مشورے دیئے جا رہے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کو پاکستان میں آباد کر کے ایک نیا پاکستان بنا دیا جائے۔ پہلے ہم نے اپنے لئے پاکستان بنا کر‘ ایٹم بم کے سوا کیا حاصل کیا؟ شرح تعلیم ہمارے ہاں کم ہو گئی۔ بیروزگاری پہلے سے بڑھ گئی۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے جگہ کم پڑ گئی۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہم جھنگ شہر کے سرکاری ہسپتال میں جاتے تھے‘ تو ڈاکٹر دوا کے ساتھ دعائیں بھی دیتا۔ گھر والوں کی خیرخیریت پوچھتا۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے اور مجھے یقین دلانے کا شوق بھی نہیں۔ آج کل رش کے زمانے میں کون کسی کو پہچانتا ہے؟ کونسا ڈاکٹر اپنی نگرانی میں دوا دلواتا ہے اور اہل خاندان کی خیرخیریت بھی پوچھتا ہے؟ آپ یقین کریں نہ کریں‘ یہ 1950ء کے زمانے کی بات ہے۔ تب میں ہی نہیں‘ ہر کسی کے ساتھ ہسپتالوں میں یہی سلوک ہوا کرتا۔ جھنگ ایک چھوٹا سا شہر تھا اور وہاں مہاجرین بہت کم تعداد میں آئے تھے۔ شہر کے جمے جمائے معاشرے میں یہ تھوڑے سے لوگ آسانی کے ساتھ جذب ہو گئے۔ چند ہفتوں کے اندر سب ایک دوسرے کو جاننے لگے۔ مقامی آبادی بڑی ہمدردی سے پیش آتی۔ بن بلائے مہمانوں سے کسی کو شکایت نہیں تھی۔ بہت جلد نئے اور پرانے شہری گھل مل گئے۔ اس وقت آبادی تھوڑی تھی۔ مقامی آبادی ‘ مہاجروں کو فراخ دلی سے قبول کر رہی تھی۔ یہ سلسلہ کافی عرصے تک چلتا رہا۔ سکولوںمیں (جومیونسپلٹی کے ہوتے تھے) داخلہ سال بھر کھلا رہتا۔ روزگار کے لئے اتنی فکر نہیں ہوتی تھی۔ کسی نے چھوٹی سی دکان بنا لی۔ کوئی خوانچہ لے کر بیٹھ گیا۔ شہر میں ایک کمبل بنانے کا کارخانہ تھا۔ وہاں بھی لوگوں کو نوکری مل جاتی۔جھنگ صدر بڑا تھا۔ اس لئے وہاں مہاجرین زیادہ تعداد میں آئے۔ سنتے تھے کہ کچھ دنوں میں مہاجرین اپنے اپنے شہروں کو لوٹ جائیں گے اور پھر سب اسی طرح رہنے لگیں گے۔ یہ افواہ کبھی کبھی اڑتی اور وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑتی گئی۔ کافی عرصے بعد یقین آیا کہ اب یہی سرزمین ہمارا مستقل وطن ہے۔ اب ہمیں یہیں رہنا ہو گا۔جہاں تک مجھے یاد ہے‘ سات آٹھ سال تک تو بھارت سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ ایسا بھی ہوا کہ کچھ لوگ آئے۔ یہاں آباد ہونے کی کوشش کی‘ لیکن نیا وطن انہیں پسند نہ آیا اور وہ پھر لوٹ گئے۔ خاص طور سے وہ لوگ‘ جو کانگرسی ہوا کرتے تھے۔ پنجاب میں تو پچاس کے عشرے کے بعد آمدورفت کا سلسلہ رک چکا تھا‘ لیکن کراچی میں کافی عرصے تک آمدورفت جاری رہی۔
60ء کے عشرے میں سب کچھ معمول پر آ گیا۔ بھارت سے آمد اور واپسی کا سلسلہ ختم ہوا۔ 70ء کے عشرے میں افغانستان کی صورتحال بگڑنے لگی اور پھر یوں ہوا کہ ہم نے ایک بار پھر قافلوں کے قافلے پاکستان میںآتے دیکھے۔ یہ بلوچستان اور پختون علاقوں تک تو ٹھیک تھا۔ لیکن پنجاب کے لئے نئے مہمانوںکے ساتھ گھلنا ملنا مشکل تھا۔ ان کے لئے کیمپ بنائے گئے اور اس کے بعد جو سلسلہ شروع ہوا‘ تو یہ لوگ آتے ہی چلے گئے۔ برما اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے بھی پاکستان کا رخ کرنا شروع کیا۔ یہ لوگ زیادہ تعداد میں کراچی آ کر بسے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ 80ء کے عشرے کے اواخر میں برما کے لوگ بھی آ کر آباد ہونے لگے اور پھر چل سو چل۔ جہاں بدامنی ہوتی‘ مسلمان پاکستان کا رخ کرتے۔ مکان تو مدتوں پہلے مہاجرین کے قبضے میں جا چکے تھے۔ اب یہ لوگ نئی نئی آبادیاں بسانے لگے۔ خصوصاً کراچی میں تو انہوں نے اپنے لئے کچی آبادیاں بنانا شروع کر دیں۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ہمارے کسی شہر میں نئے آنے والوں کے لئے جگہ نہ رہ گئی۔ اب شہروں کی آبادیوں میں زبردستی نئے مہمانوں کو داخل کر کے بسایا جانے لگا۔ مہاجرین کے لئے جو خیرسگالی پائی جاتی تھی‘ وہ پختونوں کی لاکھوں کی تعداد میں آمد کے بعد ٹھنڈی پڑ گئی۔ ایشیا اور افریقہ مسلمانوں سے بھرے پڑے ہیں اور پتہ نہیں کہاں کہاں کے مسلمان‘ سمندروں
اور صحرائوں میں آباد ہونے کے لئے ادھر ادھر پھر رہے ہیں؟ ان میں سب سے دردناک منظر وہ ہیں‘ جن میں جہازوں کے جہاز بھرے ہوئے گہرے سمندروں میں پھر رہے ہیں۔ اب یہ کسی ملک کے ساحل کی طرف جاتے ہیں‘ تو مقامی لوگ پریشان ہونے لگتے ہیں۔ بہت کم ایسے ہیں‘ جو انہیں خوش آمدید کہہ کر آباد ہونے کی پیش کش کریں۔ انہیں کھانا اور پانی پہنچا کر دعائوں کے ساتھ رخصت کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کسی مسلمان ملک کی طرف سے انہیں اپنے ملک میں آباد کرنے کی پیش کش نہیں کی جا رہی۔ حالانکہ بہت سے ملک ایسے ہیں‘ جہاں زمین وافر ہے اور ان کی آبادیاں بسائی جا سکتی ہیں۔ لیکن میرے علم میں نہیں کہ کسی طرف سے انہیں خوش آمدید کہا جا رہا ہو۔ وہ عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوںکے ساتھ ملکوں ملکوں جا رہے ہیں۔ یہ درد مندی صرف پاکستانیوں ہی میں پائی جاتی ہے کہ ہمارے کچھ لوگ پھر سے ان مہاجرین کو پاکستان میں آباد کرنے کی تجویزیں دے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو ابھی سے یہ کوشش بھی شروع کر دی ہے کہ انہیں کسی طرح ساحل پہ اتار کر‘ ملک کے آباد حصے میں بسانے کے انتظامات کئے جائیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کے اپنے لوگوں کے پاس پینے کا پانی کم ہوتا جا رہا ہے۔ سندھ اور پنجاب کے جنوبی علاقوں میں پانی کی قلت شروع ہو چکی ہے۔ بلوچستان میں پانی لینے کے لئے عورتوں کو میلوں چل کر جانا پڑتا ہے۔ خوراک بمشکل پوری ہوتی ہے۔ ہر دوچار سال کے بعد گندم کی پیداوار میں کمی آ جاتی ہے اور ہمیں اپنے لوگوں کے لئے خوراک درآمد کرنا پڑتی ہے۔ افغان
مہاجرین کے لئے بیرونی امداد میں کمی ہونا شروع ہو چکی ہے اور اقوام متحدہ نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ان لوگوں کی واپسی کا بندوبست ہونا چاہیے۔ بیروزگاری اپنے عروج پر ہے۔ سیلابوں کی وجہ سے جو لوگ بے گھر ہوتے ہیں‘ انہیں دوبارہ کئی کئی سال اپنا گھر ازسرنو تعمیر کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ آج بھی جنوبی پنجاب اور سندھ کے بیشتر گائوں گرے پڑے ہیں اور لوگ خیمے لگا کر زندگی گزار رہے ہیں۔ شہروں میں جھگیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جو لوگ ان لوگوں کو پاکستان میں لا کر آباد کرنے کے مطالبے کر رہے ہیں‘ انہیں لاہور‘ کراچی اور دوسرے کئی شہروں میں جھگیوں اور کچی آبادیوں کی حالت زار کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔ ممکن ہو تو ایسے لوگوں کو وہاں پندرہ بیس دنوں کے لئے رہنے کا موقع بھی دیا جائے اور اس کے بعد ان سے پوچھا جائے کہ آپ ان بے گھروں کو پاکستان لا کر آباد کہاں کریں گے؟ یقینا ساری دنیا روہنگیا مظلوموں کی حالت زار پر غمزدہ ہے۔ بنیادی طور پر یہ مسئلہ ساری انسانیت کا ہے۔ پاکستانیوں نے قسم نہیں کھا رکھی کہ دنیا بھر میں جہاں مسلمان فساد کا شکار ہوں اور انہیں اپنے گھر چھوڑنا پڑیں‘ تو انہیں آباد کرنے کے لئے صرف پاکستان ہی کی سرزمین مہیا کی جائے۔ اگر ہمارے ملک میں گنجائش ہوتی‘ تو ہم یقینا فراخ دلی سے انہیں اپنے ہاں آباد کرتے، لیکن اب تو پاکستان کے پاس مزید مہاجروں یا پناہ گزینوںکو جگہ دینے کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں۔ صرف ایک طریقہ رہ گیا ہے کہ اپنے لوگوں کو گھروں سے نکال کر‘ انہیں وہاں بسا دیں۔ لوڈشیڈنگ میں ہمارے شہری سسک رہے ہیں۔ ہمارے لاکھوں شہریوں کو ادنیٰ ترین سطح کی خوراک بھی نصیب نہیں ہوتی۔ بچے کوڑے کے ڈھیر سے خوراک کے ٹکڑے ڈھونڈ کر کھاتے ہیں۔ ان ''خداترسوں‘‘ کو اپنے شہریوں پر رحم نہیںآتا۔ رحم کھانے کے لئے اتنی دور سمندروں میں جھانکنے کی کیا ضرورت ہے؟ کراچی کے میدانوں میں پڑے مختلف تارکین وطن کے جھنڈ دیکھئے اور جن لوگوں میں جذبہ انسانیت کی زیادہ ہی طغیانی آئی ہوئی ہے‘ وہ پہلے ان بھوکے پیاسے انسانوں کے زندہ رہنے کا انتظام تو کر دیں۔ باقی دنیا میں بھی مسلمان بستے ہیں اور ان کے پاس جگہ بھی بہت ہے اور وسائل بھی ۔ انہیں وہاں لے جا کر کیوں آباد نہیں کیا جاتا؟ ان سب سے بڑھ کر عالم انسانیت کی ذمہ داریاں بھی ہیں اور ایسا کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے پاس ذرائع بھی ہیں اور وسائل بھی۔ سارے مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کو اس خدمت کے لئے تیار کریں۔ اضافی وسائل کی ضرورت ہو‘ تو ہم بھی اپنے حصے کا چندہ دے سکتے ہیں۔ اپنے ہی ملک میں دوسروں کو لا کر آباد کرتے کرتے خود برباد ہونا کہاںکی نیکی ہے؟