"NNC" (space) message & send to 7575

نئے بحران

دو دن پہلے بھارت کے وزیردفاع نے اپنی حکومت کی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ''دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں بھی دہشت گردوں کا استعمال کرنا پڑے گا‘‘ اور اگلے ہی دن راج ناتھ سنگھ نے ان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ''اب ہمیں دہشت گردوں کا استعمال کرنا پڑے گا۔‘‘ایسا نہیں کہ اس سے پہلے بھارت ‘دہشت گردوں کا استعمال نہیں کر رہا تھا۔ اس پالیسی پر وہ کئی برسوں سے عمل کر رہا ہے۔ خصوصاً بلوچستان میں اس نے تخریب کاری کے لئے جو نیٹ ورک تیار کر رکھا ہے‘ اس کی کارستانیوں پر پاکستان بارہا بھارتی حکمرانوں کو متوجہ کر چکا ہے، لیکن وہ اسے مان کر نہیں دیتے۔ پھر ان کی توجہ کراچی کی طرف ہوئی اور وہاں ان کے بھیجے ہوئے دہشت گرد جب چاہتے ہیں واردات کر دیتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں بھی بھارتی ایجنٹوں کی سرگرمیاں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں سے پوشیدہ نہیں، لیکن اب یوں لگتا ہے کہ بھارت نے کھلم کھلا پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے استعمال کا بطور پالیسی فیصلہ کر لیا ہے۔ ان کی کابینہ کے دو وزیروں نے یکے بعد دیگرے ایک ہی بیان دے کر واضح کر دیا کہ یہ کوئی انفرادی رائے نہیں‘ حکو مت کا ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے، جو یقینا کابینہ کی میٹنگ میں کیا گیا۔آپ اسے بیشک دور کی کوڑی سمجھیں، لیکن بھارتی وزراء کے واضح بیانات کے بعد دو واقعات ایسے ہوئے‘ جن میں بھارتی ایجنٹ واضح طور پر سرگرم نظر آئے۔ پہلے سندھ ہائی کورٹ میں تربیت یافتہ نقاب پوشوں کا احتجاج کرنے والے عام شہریوں پر حملہ اور شہریوں کو زدوکوب کرنے کاماہرانہ انداز اور پھر ان کا دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو جانا۔ اسی طرح کل ڈسکہ کے ہنگاموں میں اچانک چند نقاب پوشوں کا نمودار ہونا اور آتش زنی اور تخریب کاری کے ان طریقوں کا استعمال‘ جو عام شہریوں اور وکلا کے بس کی بات نہیں ہوتے۔واضح رہے کہ ڈسکہ کسی بھی طرف سے بھارتی سرحدوں سے ایک گھنٹے سے زیادہ کے فاصلے پر نہیں ۔ شکرگڑھ ہو، ہیڈمرالہ ہو یاجموں سیالکوٹ کی سرحد، ہر طرف سے موٹرسائیکل یا کار پر ایک گھنٹے کے اندر اندر ڈسکہ پہنچا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے باقی چاروں صوبوں میں بھارتی دہشت گردوں کا نیٹ ورک بہت پرانا ہے۔ صرف پنجاب کی سرحدیں عمومی طور پر محفوظ تھیں۔ کبھی کبھار ایک آدھ جاسوس سرحدپار کر کے آ جاتا تھا، لیکن گزشتہ چند روز سے عوامی اجتماعات میں ماہر تخریب کاروں کا نمودار ہونا‘آنے والی کارروائیوں کا پیش خیمہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر میرا شک درست ہے‘ تو اس طرح کے مزید واقعات دیکھنے میں آ سکتے ہیں اور اگر یہ دہرائے گئے‘ تو ہمیں بھارت کے نئے منصوبوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے‘ اپنے بچائوکے طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔
مودی حکومت کو اقتدار میں آئے ایک سال ہو چکا ہے اور وہاں بڑے اہتمام سے اس کی پہلی سالگرہ منائی گئی ہے۔ اس حکومت کے متعدد لیڈروں نے‘ مختلف طریقوں سے پاکستان کو دھمکیاں دی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے پالیسی ساز اپنی روایتی خوش فہمی سے کام لیتے ہوئے ان اشاروں کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ بھارت کے دو یونین وزیروں کے واضح بیانات اور ان کے فوراً بعد پاکستان میں ایک ہی طرز کی وارداتیں ‘یہ سوچنے کی گنجائش ضرور پیدا کرتی ہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی دیرینہ مہم میں نئے علاقوں اور نئی حکمت عملی کے ساتھ وسعت لانے کا فیصلہ کر چکا ہے۔افغانستان کی بدلتی ہوئی سیاست پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صدر اشرف غنی کی پاکستان سے لگائی ہوئی امیدوں کے وہ نتائج سامنے نہیں آ رہے‘ جن کی بنیاد پر وہ اپنی پاکستان پالیسی کا دفاع کر سکیں۔ ان پر مسلسل یہ الزام ہے کہ وہ پاکستان پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان اپنے پسندیدہ دہشت گردوں کی اسی طرح سرپرستی کر رہا ہے اور افغان حکومت کے دوستانہ طرزعمل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حامی طالبان کو مضبوط بنانے میں مصروف ہے۔ اس عمل کو آگے بڑھانے میں عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی کے ہم خیال واضح اعلان کئے بغیر ایک دوسرے سے باہمی تعاون کر رہے ہیں اور ان کا مسلسل اصرار ہے کہ بھارت کو پاکستان کے مخالفین کی مدد کے لئے کھل کر سامنے آنا چاہیے۔
بدقسمتی سے پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا انحصار صرف اشرف غنی پر کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کسی دوسری سیاسی قوت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پرتوجہ نہیں دے رہا۔افغانستان کے روایتی سیاسی منظر نامے میں کوئی بڑی قوت‘ پاکستان کی توجہ کا مرکز نہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمارے درمیان دیرینہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ بالخصوص حامدکرزئی کی حکومت کے زمانے میں تعلقات بہتربنانے کی جتنی بھی کوششیں کی گئیں‘ وہ کسی نہ کسی باعث ‘انجام کار ناکام ہوتی رہیں۔ پاکستان اس کا الزام حامد کرزئی کو دیتا رہا اور حامد کرزئی ہمیں مورد الزام ٹھہراتا رہا، لیکن بنیادی تضاد کی طرف دونوں نے ہی توجہ نہیں دی۔ حامد کرزئی کی بار بار فرمائشوں کے باوجود کہ پاکستان اس کے مخالف طالبان کی سرپرستی چھوڑکر‘ انہیں حامدکرزئی کی حمایت پر آمادہ کرے، لیکن پاکستان اپنے حامی طالبان سے لاتعلق ہو کر حامدکرزئی کو مضبوط کیسے کر سکتا تھا؟ جبکہ حامدکرزئی نے بار بار پاکستان کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کر کے‘ بھارت نواز پالیسیاں جاری رکھیں۔ صدرآصف زرداری نے پاکستان کی ریاستی پالیسیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ کرزئی حکومت کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ آصف زرداری کی دوستانہ پیش قدمی کو نظراندازکرتے ہوئے اپنے دیرینہ موقف پر
قائم رہے کہ پاکستان اپنی دیرینہ پالیسیوں سے انحراف کرتے ہوئے‘ کرزئی کا تیار کردہ راستہ اپنائے۔ ظاہر ہے‘ آصف زرداری چاہتے بھی تو اتنی بڑی تبدیلی لے آنا ان کے اختیار میں نہیں تھا۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان نے افغان صدر اور افغان صدر نے پاکستان سے جو دوطرفہ توقعات قائم کر رکھی تھیں‘ اب دونوں یہ سوچنے پر مائل ہو رہے ہیں کہ جو پالیسیاں وہ اختیار کرنے جا رہے ہیں‘ ان پر عمل درآمد ان کے اختیار میں نہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ افغانستان کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ ان کے کمانڈر اشرف غنی کے پاک فوج پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف سوالوں پر ایوان صدر اور افغانستان کی قومی دفاعی پالیسیوں میں بہت تضاد پایا جاتا ہے۔صدراشرف غنی اتنی سیاسی طاقت منظم نہیں کر پائے کہ پاکستان مخالف سیاسی عناصر اور قومی دفاع کے اداروں کی مکمل حمایت حاصل کر سکیں۔ یہ عناصر پاکستان کے دفاعی اداروں پر بھی بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہاں صدراشرف غنی پر یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کرتے ہوئے‘ افغانستان کے مفادات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ان حلقوں کی رائے ہے کہ جنرل راحیل شریف‘ اشرف غنی پرضرورت سے زیادہ بوجھ ڈال کر ان سے ایسے اقدامات کرانا چاہتے ہیں جو ان کے اختیار میں نہیں۔ اشرف غنی کو صرف امریکہ سے توقعات ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ افغانستان معاشی اور دفاعی اعتبار سے اپنے داخلی بحران پر قابو پانے کے قابل نہیں، جبکہ امریکہ کاجھکائوواضح طور پر پاکستان کی طرف ہے۔ وہاں کی انتظامیہ ‘ افغانستان کی ان صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے معاشی اور دفاعی مسائل پر قابو پا سکے گا اور بھارت اس قابل نہیں کہ افغانستان کے پیچیدہ مسائل کو سلجھانے میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا کر سکے۔ افغانستان میں اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر بھارت نے معدنیات کے ٹھیکوں پر ہونے والے مذاکرات بھی معطل کر دیئے ہیں اور اب اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ بھارت ایک ارب ڈالر کے یہ سودے کرنے کے ارادے ترک کر چکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے عظیم منصوبوں پر اسے شدید پریشانی لاحق ہے اور وہ ان میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں دشواریاں محسوس کر رہا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ پاکستان کے اندر سے ہے۔ یہاں کے مقامی سیاسی گروہ ماضی میں بھی بھارتی اثرات کے تحت پاکستان کے کئی بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں میں خلل ڈال چکے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال کالاباغ ڈیم ہے۔ جن عناصر نے کالاباغ ڈیم کی تعمیررکوانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا‘ اب وہ اقتصادی راہداری کے منصوبے کو بھی ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اوراس کام کی ابتدا ہوچکی ہے۔ ہمارے خطے میں پیدا ہونے والی یہ نئی پیچیدگیاں کسی اچھے اور پرامن علاقائی ماحول کے لئے امیدافزا نہیں ہیں اور مجھے اس کی بھی امید نہیں کہ پاکستان میں سیاسی فیصلہ سازی کرنے والی قوتیں ان پیچیدہ بحرانوں پر قابو پانے کی اہلیت رکھتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں