کی شکل میں حکمرانوں کے سپرد کر دیتا۔ حکمرانوں نے یا تو چین سے تجارتی فوائد حاصل کئے ‘ جو کہ ان کے اپنے کاروباری مفادات کے لئے ہوتے یا جنگی طاقت میں اضافے کے لئے۔ مجھے یاد ہے 60ء یا 70ء کے عشرے میں‘ چین نے پاکستان کو 30 کروڑ ڈالر بلاسودی قرضے کی صورت میں دینے کی پیش کش کی۔ پاکستان نے یہ پیش کش قبول کر لی۔ چینیوں کی شرط یہ تھی کہ آپ ہمیں اخراجات کی نوعیت بتا دیں؟ ''یعنی کس کام کے لئے کتنا پیسا چاہیے؟‘‘ اور اس کے لئے ہم سے رقم وصول کر لیجئے۔ آج کل تو چینیوں سے بھی ''حصہ پتی‘‘ لیا جا سکتاہے۔ مگر اس زمانے کا چین‘ مارکسی ملائیت کی لپیٹ میں تھا۔ چینی لین دین میں کسی قسم کی خیانت گوارا نہیں کرتے تھے اور پاکستان کے حکمران‘ دیانتداری گوارا نہیں کرتے تھے۔ جہاں تک میری یادداشت کا تعلق ہے‘ ہمارے حکمرانوں نے ان 30کروڑ ڈالرز میں سے‘ ایک بھی حاصل کر کے‘ خرچ نہیں کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ چینی یہ راز سمجھ گئے ہیں۔ اب وہی پاکستان ہے‘ جس کے حکام نئے نئے سودے کرنے کے لئے بھاگ بھاگ کر چین جاتے ہیں۔کیونکہ چین نے وہ گر سیکھ لیا ہے‘ جسے استعمال کر کے پاکستانی حکومتوں کو قرض لینے پر تیار کیا جا سکتا ہے۔ 30برس تک سرمایہ دارانہ نظام رکھنے والے ملکوں سے لین دین کرتے ہوئے‘ چین نے بڑے قیمتی تجربات حاصل کئے ہیں۔ 
اب چین‘ پاکستان کیا؟ غالباً ایشیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ یہ سرمایہ جہاں جہاں بھی صرف ہو گا‘ اس کے منصوبے خود چین نے تیار کئے ہیں۔ اخراجات کے طورطریقے بھی اسی کے ہوں گے اور جہاں تک میرا اندازہ ہے‘ یہ رقوم تمام پراجیکٹس پر حسب ضرورت خرچ کی جائیں گی۔ ظاہر ہے یہ پاکستانی حکام اور اداروں کے توسط سے ہوں گی۔ اس میں حکمرانوں کے لئے حصہ پتی کی گنجائشیں بھی‘ فراخ دلی سے رکھی جائیں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا کہ 46ارب ڈالر کے قرضے پاکستان وصول کر لے اور زمین پر ایک پیسے کا بھی کام نہ ہو۔ اب تو چینیوں کو یقین ہو چکا ہو گا کہ ترقی کے لئے دی گئی گرانٹس اور قرضوں کو خرچ کرانے کا طریقہ کیا ہے؟ چین کو امریکہ کا حالیہ تجربہ یاد ہو گا کہ وہ تھوڑے سے عرصے میں دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لئے‘ ہماری حکومتوں کو 21ارب ڈالر دے چکا ہے اور ان میں سے بڑی رقم دہشت گردوں کو ختم کرنے کے بجائے‘ ان میں اضافے پر خرچ ہوتی رہی۔ ہمارے ماہرین کی تشخیص یہ ہے کہ جس چیز کو ختم کرنے کے لئے‘ بیرونی دوستوں سے ڈالر ملیں‘ ان ڈالروں کا ایک حصہ وہ چیز برقرار رکھنے پر خرچ کرتے رہنا چاہیے۔ مثلاً دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لئے ہزار ڈالر ملیں تو آدھے‘ مزید دہشت گردوں کی پیداوار پر خرچ کر دیئے جائیں تاکہ دہشت گرد موجود رہیں اور آمدنی جاری رہے۔
میں ایک بات وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ 46ارب ڈالرکے جو نئے منصوبے پاکستان میں شروع کئے جا رہے ہیں‘ یہ بنیادی طور پر چین کی جارحانہ عالمی سرمایہ کاری کے نئے پروگرام کا حصہ ہیں، لیکن اس میں‘ چین کے اندر ہونے والی دہشت گردی پر‘ چین کی فکرمندی کا بھی دخل ہے۔ اگر آپ غور کریں تو جتنا بھی انفراسٹرکچر پاکستان میں تعمیر کیا جائے گا‘ وہ سارے کا سارا ان علاقوں میں ہو گا‘ جہاں دہشت گردی کی تحریکیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً سڑکوں کا بڑا حصہ بلوچستان اور کے پی کے سے گزرے گا۔ لہٰذا تعمیرات پر جو بھی رقوم خرچ ہوں گی‘ وہ انہی علاقوں میں روزگار مہیا کریں گی اور سڑکیں بننے کے بعد ٹریفک سے ‘تجارت اور سروسز کے مواقع سے جو روزگار پیدا ہوں گے‘ وہ انہی علاقوں کے لوگوں کو ملیں گے۔ پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ہمارے پختون بھائیوں کو جو مہارت اور تجربہ حاصل ہے‘ وہ اتنے بڑے پیمانے پر کسی دوسرے صوبے کے لوگوں کو حاصل نہیں۔ نئی سڑکوں کی تعمیر سے ٹرانسپورٹ کے شعبے کو جو بھی ترقی ملے گی‘ اس کا زیادہ فائدہ پختون اٹھائیں گے۔ گویا تعمیروترقی کے جتنے بڑے منصوبے چین لے کر آ رہا ہے‘ ان کے 80فیصد سے زیادہ فوائد ‘ انہی علاقوں میں جائیں گے‘ جہاں غریبی‘ بیروزگاری اور جہالت کی وجہ سے‘ دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ جب کاروبار‘ پیسہ اور ذرائع سفر میسر آئیں‘ تو وسعت نظر اور حصول علم کی ضروریات کا بھی احساس ہوتا ہے۔اس طرح انتہا پسندی کی جگہ ‘ میل ملاپ اور رواداری لے لیتی ہے اور دہشت گردی ازخود دم توڑنے لگتی ہے۔ یہی دوراندیشانہ طریقہ ہے‘ جو امریکہ استعمال نہ کر سکا اور سینکڑوں ارب ڈالر افغانستان میں ضائع کر کے‘ پسپا ہو گیا۔ آج میں ''نیویارک ٹائمز‘‘ میں ایک مضمون پڑھ رہا تھا‘ جس میں لکھنے والے نے‘ چینیوں کے اس طریقہ کار کی تحسین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو موثر اور نتیجہ خیز منصوبے چین نے شروع کئے ہیں‘ وہ امریکہ سے نہیں ہو سکا۔ امریکیوں نے اندھادھند ڈالر خرچ کر کے‘ وفاداریاں خریدنے کی کوششیں کیں، لیکن دہشت گردی ختم نہ ہوئی۔ البتہ ڈالر بٹورنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ مضمون نگار نے جو چند الفاظ استعمال کئے‘ اس کی تفصیل میں نے خود لکھ ڈالی ہے۔اس ڈسپیچ میں جہانگیر ترین کا تبصرہ بھی شامل ہے۔ جس میں انہوںنے کہا ہے کہ'' چین اس راستے پر‘ بہت بڑے بڑے اور بڑے طریقے سے قدم بڑھا رہا ہے‘ جو کبھی امریکہ نے نہیں اٹھائے ہوں گے۔چین کی معاونت اس سے بہت زیادہ ہے‘ جو امریکی حکومت ‘ یونائیٹڈ سٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کے ذریعے پیش کرتی ہے۔‘‘ پینٹاگون کے ایک سابق سینئر آفیسر نے‘ چینی سرمایہ کاری کے طریقے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ''یوں لگتا ہے کہ چینیوں نے ‘ امریکیوں کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ پینٹاگون نے سٹریٹجک نتائج کے لئے جو بھاری اخراجات کئے‘ ان کا نتیجہ حاصل کرنے میں ‘وہ بری طرح ناکام رہا، جبکہ چین انتہائی بھاری فنانشل کمٹمنٹ کے ساتھ آگے آ رہا ہے اور اس کا ہدف واضح ہے اور جو انفراسٹرکچر وہ تیار کرنے جا رہا ہے‘ وہ 10برس کو محیط ایک ٹھوس اور واضح پروگرام پر مشتمل ہے۔‘‘ یہ پہلا موقع ہو گا کہ پاکستان میں ترقیاتی عمل کے لئے‘ چینیوں کے سرمائے کے ساتھ ان کی مہارتیں‘ حکمت اور دانائی بھی ہمارے کام آ رہی ہو گی اور ہمارے ملک میں ترقی کی ٹھوس بنیادیں رکھی جائیں گی، جن پر 10سال کے بعد ہم خود ترقی کے عمل کو‘ آگے بڑھانے کے قابل ہو چکے ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں