کہنے کو تو پاکستان قائم ہی جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہوا تھا اور یہاں فوراً ہی جمہوریت نافذ بھی ہو گئی تھی‘ لیکن یہ جمہوریت کیا تھی ؟ اور کیا ہے؟ یہ ہمیں آج تک معلوم نہیں۔ سب سے پہلے جو جمہوری ادارے قائم ہوئے‘ وہ بیرونی آقائوں کے دور میں ہونے والے انتخابات کی تخلیق تھے۔ آزادی سے پہلے کے منتخب افراد نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی بنیاد رکھی۔ اسی نے پارلیمنٹ کی جگہ سنبھال لی۔ پہلا الیکشن مشرقی پاکستان میں صوبائی اسمبلی کے لئے ہوا تھا۔ مرکز کی حکمران جماعت ‘مسلم لیگ کے مخالفین‘ متحدہ محاذ بنا کر بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے۔ صاف بات یہ ہے کہ سوائے ایک رکن کے‘ باقی پوری صوبائی اسمبلی ‘اپوزیشن کے متحدہ محاذ یعنی جگتو فرنٹ کی قائم ہوئی۔ مغربی پاکستان کے حکمران ٹولے کو ‘ مشرقی پاکستانی عوام کا ‘ملک کے سب سے بڑے صوبے میں برسراقتدار آنا‘ پسند نہیں آیا‘ چنانچہ فوراً ہی وہاں گورنر راج نافذ کر کے‘ اسمبلی معطل کر دی گئی۔ یہ تھا ہماری جمہوریت کا پہلا تجربہ۔ مغربی پاکستان کا جو چھوٹا سا ٹولہ‘ پاکستان قائم ہوتے ہی مرکزی حکومت پر مسلط ہو گیا تھا‘ اس نے مشرقی پاکستانی عوام کی جمہوری طاقت کو دیکھ کر یہ خطرہ بھانپ لیا کہ مشرقی بنگال کی آبادی ‘پورے مغربی پاکستان سے زیادہ ہے اور بنگالی سیاسی طور پر متحد ہونے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ جب چاہیں گے‘ پورے پاکستان کی قومی اسمبلی میں اکثریتی نشستیں حاصل کر کے‘ حکومت پر قابض ہو جائیں گے۔ اس تجربے کے بعد سازشوں کے ایک ایسے دور کا آغاز ہوا‘ جو سقوط مشرقی پاکستان تک جاری رہا۔
جگتو فرنٹ کے بعد کی تاریخ ‘ مشرقی اور مغربی پاکستان میں اقتدار کی جنگ کی تاریخ ہے۔ مشرقی پاکستان کا مطلب محنت کش عوام‘ متوسط طبقے کی سیاسی قیادت اور مزدور تحریکیں تھیں‘ جبکہ مغربی پاکستان کی سیاسی طاقت ‘چند بیوروکریٹس‘ چند جنرلوں اور جاگیرداروں کے ہاتھ میں تھی۔ گویا پاکستان قائم ہوتے ہی‘ سیاسی اعتبار سے دو مختلف سماجی نظاموں میں تقسیم تھا۔ آئین سازی کی تاریخ‘ دو صوبوں میں مختلف سیاسی نظریات کی کشمکش کی تاریخ ہے۔ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے‘ عوام دشمن نظریات کے حامل تھے اور مشرقی پاکستان میں متوسط طبقے کی سیاسی قیادت ‘ پاکستان کی قومی اسمبلی میں‘ ہر وقت اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھی۔ بنیادی تضاد یہ پیدا ہوا کہ ملک کی اکثریت کی نمائندہ قیادت ‘جاگیرداری‘ افسر شاہی اور جنرل شاہی کی حکمرانی کو ختم کر کے‘ جمہوری نظام نافذ کرنے کے حق میں تھی اور یہاں کے حکمران طبقے خوفزدہ ہو گئے تھے کہ حقیقی جمہوریت نافذ ہونے کی صورت میں مشرقی پاکستان کی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت ‘ جاگیرداروں اور افسر شاہی کا گٹھ جوڑ ختم کر کے‘ ایسے نظام حکومت کی بنیاد رکھ دے گی‘ جس میں عوام کو بالادستی حاصل ہو جائے گی۔ آخر کار عوام دشمن طبقوں کا یہ گٹھ جوڑ کامیاب ہوا۔ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کر کے‘ حکمران طبقوں نے نہ صرف باقی ماندہ پاکستان پر قبضہ کر لیا بلکہ طاقت پوری طرح سے اپنے ہاتھوں میں سمیٹ لی۔ آج کا پاکستان‘ ظالم اور عوام دشمن طبقوں کے گٹھ جوڑ کے سامنے بے بس رعایا کا پاکستان ہے۔ آج کا پاکستان جسے ذوالفقار علی بھٹو کے زیراقتدار حقیقی جمہوریت کو ختم کرنے کے لئے بچایا گیا تھا‘ اب مکمل طور پر حکمران طبقوں کے قبضے میں جا چکا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو گہرا تاریخی شعور رکھنے کے باوجود‘ اپنے ملک میں جاری تاریخی عمل کا صحیح اندازہ نہ کر سکے‘ جس کا انہوں نے اپنی آخری تحریروں میں بارہا اعتراف کیا ہے۔ بھٹو صاحب سمیت ‘ہم سب کی بدقسمتی تھی کہ اقتدار بھٹو صاحب کو منتقل ہونے کی وجہ سے‘ انہوں نے اپنی پارٹی کے مفادات کو تحفظ دینے کی کوشش کی‘ لیکن وہ خود اپنے صوبے اور پنجاب کے سیاسی رجحانات کو نہ سمجھ سکے۔ ریاست کی طاقت کو اپنی طاقت سمجھ کر‘ انہوں نے اقتدار کو مستحکم کرنا چاہا۔ مگر جن طبقوں کو انہوں نے اپنی طاقت سمجھا تھا‘ وہی درحقیقت ان کے دشمن تھے۔ ان سب نے مل کر ‘بھٹو صاحب کو پہلے عوام سے الگ کیا اور پھر انہیں پھانسی لگا کر‘ پاکستان کے نام نہاد جمہوری عمل سے‘ عوام کو بے دخل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
نام نہاد جمہوریت کے نام پر‘ مختلف سیاسی جماعتوںکے درمیان اقتدار کی باہمی کشمکش کو عوام جمہوریت سمجھتے رہے‘ لیکن حقیقت میں تمام سیاسی جماعتیں ‘ایک ہی طرح کے طبقاتی مفادات رکھتی تھیں۔ ان مفادات کو انہوں نے مختلف فوجی آمریتوں کے ادوار میں مضبوط اور یکجا کیا اور اب سارے حکمران طبقے متحد ہو کر ‘ لوٹ مار پر مشتمل‘ عوام دشمن نظام کو مستحکم کرنے کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ جمہوریت کے پردے میں مختلف ملکوں کے حکمران طبقے‘ عوام کو دکھاوے کی جو آزادیاں مہیا کرتے ہیں‘ پاکستان میں ان نام نہاد آزادیوں کی گنجائش نہیں چھوڑی جا رہی۔ 2013ء کے عام انتخابات میں روایتی حکمران طبقوں نے گٹھ جوڑ کر کے‘ نظام مملکت پوری طرح سے اپنے ہاتھوں میں سمیٹ لیا تھا۔ اس دوران ایک غیرروایتی سیاستدان میدان میں کودا اور عوامی تائید و حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ عمران خان تھا۔ گزشتہ اڑھائی سال کا عرصہ‘ عمران خان کے پیچھے اکٹھی ہونے والی عوامی طاقت کو منتشر اور بے حوصلہ کرنے میں صرف ہوا۔ حالیہ ضمنی اور موجودہ بلدیاتی انتخابات‘ عمران خان کو حکمران کلب میں شامل کرنے کے اقدامات ہیں۔ خیبرپختونخوا کی حکومت ‘عمران خان کے سپرد کرنے کا فیصلہ اسی عمل کا حصہ ہے۔ عمران خان خود بھی تاریخی عمل کے اسرار و رموز کی آگہی نہیں رکھتے۔ وہ ذاتی مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ جس طریقے سے ان کی پارٹی منظم ہو رہی ہے اور جو عناصر ‘ عمران خان کی پارٹی کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں‘ آنے والے انتخابات تک ‘وہ عمران خان کی پارٹی کو بھی حکمران کلب کے قریب کر چکے ہوں گے۔ چوہدری سرور کا یہی کام ہے۔
موجودہ نام نہاد بلدیاتی انتخابات ‘ عوام کے ساتھ ظالمانہ مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ پرویزمشرف نے مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کرا کے‘ کوشش کی تھی کہ کسی طرح عوام کو امور مملکت میں شرکت کا احساس دلایا جائے۔ وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ حکمران کلب کے سارے اراکین مشرف کی اپنی پارٹی سمیت‘ باہمی مفادات کے تحفظ کے لئے یکجا ہو چکے تھے‘ جس کا مظاہرہ ہم نے عمران خان کے طویل دھرنے کے دوران دیکھا۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی جو بظاہر حریف دکھائی دے رہی تھیں‘ آزمائش کے موقع پر‘ ایک دوسرے کی اتحادی بن گئیں۔ پاکستان کی کسی پارلیمنٹ میں ایسا مثالی اتحاد کبھی دیکھنے میں نہیں آیا‘ جو حکمران طبقوں نے ‘ عمران کی قیادت میں‘ ابھرتے ہوئے عوامی دبائو کو روکنے کے لئے کیا۔اب ہم جمہوریت کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ نام نہاد جمہوریت کے اندر عوامی شرکت کا ڈھکوسلایعنی بلدیاتی نظام‘ جسے انگریز نے بھی ختم نہیں کیا تھا‘ موجودہ حکمران طبقے اس کا بھی خاتمہ کرنے کے آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہمارے حکمران طبقوں اور عالمی سامراج میں ‘ جو برائے نام دوریاں پیدا ہو رہی تھیں‘ انہیں ختم کرنے کا سلسلہ اب شروع ہو چکا ہے۔
عالمی سطح پر نئی طاقتوں کے گٹھ جوڑ سے‘ جو نیا عالمی سامراج تشکیل پذیر ہے‘ پاکستان کے حکمران طبقے‘ اس کا حصہ بننے کے لئے بے چین ہیں۔ نیا عالمی سامراج بھی پاکستان کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار ہے‘ جس کی وجہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے۔ پاکستان اور بھارت کا تاریخی تضاد ‘ ابھرتے ہوئے نئے عالمی سامراج کے پیر کا کانٹا بن سکتا ہے‘ لیکن پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقوں کو ‘ایک دوسرے کے قریب کر کے‘ اس کانٹے کو غیرموثر کر دیا جائے گا۔ مقامی سطح پر اس کی چبھن محدود ہو جائے گی اورجو وسیع تر سامراجی اتحاد معرض وجود میں آنے والا ہے‘ وہ برصغیر کے دونوں ایٹمی حریفوں کو ‘ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے طور طریقے سکھا دے گا۔ سکھانے کا یہ عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ پرانے سامراج کے بڑے بڑے ستون‘ غیرمتعلق ہو کر رہ جائیں گے اور نئے سامراج کے نئے ستون‘ اپنی جگہ بنا لیں گے۔ ان میں ‘ امریکہ‘ روس اور چین تو یقینا مرکزی ستون ہوں گے‘نئے سامراجی ڈھانچے کو‘ سہارا دینے کے لئے پورا برصغیر‘ مرکزی تو نہیں لیکن اضافی ستون بننے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک بات قابل غور ہے کہ نئے ستونوں میں جمہوریت اور شہری آزادیوں کے لئے حالات سازگار نہیں ہوں گے۔ روس اور چین دونوں کھلی شہری آزادیوں پر یقین نہیں رکھتے۔ ہمارے حکمران طبقے بھی ان دونوں کے قریب ہیں۔ بھارت کی داخلی صورتحال اسے کھلی شہری آزادیوں کی مخالف سمت میں لے جا رہی ہے۔ شہری آزادیوں کے ہمارے خواب بھی ادھورے ہی رہ جائیں گے۔ یوں لگتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی بھی شہری آزادیوں کو بے لگام چھوڑنے کے طریقوں میں بدلائو لائیں گے۔