"NNC" (space) message & send to 7575

اپنی مثال آپ

مدت کے بعد پاکستانی اور بھارتی میڈیا ‘تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ہی طرز پر کام کر رہا ہے۔ نہ جانے کہاں سے ان دونوں کو انصاف کی ہوا لگ گئی؟ ایک زمانہ تھا جب ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا تھا۔ بھارتی میڈیا میں حکومتی پراپیگنڈہ تو خوب کیا جاتا لیکن اپوزیشن کو وقت دینے میں بنیئے کی روایتی کنجوسی کا مظاہرہ ہوتا۔اس کے برعکس پاکستانی میڈیا میں اپوزیشن کا نام و نشان نہیں ملتا تھا۔ یہاں صرف حکومت ہوتی۔ اسی کی خبریں ہوتیں۔ اسی کے وزراء کے بیانات ہوتے۔ اسی کے گورنراور وزرائے اعلیٰ کی تقریریں دکھائی دیتیں۔ یوں لگتا کہ پاکستان میں اپوزیشن کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اگر کوئی صحافی بدقسمتی سے‘ اپنے پیشہ ورانہ وقار کا خیال رکھتے ہوئے‘ اپوزیشن کی خبر دے بیٹھتا‘ تو اس کی شامت آجاتی۔ اس کے خلاف دفتری کارروائیاں ہوتیں۔ جواب طلب کئے جاتے۔ سرزنش کی جاتی۔ اس کی قسمت اچھی ہوتی اور کوئی سینئر صحافی اس کا ایڈیٹرہوتا‘ تو جاں بخشی ممکن تھی۔ ورنہ بیروزگاری اس کا مقدر ٹھہرتی۔ نوکری سے نکالنے کے بعد بھی‘ اس کا پیچھا نہیں چھوڑا جاتا تھا۔ جہاں بھی جاتا‘ منحوس سائے اس کا تعاقب کرتے اور جو ادارہ بھی‘ اسے ملازمت دینے لگتا یا دے بیٹھتا‘ اسے پیغام پہنچائے جاتے کہ ''جس شخص کو سرکار عالیہ نے ناپسندیدہ قرار دے کر نکالا ہے اگر آپ نے اسے ملازمت دینے کی حرکت کی‘ تو پھر ہم آپ کو محب وطن شہری تصور نہیں کریں گے۔‘‘ میں بھی ایک عرصے تک اسی پالیسی کا ہدف رہ چکا ہوں۔ میرے بارے میں تو جنرل ضیاالحق نے ایک پریس کانفرنس میں برملا کہا تھا کہ''نذیرناجی اگر باز نہ آیا‘ تو میں اسے درخت سے الٹا لٹکائوں گا۔‘‘ مجھے درخت سے لٹکنے کا اعزاز تو حاصل نہ ہوا۔ لیکن جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں‘ ادھڑے ہوئے فرش کے ناہموار اور نوکیلے ملبے پر شب و روز بسر کرنے کی ''سہولت‘‘ ضرور مرحمت فرمائی گئی۔ کیمپ جیل میںاس ''خاطرداری‘‘ کے بعد جب مجھے کوٹ لکھپت جیل بھیجا گیا‘ تو یوں لگا جیسے تھر کے تپتے ریگستان سے نکل کر ‘ مری کی خوشگوار فضائوں میں آ گیا ہوں۔جبر کے زمانوں میں اہل قلم کو جن آزمائشوں سے گزارا گیا‘ میرے تجربے کی ان کے سامنے کوئی وقعت نہیں۔ 
حاکم وقت کے عتاب کی ایک جھلک نجم سیٹھی بھی دیکھ چکے ہیں۔ مگر کاروباری ذہانت میں‘ وہ اپنے مقابل سے بہت تیز نکلے۔ ایک تولہ پولیس گردی کے بدلے‘ منوں بلکہ ٹنوں عنایات سے‘ فیض یاب ہو رہے ہیں۔ پرانے بادشاہ خلعت اور جاگیریں بخشا کرتے۔ آج کے بادشاہ نے انہیں کرکٹ ہی بخش دی۔ سلطان راہی زندہ ہوتاتو یہ مکالمہ ضرور بولتا ''ساڈی کرکٹ نال ایہہ سلوک نہ کر اوئے جاگیردارا!‘‘بات پاکستان اور بھارت کے سرکاری میڈیا سے شروع ہوئی تھی۔
ماضی میں دونوں ملکوں کے سرکاری میڈیا کا فرق میں کسی حد تک بیان کر چکا ہوں۔ دونوں ملکوں کے موجودہ وزرائے اعظم میں خیرسگالی اور قربت کے جو رجحانات پائے جاتے ہیں‘ ان کا ایک مظاہرہ میڈیا میں بھی ہو رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے سرکاری میڈیا‘ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے یکساں کوریج دے رہے ہیں۔ دونوں ہی جتنا وقت حکومت کو دیتے ہیں‘ اتنا ہی وقت اپوزیشن کو بھی دیا جاتا ہے۔ مودی حکومت ‘ کانگریس کے خلاف تھوڑی بہت ڈنڈی مار جاتی ہے۔ مگر ہمارا سرکاری میڈیا زیادہ ہی انصاف پسند ہے۔ وہ اپوزیشن کے خلاف کبھی ڈنڈی نہیں مارتا۔ یعنی حکومت کو اپوزیشن سے زیادہ وقت نہیں دیتا۔ اس کے برعکس اپوزیشن کو حکومت کے مقابلے میں زیادہ وقت دے دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر عمران خان کے مزے ہیں۔ اگر کسی پاکستانی حکومت نے فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے‘ دوررس نتائج کی حامل پالیسیاں بنانے کی کوئی مثال قائم کی ہوتی‘ تو میں بھی سوچتا کہ سرکاری میڈیا کی پالیسیاں مرتب کرنے والے‘ نفسیاتی حربہ استعمال کر رہے ہوں گے‘ جو فوجی آمروں کے میڈیا مینجر کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے آمر کی یکطرفہ اور یکمشت مدح سرائی کر کے‘ عوام کو اتنا بیزار کر دیا کہ انہوں نے ‘آمر کی رخصت پر بے ساختہ جشن منائے۔ لگتا ہے ‘ موجودہ میڈیامینجرز بھی ‘عمران کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں۔ ٹی وی سکرین پر انہیں اتنی کثرت سے دکھایا جاتا ہے کہ لوگ بیزار ہو جائیں۔ مگر اس میں حکمت یا ہوشیاری کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دیتا۔ مثلاً آمروں کی ہمہ وقت کوریج دیکھ کے‘ عوام کو اس بنا پر ابکائیاں آنے لگتی تھیں کہ ان کی قصیدہ گوئی میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے تھے۔ قلابے ملانے کا ہنر بھی کسی کسی کو آتا ہے۔ مثلاً ٹریک سوٹ پہن کر گالف کھیلنے والے ‘بی جے پی کے‘ شتروگن سنہا کے دوست اور فلم بینی کے شائق جنرل ضیاالحق کو ''مردمومن‘ مردحق‘‘ کا خطاب اس دور کے سرکاری میڈیا نے ہی دیا تھا۔
روایت تو یہ بھی ہے کہ جنرل صاحب ایک استقبالیے میں شرکت کے لئے گئے‘ تو صدر دروازے پر ''مردمومن ‘ مردحق‘‘ کا بینر لگا تھا۔ جنرل صاحب نے دیکھتے ہی ناپسندیدگی کے انداز میں پوچھا ''یہ کس نے لکھوایا ہے؟‘‘ اس وقت کے وزیراطلاعات نے سرجھکاتے ہوئے مودبانہ انداز میں جواب دیا ''سر! یہ ہمارے دل کی آواز ہے۔‘‘ جنرل صاحب کو اس موثر دلیل نے اتنا قائل کیا کہ وہ اپنے اس خطاب پر دل و جان سے فریفتہ ہو گئے۔ شاید وصیت بھی کر گئے ہوں کہ مجھے ہمیشہ اسی خطاب سے یاد کیا جائے۔ اب بھی ان کے چاہنے والوں میں اگر کوئی ہے‘ تو وہ انہیں ''مردمومن مردحق ‘‘ہی لکھتا ہو گا۔ لیکن آمروں کے ہر مردمیڈیا نے ‘اپنے ممدوح کی تعریف اس نیت سے ہرگز نہیں کی ہو گی کہ لوگ اسے دیکھ کر بیزاری اور اکتاہٹ کا شکار ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے یہ اتفاقیہ بات ہو گئی ہو۔ نتیجہ ان کی خواہش کے برعکس برآمد ہوا۔ آج کا سرکاری مردمیڈیا‘ عمران خان کی معاندانہ اور منفی کوریج ‘ہرگز کسی بری نیت سے نہیں کر رہا۔ واقعی وہ‘عمران خان کو ایک برا‘ ناکام‘ جھوٹا‘ اقتدار کا بھوکا اور ایسی ہی دیگر صفات کا مالک ثابت کرنے پر تلا رہتا ہے۔ سرکاری میڈیا مین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے حکمران کو عوام کا پسندیدہ اور محبوب راہنما ثابت کرے اور مخالف لیڈر کو روایتی پنجابی فلم کا ‘ولن بناکر پیش کرتے ہوئے کہے ''اوئے! یہ تمہاری ہڈیاں چبا جائے گا۔‘‘ اگر واقعی ایسا ہوتا‘ تو میں موجودہ سرکاری مردانِ میڈیا کی ذہانت اور مہارت کی داد دیتا۔ روایت یہی ہے۔لیکن موجودہ مردانِ میڈیا تو اس مقصد سے متضاد نتائج کے امیدوار دکھائی دیتے ہیں۔ موجودہ حکومت جو کچھ بھی کر رہی ہے‘ وہ سب کچھ عوام کے سامنے لے آتے ہیں۔ مثلاً جب حکومت عالمی منڈیوں میں تیل کے نرخ گرنے پر پٹرول اور ڈیزل کے ریٹ بڑھاتی ہے‘ تو سرکاری میڈیا اسے یوں پیش کرتا ہے ‘ جیسے یہ کوئی کارنامہ ہو۔ جب عمران خان اس پر تنقید کرتے ہیں‘ تو ان کا موقف بھی دکھا اور سنا دیا جاتا ہے اور اس پر تنقید کی جاتی ہے کہ عمران خان جھوٹا ہے۔ خدا لگتی کہیے کہ دونوں صورتوں میں کس کی حمایت ہوئی اور کس کی مخالفت؟ تیل کے نرخ بڑھنے پر کون وزیراعظم کو دعائیں دے گا؟ اور اس کی مخالفت میں بیان پڑھ سن کر ‘کون عمران کو برا کہے گا؟
بعض اوقات مجھے‘ موجودہ حکومت کی میڈیا ٹیم کی حالت زار پر ترس آتا ہے۔ ہمارے وزیرخزانہ اسحق ڈار ‘ وزیراعظم کے سمدھی ہیں اور وزیرخزانہ بھی۔ اگر انہیں وزیراعظم کی خوش اخلاقی اور نرم گوئی کا دسواں حصہ بھی مل جاتا‘ تو میڈیا ٹیم کا کچھ نہ بگڑتا۔ مگر وہ تو خوش اخلاقی کے قریب سے نہیں گزرے۔ اپنی طرف سے محبت اور عاجزی کا اظہار بھی کرتے ہیں‘ تو سننے اور دیکھنے والے کو یہی لگتا ہے کہ وہ سخت غصے کی حالت میں ہیں۔ حد یہ کہ ان کی مسکراہٹ بھی ڈرائونی لگتی ہے۔ وہ کھل کے مسکرائیں تو لگتا ہے کہ پٹرول مہنگا کرنے والے ہیں اور مسکراہٹ خفیف ہو تو روٹی کی مہنگائی یقینی ہوتی ہے۔ وزیراعظم‘ عوام کو جتنی مراعات چاہیں دے دیں‘ وزیرخزانہ کا کوئی نہ کوئی فیصلہ عوام کے سر پہ آرے چلا دیتا ہے۔ 
کس دن ہمیں بھلایا ہے اسحق ڈار نے؟
''کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کئے؟‘‘
سچی بات ہے‘ سرکاری میڈیا میں عمران خان کی کوریج دیکھ کے‘ کوئی انہیں نوازشریف کا مخالف نہیں کہہ سکتا۔ جب تک اسحق ڈار وزیرخزانہ ہیں‘ کوئی اپوزیشن لیڈر ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔ 
اسحق ڈار آپ ہی اپنی مثال ہیں
ڈار صاحب کی دلخراش مسکراہٹ پر ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جب جام صادق علی سندھ کے وزیراعلیٰ تھے۔ انہیں شک ہوا کہ صدر اسحق ان سے ناراض ہیں۔ ایک دن ملاقات کے لئے ایوان صدر گئے۔ انہوں نے قبل از وقت معافی مانگتے ہوئے ڈرتے ڈرتے پوچھا ''سر! آپ مجھ سے ناراض ہیں؟‘‘ صدر صاحب نے دریافت کیا''تم نے یہ کیوں پوچھا؟‘‘ جام صاحب کا جواب تھا ''سر! ابھی آپ مسکرائے تھے۔‘‘ 
نوٹ: کل کے کالم میں ''حامی‘‘ کو ہل والی ''ہ‘‘سے لکھا دیکھ کر میرے تو سر پہ ہل چل گیا۔جی چاہتا ہے بدلے میں ''ہل ‘‘کو حلوے والی ''ح‘‘ سے لکھ دوں۔معذرت۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں