"NNC" (space) message & send to 7575

ہرش کی متنازعہ رپورٹ

سیمو رہرش بلاشبہ عہد حاضر کابے مثال تحقیقاتی صحافی ہے۔ ویتنام کے گائوں مائی لائی سے لے کر عراق کی ابوغریب جیل تک‘ان کی حیرت انگیز معلومات سے بھری رپورٹیں آج تک یاد کی جاتی ہیں۔ لیکن ان کی کچھ حالیہ رپورٹیں ماضی کی طرح نہ تو مصدقہ تھیں اور نہ ہی ان میں بیان کردہ حقائق قابل یقین تھے۔ سچائی کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ اس پر کہیں بھی شک و شبہ پیدا نہ ہو‘ لیکن ''لندن ریویو آف بکس‘‘ میں ہرش کی تازہ رپورٹ میں متعدد مبصروں نے تضادات کی نشاندہی کی ہے۔ سچی بات ہے کہ 10356 الفاظ پر مشتمل یہ پوری رپورٹ‘ میں ابھی تک نہیں پڑھ سکا‘ لیکن اس پر شائع ہونے والے متعدد تبصروں میں ایک ہی بات مشترک نظر آئی کہ بیان کردہ کہانی میں ہر کسی کو کوئی نہ کوئی تضاد نظر آیا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے جتنے حساس موضوع پر اس رپورٹ میں متعدد انکشافات کئے گئے ہیں‘ وہ ہمارے لئے تو حیرت انگیز ہیں ہی‘ انٹرنیشنل قارئین کے لئے بھی ان میں دلچسپیوں اور حیرتوں کا کافی مواد موجود ہے۔جتنا کچھ لکھا جا چکا ہے‘ میں اس میں کوئی اضافہ شاید نہ کر سکوں‘ البتہ جتنے تبصرے میری نظر سے گزرے ہیں‘ ان میں بی بی سی کے متعدد تبصروں میں سے ایک بہتر اور غیرجانبدارانہ معلوم ہوا۔ آج کے کالم میں وہی پیش کر رہا ہوں۔ ابھی تک ہرش کی رپورٹ صرف انگریزی میں دستیاب ہے۔ میری کوشش ہو گی کہ اردو قارئین کے لئے بھی اسے ''دنیا‘‘ کے صفحات پر پیش کر دوں۔
''سیمور ہرش نے 1970ء میں مائی لائی میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں ویت نامی شہریوں کی ہلاکت کا انکشاف کرنے پر پیولٹزر انعام حاصل کیا تھا۔الزامات تہلکہ خیز ہیں اور وہ اس شجاعانہ بیانیے کی نفی کرتے ہیں ‘جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صدر اوباما کے دورِ صدارت کی اہم ترین کامیابیوں میں سے ایک ہے۔پیولٹزر انعام یافتہ ادیب سیمور ہرش ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ جس حملے میں اسامہ بن لادن قتل ہوئے‘ وہ امریکہ کی خفیہ کارروائی نہیں تھی بلکہ وہ آپریشن امریکی اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ملی بھگت سے ہوا تھا۔اس الزام کے بعد امریکہ اور پاکستان میں بہت سوں نے ہرش کی طولانی تحریر میں ناکافی مآخذ اور قابلِ اعتراض نتائج اخذ کرنے پر انگلی اٹھائی۔وائٹ ہاؤس کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ''یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اسامہ بن لادن کے قتل والا آپریشن امریکہ کی یک طرفہ کارروائی نہیں تھا۔‘ ‘انھوں نے کہا کہ سیمور ہرش کا مضمون ''اغلاط اور بے بنیاد دعووں سے پُر ہے۔‘‘ ہرش کے مضمون کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اسامہ بن لادن 2006ء سے پاکستانی کنٹرول میں تھے اور انھیں سعودی عرب کی مالی مدد سے ایبٹ آباد میں رکھا گیا تھا۔ہرش کہتے ہیں کہ جب امریکہ کو پاکستانی انٹیلی جنس کے ایک اہلکار کے ذریعے اسامہ کے بارے میں پتہ چلا‘ تو پاکستانی حکام نے امریکہ کو اسامہ کے مکان پر دھاوا بولنے کی اجازت دے دی۔اس کے بعد ایک معاہدہ طے پایا ‘جس کے نتیجے میں پاکستان مالی امداد کے بدلے امریکہ کو اس علاقے کا تفصیلی مطالعہ کرنے اور بن لادن کی شناخت کی تصدیق کرنے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کی اجازت دینے پر راضی ہو گیا۔ہرش لکھتے ہیں کہ معاہدے کی رو سے امریکہ ‘بن لادن کی موت کا اعلان ایک ہفتے کی تاخیر کے بعد کرتا اور کہتا کہ وہ افغانستان میں ایک ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں۔ تاہم امریکہ کا ایک ہیلی کاپٹر آپریشن کے دوران گر کر تباہ ہو گیا اور وائٹ ہاؤس کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ خبر چھُپ نہیں سکے گی۔ چنانچہ صدر اوباما نے پاکستانیوں کو ڈبل کراس کر دیا۔ اس رات صدر اوباما نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ خفیہ اداروں کی کئی ماہ کی محنت شاقہ کے بعد امریکی نیوی سیلز کے کمانڈوز نے پاکستانیوں کو بتائے بغیر آپریشن کر کے‘ اسامہ کو مار ڈالا ہے۔ہرش لنڈن ریویو آف بکس میں لکھتے ہیں ''ایسا لگتا ہے جیسے وائٹ ہاؤس کی پیش کردہ کہانی لیوس کیرل ('ایلس ان دا ونڈر لینڈ‘ کے خالق) نے لکھی ہو۔‘‘ ہرش اپنے مضمون کا اختتام اوباما انتظامیہ کی خارجہ پالیسی پر تند و تیز تنقید سے کرتے ہیں۔ہرش کا مضمون جنگل کی آگ کی طرح پھیلا اور سوشل میڈیا پر اس قدر مقبول ہوا کہ لنڈن ریویو آف بکس کی ویب سائٹ ہی بیٹھ گئی۔تاہم جلد ہی بعض صحافیوں نے اس مضمون پر سوال اٹھانا شروع کر دیے، خاص طور پر ووکس کے میکس فشر اور سی این این کے پیٹر برگن۔ مضمون پر کی جانے والی تنقید کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
غیر مصدقہ مآخذ: ہرش کے مضمون کا بڑا حصہ گمنام امریکی اور پاکستانی انٹیلی جنس حکام کے بیانات پر مبنی ہے‘ جن میں سے کوئی بھی براہِ راست کارروائی کا حصہ نہیں تھا۔ صرف ایک ماخذ اسددرانی کا نام لیا گیا ہے‘ جو دو عشرے پہلے پاکستانی انٹیلی جنس میں کام کرتے تھے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے ''سابق رفیقِ کار‘‘ ہرش کے دعووں کی تصدیق کرتے ہیں۔ بعد میں سی این این کے برگن نے درانی سے رابطہ کیا تو انھوں نے فقط اتنا ہی کہا کہ ہرش کا دعویٰ ''قرینِ قیاس‘‘ ہے۔
متضاد دعوے: ہرش اس بات کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ اس آپریشن میں حصہ لینے والے دو کمانڈو ایسے تھے‘ جنھوں نے بعد میں حملے کی تفصیلات بیان کی تھیں۔ برگن نے اسامہ کا مکان دیکھ رکھا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ وہاں طویل لڑائی کے آثار موجود تھے اور تمام مکان' 'ٹوٹے ہوئے شیشے کے ٹکڑوں سے اٹا پڑا تھا اور جگہ جگہ گولیوں کے نشان تھے۔‘‘
غیر حقیقی نتائج: سعودی ایک ایسے شخص کی مالی مدد کیوں کرنے لگے جو سعودی شہنشاہیت کے خاتمے کے درپے ہو؟ اگر پاکستان اور امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ ہوا تھا تو بعد میں ان دونوں کے تعلقات خراب کیوں ہو گئے؟ اگر امریکہ اور پاکستانی واقعی مل کر کام کر رہے تھے ‘تو کیا یہی اسامہ کو قتل کرنے کا آسان ترین طریقہ تھا؟
جیسا کہ سازشی نظریات کے ساتھ اکثر ہوتا ہے‘ ہرش کے بیانیے پر سب سے کڑی تنقید یہ کی جا سکتی ہے کہ یہ ایسے کرداروں پر مبنی ہے جو مکمل گمنامی کے پردے میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔ووکس کے فشر‘ ہرش پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ نہایت کھوکھلے شواہد پر ناقابلِ یقین دعووں کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔فشر لکھتے ہیں''ممکن ہے دنیا پیچیدہ اور شیطانی سازشوں کے تانوں بانوں سے ڈھکی ہوئی ہو‘ جنھیں بین الاقوامی ماسٹر مائنڈ کمال مہارت سے سرانجام دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہرش اور ان کے بے نام سابقہ سینئر حکام ہی اس دنیا کی جھلک دیکھنے پر قادر ہوں۔ یا پھر ممکن ہے کہ ان واقعات کی کوئی سادہ توجیہ بھی ہو۔‘‘پیر کے روز ہرش نے ایک انٹرویو میں بازی پلٹنے کی کوشش کی۔ ''24 یا 25 آدمی پاکستان کے وسط میں جاتے ہیں۔ بغیر کسی فضائی کور کے ایک آدمی کو پھڑکا دیتے ہیں۔ کوئی سکیورٹی نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ کیا آپ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں؟‘‘انھوں نے مزید کہا''مجھے افسوس ہے کہ یہ عام سوچ کے برعکس ہے۔ میں ساری زندگی یہی کام کرتا رہا ہوں اور یہی کہہ سکتا ہوں کہ میں اس کے مضمرات سمجھتا ہوں۔‘‘
انٹرنیٹ پر کسی دھماکہ دار مگر مشکوک خبر کے لیے ایک مخفف اکثر استعمال کیا جاتا ہے' 'اگر سچ ہے تو واؤ!‘‘ ہرش کے مضمون پر' 'واؤ‘‘ تو ہوا ہے لیکن اکثر لوگوں نے ''اگر سچ ہے‘‘ پر زیادہ زور دیا ہے۔‘‘

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں