بھٹو اور عمران کی زندگی میں دو مماثلتیں ہیں۔ ایک عوامی مقبولیت اور ایک پاکستانی عدالتوں سے توقعات۔ عوامی مقبولیت میں دونوں اپنے اپنے دور کے لیڈروں میں سرفہرست ہیں۔ بھٹو صاحب نے عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ برقرار رکھ کے‘ شاندار انتخابی کامیابی حاصل کی۔ عمران خان نے کوئی غلطی نہ کی‘ تو وہ بھی اسی راستے پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ عمران خان بھی کہیں انہی غلطیوں کا شکار نہ ہو جائیں‘ جو بھٹو صاحب کرتے رہے۔ بھٹو صاحب کی انتخابی طاقت کسی بااثر شخصیت کی محتاج نہیں تھی۔ اگر وہ روایتی انتخابی طور طریقوں سے متاثر نہ ہوتے‘ تو جس حلقے میں چاہتے ''اللہ دتہ ‘‘کو امیدوار بنا کر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے اور پھانسی بھی نہ لگتے۔ انہوں نے غلطی یہ کی کہ روایتی حکمران خاندانوں کے ''گرگان باراں دیدہ ‘‘کو اپنے ساتھ ملا کر سمجھ لیا کہ وہ اپنی انتخابی کامیابی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ انتخابات میں تو ان کے امیدوار کامیاب ہو گئے لیکن وہ اقتدار کی بازی ہار گئے۔ عمران خان کے لئے بھٹو کی زندگی سے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ میں دونوں کا موازنہ مکمل شخصیت کے طور سے نہیں کر رہا۔ دونوں کی شخصیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہاں تقابل کا پیمانہ صرف مقبولیت کو بنا کر کالم لکھ رہا ہوں۔ بھٹو صاحب کی مقبولیت سے خائف ہو کر بھی تمام روایتی حکمران خاندانوں نے ‘ان کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا۔ جو بیوقوف تھے‘ وہ سامنے آ کر انتخابی مقابلے میں اترے اور جو ذہین تھے‘ وہ پارٹی کے ساتھ آ گئے۔ مخالفین انتخابات میں شکست کھا کر بے اثر ہو گئے۔ لیکن جو پارٹی میں چلے گئے‘ وہ طاقتور ہو گئے۔ پارٹی کے اندر رہ کر انہوں نے بھٹو صاحب کی جو حالت بنائی‘ وہ انہیں تختہ دار تک لے گئی۔ اصلی بھٹو دیکھنا ہو تو ان کے اقتدار کے ابتدائی چند ہفتے قابل مطالعہ ہیں۔ انہوں نے طوفانی تیزی کے ساتھ انقلابی اصلاحات نافذ کیں اور فوراً ہی ان پر عملدرآمد شروع کرا دیا۔ اگر ان کی پارٹی میں کوئی سرمایہ دار اور جاگیردار نہ ہوتا تو وہ عوام کی طاقت سے ساری اصلاحات پہ عملدرآمد کر لیتے۔ مگر افسوس کہ جن لوگوں کو انہوں نے اپنی سیاسی ٹیم بنایا‘ وہ سب پاور سٹرکچر کے ایجنٹ تھے۔ انہوں نے آہستہ آہستہ کابینہ کی میٹنگوں اور تخلیے میں‘ بھٹو صاحب کو ایسے ایسے مشورے دیئے کہ بیوروکریسی کا اثرورسوخ بڑھتا گیا۔ اصلاحات بے اثر ہوتی گئیں۔ ڈاکٹر مبشر اور ان کے انقلابی ساتھی دل شکستہ ہوتے گئے۔ جاگیرداروں اور روایتی حکمران طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے حوصلے بڑھتے گئے اور آخری کہانی بہت ہی دردناک ہے۔ بھٹو صاحب الیکشن میں بھاری اور فیصلہ کن اکثریت سے جیت رہے تھے لیکن اس الیکشن کو ایک دو خوشامدی بیوروکریٹس اور حکمران طبقوں کے روایتی نمائندوں نے بلامقابلہ منتخب ہو کر دشمنوں کو ہتھیار فراہم کر دیا جس کا طبقاتی اور فکری طور پر بھٹو کے دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور اچھے بھلے صاف ستھرے الیکشن کو داغدار کر کے رکھ دیا۔ ادھر طاقتوں کا توازن یہ تھا کہ بھٹو صاحب ایوان اقتدار میں اکیلے تھے۔ ان کے مشیر اور ترجمان ‘ ان کے دشمن طبقوں کے نمائندے تھے۔ ساری بیوروکریسی اور عدلیہ ان کے مخالفین کے اشاروں پر ناچ رہی تھی۔ وہ الیکشن جیت کر بھی ہار گئے اور اگر اسی مثال کو آج کی روشنی میں دیکھنا ہو تو نوازشریف صرف حکمران طبقوں کے نمائندہ ہی نہیں‘ لیڈر بھی ہیں۔ جوڈیشل کمیشن میں عمران خان کی درخواست پرجو عدالتی کارروائی ہوئی‘ اس میںروایات کے مطابق عمران بے شک ہار جائیں لیکن جو ریکارڈ انہوں نے تاریخ کے لئے محفوظ کر دیا ہے‘ وہ ہمیشہ عوام کے کام آئے گا۔ کیسے کیسے تمام کرداروں نے حکومت وقت کی مدد ہی نہیں وکالت بھی کی؟ عمران خان بھول گئے کہ جس نظام سے ٹکرانے کے لئے وہ میدان سیاست میں اترے ہیں‘ اس کی جڑیں ادرک کے پنجوں کی طرح زمین کے نیچے ہی نیچے بڑی توانائی کے ساتھ پھیلتی ہیں۔ وہ طاقت جس کے زور پہ حکمران تاریخی تبدیلیاں برپا کرتے ہیں‘ عوام کی ہوتی ہے۔ برصغیر میں دو لیڈر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے عوام کی طاقت سے تبدیلیاں برپا کیں۔ بھارت میں پنڈت نہرو تھے ۔ بھارتی عوام کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں اقتدار کا طویل عرصہ میسر آ گیا۔ ان کے طرزحکومت میں شائستگی‘ قانون پسندی‘ تحمل اور قائدانہ صلاحیتیں تھیں اور وہ اپنے فیصلے انفرادی نہیں‘ جمہوری طریقے سے نافذ کرتے تھے۔ انہیں حکومت کرنے کے لئے بھی طویل مدت نصیب ہوئی‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت میں جمہوری نظام مستحکم ہو گیا۔ آئین بن گیا۔ جمہوری روایات اور قانون نے جڑیں پکڑ لیں۔ ہرچند آج کا بھارت ‘ پنڈت جی کی قد آور شخصیت سے محروم ہے؛ تاہم اس شخصیت کے اثرات کافی حد تک موجود ہیں‘ جیسے عدلیہ کی طاقت‘ الیکشن کمیشن کی طاقت‘ پارلیمنٹ کی طاقت۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مالی کرپشن کا بھی کافی زور آیا۔ اس کے ساتھ ہی قانون بھی حرکت میں آتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کانگرس کے اپنے ہی دور میں جب کرپشن ہو رہی تھی‘ تو قانونی کارروائیاں بھی جاری تھیں اور بعض وزیراور وزرائے اعلیٰ بھی اسی دور میں جیلوں کے اندر گئے۔ گویا بے خوف ہو کر کھلی کرپشن کی آزادی‘ بھارت میں آج تک کسی کو نصیب نہیں ۔ ہر وقت قانون کے شکنجے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
پاکستان میں مضبوط سیاسی قیادت صرف بھٹو صاحب کے زمانے میں میسر آئی۔ لیکن پنڈت جی کی نسبت ‘ان کے پاس باقی کچھ بھی نہیں تھا۔ تربیت یافتہ کارکنوں سے مالامال سیاسی جماعت تھی اور وہاں کے سیاسی کلچر میں کارکن بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں یہ روایت سرے سے
موجود ہی نہیں تھی۔ جب اقتدار پر غیرجمہوری قوتوں نے قبضہ کیا تو ان کی مزاحمت کرنے کے لئے تربیت یافتہ سیاسی کارکنوں کا وجود ہی نہیں تھا۔ آمریت نے آتے ہی ہر چیز پر قبضہ کر لیا۔ بھٹو صاحب بھی اسی کے اندر سے نکل کر ایوان کی طرف گئے تھے اور جیسے ہی عوامی طاقت سے انہیں اقتدار ملا اور انہوں نے عوام کے حق میں تبدیلیاں کیں‘ تمام ریاستی طاقتیں منظم ہو کرانہیں بے اثر کرنے پر تل گئیں۔ انہی کی اصلاحات کو ‘ انہی کے دور اقتدار میں بے اثر بلکہ ضرررساں بنا دیا گیا۔ جن اداروں کو قومی ملکیت میں لیا گیا‘ انہیں بیوروکریسی نے اپنی ملکیت بنا لیا اور جہاں کاروباری اور صنعتی آزادی کے فوائد پہنچ رہے تھے‘ افسر شاہی نے قبضہ جما کر‘ وہاں بھی لوٹ مار کی راہیں نکال لیں۔ میں ان المناک تجربات کو اس لئے دہرا رہا ہوں کہ پاکستان اس وقت انتہائی بحران کی انتہائی حالت میں ہے۔ تمام قوتیں عمران کو شکست دینے پر کمربستہ ہیں۔ یہ قوتیں ان کی پارٹی کے اندر بھی گھس گئی ہیں‘ جس کی تباہ کن مثال جوڈیشل انکوائری کا سمجھوتہ ہے‘ جس پر ان کی ٹیم کے سینئر ساتھیوں نے دستخط کر دیئے۔ قارئین کو یاد ہو گا‘ میں نے اسی وقت ایک کالم میں اس جال کا سرا نکال کرعوام کے سامنے رکھ دیا تھا‘ جس میں پھنس کر عمران خان کسی عدالت میں بھی نہیں جیت سکتے تھے اور وہی ہوا۔ جوڈیشل کمیشن کو جو ٹرمز آف ریفرنس دی گئیں‘ وہ قدم قدم پر عمران کے وکلا کو بے بس کر رہی تھیں۔ جناب عبدالحفیظ پیرزادہ جس حالت سے دوچار ہوئے‘ اس پر مجھے انتہائی افسوس ہو رہا ہے بلکہ دکھ بھی ہوا کہ پاکستانی آئین کا خالق کیسے حالات میں ‘ کتنی بے بسی کا شکار ہوا؟معزز جج صاحبان بے بس تھے کیونکہ جو ٹرمز آف ریفرنس ‘ عمران کے ساتھیوں نے قبول کر لی تھیں‘ ان کے اندر نہ جج صاحبان کے پاس انصاف کرنے کی گنجائش تھی اور نہ پیرزادہ صاحب کچھ کر پا رہے تھے۔ اصطلاحات کا ایسا گورکھ دھندہ بنایا گیا تھا‘ جس کے اندر انتخابات میں دھاندلی ثابت کرنا ممکن ہی نہ رہا۔ منظم دھاندلی کی اصطلاح پر ہی یہ مقدمہ 20 سال چل سکتا تھا۔ پیرزادہ صاحب نے ایسا مقدمہ کیوں قبول کیا؟ اس کا مجھے رنج ہے۔ عمران معاشرے میں جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں‘ وہ اپنی موجودہ ٹیم کے ساتھ نہیں لا سکتے۔ اب بھی وقت ہے کہ مقبولیت کے میدان میں کوئی ان کا ہمسر نہیں۔ فوری الیکشن عمران کے لئے ایک نئے جال کے مترادف ہو گا۔ عمران کو چاہیے کہ وہ سارے سیاسی پھندے‘ جو اُنہیں پھنسانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں‘ ابھی سے توڑ کر پھینک دیں۔ عوامی رابطے وسیع اور مسلسل کر دیں۔ نوجوانوں کے دستے منظم اور متحرک کریں۔ اپنے تمام ورکروں کو سماجی خدمت کے کام میں لگا کر‘ انہیں عوام کی عزت اور خدمت کرنے کی تربیت دیں۔ ان کے پاس پڑھے لکھے ساتھیوں کی ایک اچھی ٹیم ہے‘ جو بڑے جذبے کے ساتھ رضاکاروں کی تربیت کر سکتے ہیں۔ اس وقت قوم کا ہر بوڑھا بچہ راستہ ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ راستہ صرف عمران کے پاس ہے۔ اگر وہ بھی کچھ نہ کر سکا تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔ کیونکہ باقی جتنا کچرا ‘ حکمرانی کے کھیل پر چھایا ہوا ہے‘ اس میں سے عوام کو تعفن اور امراض کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔