حکیم صاحب سے میرا نیاز مندی کا رشتہ1966ء میں استوار ہوا جب میں ''اخبار جہاں‘‘ نکالنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ اس کے بعد آخری دم تک یہ ر شتہ قائم رہا۔ وقت کے ساتھ میرے دل میں حکیم صاحب کے لیے عزت واحترام کے جذبات بڑھتے چلے گئے۔ ان کے دل میں محبت کے سمندر موجزن تھے ۔وہ ہر انسان کے دکھ ،درد اور خوشیوں میں‘ اپنوں کی طرح شریک ہوتے ۔ان سے خصوصی ملاقاتیں بہت کم رہیں لیکن مختلف محفلوں میں یاد ورانِ سفر اچانک ملاقات ہو تی اور وہ حسب روایت اپنی شفقت اور محبت سے نوازتے۔ 17کتوبر کو منصور ناجی کا ولیمہ تھا۔ میں نے دیگر دوستوں اور کرم فرمائوں کی طرح‘ حکیم صاحب کی خدمت میں بھی دعوت نامہ ارسال کیا جس کے جواب میں انہوں نے 24ستمبر کے دن میرے بیٹے اور بیٹی کوان الفاظ میں اپنی دعائوں سے نوازا:
''آپ نے اپنی مسرتوں کے لمحات صادقہ میں مجھے یاد رکھا۔ میں اس کیلئے سراپا شکرگزار ہوں۔
عزیز منصور ناجی کی تقریب ولیمہ پر آپکو دلی مبارکباد دیتا ہوں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ دولہا و دلہن کوہمیشہ صحت مند اور خوش و خرم رکھیں اور ان کا قبال بلند تر ہو۔‘‘
بہ احتراماتِ فراواں
آپکا مخلص
حکیم محمد سعید
اس عظیم شخصیت کی یاد میں سید علی بخاری کا ایک مختصر سا مضمون حکیم صاحب کی نذر کر رہا ہوں‘ جو ان کی شہادت پر لکھا گیا۔اسی کو میرا نذرانہ عقیدت سمجھا جائے۔سید علی بخاری لکھتے ہیں۔
''17اکتوبر1998ء کی صبح کراچی کی شاہراہ پر وہ اُجلا سفید لباس سرخ خون سے تربتر تھا اور پاکستان کے مردوزن اور نونہال خلائوں کو گھورتے ہی رہ گئے۔ انہیں دہکتی دھوپ سے بچانے والا سائبان زمین کی گہرائیوں میں جا رہا تھا ۔سفاک قاتلوں نے آدمیوں کی بھیڑ میں موجود اس ملک کے ہمدرد دوست حکیم محمدسعید کو خون میں نہلا کر ہم سے چھین لیا۔انسانی تاریخ میں چند ہی ایسے لوگ آتے ہیں ‘جو اپنے افکار و کردار کے سبب خود تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ان میں سے ایک شہید حکیم محمد سعید ‘جنہوں نے نہ صرف طب میں نام کمایا بلکہ علم و ادب میں بھی اُن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں ۔حکیم صاحب نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جو سراسر مذہبی تھا ۔حضرت خواجہ باقی باللہ دہلی کے ایک نہایت ہی بزرگ اللہ اور خدا کے محبوب ولی تھے ۔دہلی کے ایک بڑے بزرگ حضرت خواندمی ان کے سلسلے کے تھے ۔آپ کے والد اُن کے مرید تھے ،اس لیے آپ کی تعلیم بھی اسی انداز سے ہوئی۔ سب سے پہلے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی ۔7سال کی عمر میں پہلا حج بیت اللہ کیا۔8سال کی عمر میں پورا قرآن حفظ کر لیا۔کم عمری میں ایک افسانہ بعنوان''تسبیح‘‘چھپا تھا۔آپ اس حوالے سے فرماتے تھے کہ افسانہ تو چھپ گیا مگر تسبیح ہاتھ آگئی۔حکیم صاحب چھوٹے بڑے‘عہدوں اور عمروں کا لحاظ رکھے بغیر ‘ہر شخص سے بڑے خلوص اور شفقت سے ملتے تھے۔حکیم صاحب کی خوبصورت شخصیت میں بڑا تنوع تھا۔ ان کی من موہنی ذات کے بڑے ہی گوشے اور بڑی ہی جہات تھیں۔ ان کی شخصیت کا ایک پہلو ان کا لطیف مزاح تھا ‘جس میں خفیف سی چھیڑ چھاڑ کا جانفزا رنگ بھی نمایاں ہوتا۔1988ء میں ایک بزم کے موقع پر راقم کی اہلیہ نے جب پہلی بار نیاز مندی کا شرف حاصل کیا توفرمانے لگے کہ آپ بخاری صاحب کی بیگم ہیں ؟کیا آپ وا قعی ان کی بیگم ہیں !ارے بھئی وہ توکہتے ہیں کہ ابھی میری شادی بھی نہیں ہوئی۔پھر اسی لمحے فرماتے ہیںکہ بیٹی میں تو مذاق کر رہا تھا۔
آپ کسی بھی تقریب میں مدعو کیے جاتے تو وہاں موجود ماحول کے معیار اور عنوان کی مطابقت سے اپنے الفاظ کا انتخاب کرتے تھے۔ایک بار محترم طاہر یوسف نے علمی تقریب رکھی اور اُس کے ساتھ ایک عشائیہ کا بھی اہتمام تھا۔ مقررین کی لمبی لمبی تقاریر میں کافی وقت گذر گیا اور حاضرین میں ایک بے چینی کی کیفیت دکھائی دی۔ اختتام پر حکیم صاحب کو صدارتی کلمات ادا کرنا تھے تو حکیم صاحب نے وقت کی نزاکت کو مدِنظر رکھتے ہوئے فکاہت ولطافت میں فرمایاکہ آج میں بھی دو تقاریر کروں گا۔ ایک لمبی ایک چھوٹی تقریر ،چھوٹی یہ کہ شکریہ اور بڑی یہ کہ بہت بہت شکریہ۔
1978ء میں شاہ فیصل نے مکتہ المکرمہ میں ایک عالمی تعلیمی کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں دنیا بھر سے ماہرین تعلیم جمع ہوئے۔ ان میں حکیم صاحب کو بھی مدعو کیا گیا ۔حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ تمام دن ہم سب کانفرنس میں مصروف رہتے جب کہ میں عشاء کے وقت خانہ کعبہ پہنچ جایا کرتا تھا۔ ساری رات وہاں رہتا تھا‘ طواف کرتا تھا‘ سعی کرتا تھا ۔ فجر ادا کر کے ہوٹل واپس آ جایا کرتا۔ پانچ راتیں میں بالکل جاگتا رہا اور دن بھر کام کرتارہا ۔آپ کا قول ہے :''انسان سونے کے لیے دنیا میں نہیں آیا ہے۔‘‘
وہ فرماتے ہیں: ایک رات طواف کر کے مقام ابراہیم پر بیٹھا تھا ۔یہ وہ جگہ ہے جہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہو کر کعبہ کی تعمیرِ نو کی تھی۔وہاں بیٹھ کر غور کرتا ،سوچتا اور فکر کرتا رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ تہجد کے وقت خیال آیا کہ مجھے تعلیم کے میدان میں کچھ کام کرنا چاہیے ۔وہاں بیٹھ کر ایک منصوبہ تیار کیا۔ آج نونہالوں کے لیے تعلیم کا مرکز ہمدرد ویلج اسکول ‘ہمدردپبلک اسکول‘ نوجوانوں کے لیے کالجز،ہمدردیونیورسٹی ہیں۔ ہمدرد یونیورسٹی کے تحت 'ہمدرد انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی‘،'ہمدرد کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری‘،'ہمدرد المجید کالج آف ایسٹرن میڈیسن ‘، 'ہمدرد انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز‘،'ہمدرد انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ سوشل سائنسز‘ ، 'ہمدرداسکول آف لاء‘،'ڈاکٹر حافظ محمد الیاس انسٹیٹیوٹ آف انوائر مینٹل سائنسز‘،'فیکلٹی آف انجینئرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی‘،'فیکلٹی آف فارمیسی‘جیسی فیکلٹیز کام کر رہی ہیں ۔بیت الحکمہ میں اس وقت پانچ لاکھ سے زائد کتب مختلف موضوعات پر ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں رسائل و جرائد موجود ہیں۔ حکیم صاحب کو ایک افسوس تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ پاکستان میں علم و حکمت سے لگائو کم ہے اور پاکستان کے دولت مند اپنی دولت علم و حکمت پر کم ہی خرچ کرتے ہیں۔
حکیم صاحب فرماتے تھے کہ میں ''ایک ناشتہ اور ایک کھانا‘‘کا قائل ہوں اور میں تم سے اور پوری قوم سے کہتا ہوں کہ نبی اکرم ﷺ کی ہدایت کے مطابق صبح اچھا ناشتہ کرو تاکہ دل لگا کر کام کر سکو اورمغرب کے بعد کھانا کھا لو۔یہ غذا تمہاری حقیقی جسمانی ضرورت کیلئے کافی ہے ۔حدیث نبوی اور سائنس بھی اس کی تائید کرتے ہیں ۔حکیم صاحب فرماتے تھے کہ میری اچھی صحت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ میں نے کبھی چائے کا مزاتک نہیں چکھا۔سگریٹ کبھی نہیں پیا اور شراب جیسی منحوس چیز کے قریب نہیں گیا ۔
حکیم صاحب نے فرمایا کہ محبت جب اپنی بلندیوں کو چھوتی ہے تو پھر اس کے جلوے بھی ایک شان رکھتے ہیں اور جب نونہالوں سے محبت بے کراں ہوتی ہے تو انسان کو ہر بچے سے محبت ہو جاتی ہے۔ ایسے بلند انسان کو ہر بچہ اپنا بچہ نظر آنے لگتا ہے اور یہ محبت کی عظمت ہے۔ ایسے انسان وہ ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بھی مہربان ہوجاتا ہے ۔ا س محبت کو جب میں نے محسوس کیا تو مجھے بچوں کیلئے بزم ہمدردنونہال شروع کرنے کا خیال آیا۔یہ ایک پلیٹ فارم اور فورم ہے جو اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے جس کے ذریعے نونہال اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کر رہے ہیں اور حکیم صاحب کی اپنی خواہش تھی کہ ان نونہالوں اور نوجوانوں کو عزم، حوصلے، خود اعتمادی اور خود داری کے جذبہ سے مزیّن کیا جائے‘ ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کر دیا جائے۔ آخر نونہالوں کو ہی جوان ہو کر قوم کی باگ ڈور سنبھالنا ہے ۔
بچوں سے محبت کا عالم یہ تھا کہ اکثر دیکھنے میں آیا کہ بزم ہمدرد نونہال اسمبلی کے دوران تمام کرسیاں بھر گئیں ‘تو صف اول کی کرسیوں کے آگے اسٹیج کے نیچے بچوں کے لیے چادریں بچھا دی جاتیں اور بچے بیٹھ جایا کرتے ۔اس موقع پر حکیم صاحب اپنی اسٹیج والی کرسی چھوڑ دیا کرتے اور خود بچوں کے درمیان تشریف لے آتے ۔حکیم صاحب کا مقصد یہ ہوتا کہ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بچوں کی وجہ سے فرش پر بیٹھے ہوئے بچے احساس کمتری کا شکار نہ ہو جائیںیا کہیں ان کی دل آزاری نہ ہو۔‘‘
جس شہر کو حکیم صاحب علم و ادب‘ سائنس اور تہذیب کا گہوارہ بنانے کے لئے جیئے‘ اسی شہر میں انہیں گولیاں مار کے شہید کر دیا گیا۔وزیراعظم نوازشریف جانتے ہیں کہ ان کے قاتل کون ہیں؟ وہ اپنی خواہش کے باوجود ابھی تک حکیم صاحب کے قاتلوں کو قانون کی گرفت میں نہیں لے سکے۔ یہ ہے ہمارا نظام انصاف۔یہ المیہ ہے کہ ان کے قاتل آج تک نہیں پکڑے جا سکے۔ اکیلے میں وہ شرماتے تو ہوں گے۔