وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر امور خارجہ نے‘ جو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کی میزبانی میں پیش پیش ہیں‘ دلچسپ بات یہ کی ''یہ کہنا بھی قبل از وقت ہو گا کہ جامع مذاکرات کس طریقے سے اور کن معاملات پر شروع ہو سکتے ہیں؟‘‘۔ یہی وہ سوال ہے جو جنوبی ایشیا کے خطے میں پچھلے 70 سال سے حل طلب چلا آرہا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کے معاملات اس بری طرح سے الجھے ہوئے ہیں کہ سینکڑوں مذاکرات اور تین جنگوں سے گزرنے کے بعد بھی‘ یہ آج بھی وہیں کھڑے ہیں‘ جہاں سے انہوں نے بطور دو آزاد ممالک اپنی زندگی شروع کی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان دونوں کے جتنے بھی مسائل تھے‘ ان میں سے باہمی مذاکرات کے ذریعے یہ کسی ایک کو بھی حل کر سکے ہوں۔ رن کچھ ایک ایسا ہی مسئلہ تھا‘ جو ابتدائی دور میں حل کر لیا گیا لیکن وہ بھی ایک تیسرے ملک کی مداخلت سے۔ یہ دونوں ملک اس تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ امن سے رہنے کا راستہ ڈھونڈ سکتے تھے۔ رن کچھ کے بعد‘ ان دونوں ملکوں نے کیا سیکھا؟ 65ء کی جنگ چھیڑ بیٹھے۔ جب رن کچھ کا معرکہ ہوا تو بھارتی وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کو یاد رکھنا چاہئے ''اگلی جنگ ہوئی تو محاذ کا انتخاب ہم خود کریں گے‘‘۔ یاد رہے رن کچھ کا معرکہ مارچ 1965ء میں ہوا تھا‘ اور سال ختم ہونے سے پہلے‘ اسی سال ستمبر میں پاک بھارت جنگ شروع ہو گئی۔ اس کی ابتدا چھمب جوڑیاں کے علاقے میں پاک فوج کی پیش قدمی سے ہوئی تھی۔ ہماری حکومت نے یہ سوچ کر کشمیر کے اس علاقے میں فوج کشی کی کہ ہم مقبوضہ کشمیر کے بڑے حصے پر قبضہ کر کے‘ تنازع کشمیر حل کر لیں گے۔ کسی کے ذہن میں بھی یہ بات نہ آئی کہ اس حملے کے نتیجے میں بھارت‘ پاکستان میں جوابی کارروائی بھی کر سکتا ہے‘ حالانکہ بھارت اس کی وارننگ دے چکا تھا۔ ایوب خان کی حکومت نے اس وارننگ پر سوچا تک نہیں تھا۔ بھارت نے جو کہا تھا‘ وہ کر ڈالا۔ اس نے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کر دیا اور بعد میں جو کچھ ہوا‘ وہ ایک دردناک کہانی ہے کیونکہ جس کشمیر کو لینے کی خاطر‘ ہم نے فوج کشی کی تھی‘ اس جنگ کا اختتام‘ پاکستان کی اس یقین دہانی پر ہوا کہ ہم‘ تنازع کشمیر کو جنگ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ دوسری جنگ‘ مشرقی پاکستان میں ہوئی‘ جس کے نتیجے میں اپنے ملک کی اکثریتی آبادی والا علاقہ‘ بھارت کے حوالے کر کے‘ ہم نے شملہ میں جا کر وعدہ کر لیا کہ تنازع کشمیر کا حل ڈھونڈنے‘ کسی انٹرنیشنل فورم میں نہیں جائیں گے‘ ہمارا یہ دو طرفہ معاملہ ہے‘ ہم اسے آپس میں ہی حل کریں گے۔ اتنا بڑا سانحہ گزر جانے کے بعد‘ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اب یہ تنازع جنگ سے حل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں بات چیت کے ذریعے ہی اس کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔
میں لکھتے لکھتے بُور ہو چکا ہوں کہ شملہ معاہدے کے بعد‘ ہمارے ایک جنرل پرویز مشرف نے ازخود پہل کر کے‘ تنازع کشمیر‘ جنگ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہو ں نے کارگل پر حملہ کر کے‘ یہ عجیب و غریب مقصد حاصل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا کہ ''ہم سری نگر سے کارگل جانے والی سڑک کو بند کر کے‘ بھارت کو کشمیر سے پسپائی پر مجبور کر دیں گے‘‘۔ جن لوگوں نے کشمیر کو برسر زمین یا نقشے میں دیکھا ہے‘ ان سب کو آج تک سمجھ نہیں آرہی کہ کارگل کی خالی چوٹیوں پر حملہ کر کے‘ ہم کشمیر کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ یہی سوال اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے پوچھا تھا کہ سری نگر سے سیاچن گلیشیئر تک جانے والی وہ سڑک کہاں سے گزرتی ہے‘ جس پر ہم کارگل کے پہاڑوں کو پار کر کے‘ سیاچن پر قبضہ کر سکتے تھے۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں جو کچھ ہونا تھا‘ اس سے زیادہ برا ہو گیا اور اقتدار پر قبضے کے بعد‘ سارے سیاسی اور زمینی حقائق سمجھ کر جنرل مشرف‘ آگرہ تشریف لے گئے‘ اور جو کچھ وہاں جا کر وہ ماننے کو تیار ہو گئے تھے‘ اس پر بھارتی رہنما بھی حیرت میں ڈوب گئے۔ یاد رہے جنرل مشرف نے پیش کش کر دی تھی کہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کو ہی مستقل سرحد تسلیم کر کے‘ ہم معاہدہ کر لیتے ہیں۔ خود جنرل صاحب نے تو یہ بات نہ سوچی لیکن بھارتی لیڈروں نے یقیناً سوچ لیا ہو گا کہ یہ شخص جو پیش کش ہمیں کر رہا ہے‘ پاک فوج‘ عوام یا حکومت اسے مان لیں گے؟ ان کا اندازہ بالکل درست تھا۔ انہوں نے جنرل صاحب کو اس پیش کش کے ساتھ‘ جوں کا توں پاکستان واپس بھیج دیا۔ تنازع کشمیر وہیں کا وہیں ہے۔
اب ہم خدا کے فضل و کرم سے ایٹمی طاقت بن چکے ہیں۔ عالمی ماہرین کے مطابق‘ تھوڑے ہی عرصے بعد‘ ہم دنیا کی صف اول کی دو تین طاقتوں کے برابر پہنچ جائیں گے۔ ہماری ایٹمی صلاحیتیں بہت ترقی کر چکی ہیں۔ ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی‘ بھارت سے کہیں بہتر ہے اور تباہ کاری کی صلاحیت میں بھی‘ ہم بھارت سے بہت آگے نکل چکے ہیں‘ لیکن یہ طاقت حاصل کرنے کے بعد‘ ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اس کا استعمال کیسے کریں؟ ہمارے موجودہ وزیر اعظم نواز شریف‘ جو ہر چند غیر معمولی ذہانت کے مالک نہیں اور نہ ہی وہ مستقبل بینی میں مہارت رکھتے ہیں لیکن بعض لوگوں میں زمینی حقائق کو بروقت سمجھ لینے کی خصوصی صلاحیت ہوتی ہے۔ میں نواز شریف کو اسی قسم کے لوگوں میں شمار کرتا ہوں۔ پاکستانی سیاست میں تو انہوں نے اپنے سارے فوجی اور سیاسی حریفوں کو چِت کر کے‘ اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کر کے دکھا دیا ہے۔ وہ پاکستان کے واحد سیاست دان ہیں‘ جنہوں نے راستے سے ہٹنے کی ترکیب استعمال کرتے ہوئے‘ اپنے فوجی مخالف کو‘ نہ صرف چاروں شانے چِت کیا‘ بلکہ پھر سے اقتدار حاصل کر کے‘ جنرل پرویز مشرف کو اپنا قیدی بنا کے رکھ لیا اور یہ کام انہوں نے اپنے سب سے بڑے حریف کے ہاتھوں کرایا‘ لیکن ان کی ظاہری شباہت سے کسی کو اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ غیر معمولی صلاحیتو ں کے مالک ہیں۔
2013ء کی انتخابی مہم میں‘ انہوں نے پہلے سے اعلان کر دیا تھا کہ وہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تو بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنائیں گے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پہل بھی کر دی۔ پاکستان کا سارا میڈیا ہاتھ دھو کے‘ ان کے پیچھے پڑ گیا اور اس وقت کی فوجی قیادت بھی‘ نواز شریف کی سیاسی پہل کو سمجھنے اور اس کے نتائج کا قیاس کرنے میں ناکام رہی۔ میری طرح بہت سے لوگ ایٹمی طاقت ہونے پر‘ کچھ زیادہ ہی بدمست ہو گئے ہیں۔ انہیں وہم ہے کہ ہمارے ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد‘ بھارت ہمارے بتائے ہوئے امن کے راستے پر چلنے کے لئے مجبور ہو جائے گا۔ کاش! ایسا ہوا کرتا۔ ہم سے بہت پہلے‘ دنیا کی متعدد طاقتیں‘ ایٹمی قوت حاصل کر چکی ہیں۔ انہیں اعلیٰ پائے کی ذہین‘ باہمت اور سمجھدار سیاسی قیادتیں ملی ہیں۔ آئزن ہاور‘ جان ایف کینڈی‘ بارک اوباما‘ مارگریٹ تھیچر‘جنرل ڈی گال‘ گوربا چوف‘ مائوزے تنگ اور چو این لائی‘ جیسے اعلیٰ پائے کے رہنما متعدد بحرانوں سے گزرے۔ کئی مرتبہ انہیں انتہائی کشیدگی کے حالات سے گزرنا پڑا۔ ایک بار تو سوویت یونین اور امریکہ‘ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‘ کھڑے ہو گئے تھے لیکن ان میں سے کسی نے بھی‘ بدترین حالات میں‘ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ نہیں کیا۔ تنازع کشمیر تو ان حالات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا‘ جیسے بحرانوں سے یہ لیڈر گزرے۔ سوویت یونین نے متعدد ملکوں پر قبضہ کیا۔ امریکہ کئی جغرافیائی بحرانوں سے گزرا لیکن دوسری جنگ عظیم کو چھوڑ کر‘ (جہاں امریکہ نے پہلے ایٹم بم کا استعمال کیا تھا) کسی بھی ایٹمی ملک کی قیادت نے ایٹمی اسلحے کی طاقت کا استعمال کرنے کی حماقت نہیں کی۔ پاکستان اور بھارت کے موجودہ لیڈروں کو تو مذکورہ عالمی رہنمائوں میں سے کسی کے برابر بھی نہیں سمجھ سکتے۔ جب ان لیڈروں میں سے کسی نے بڑے بڑے بحرانوں میں ایٹمی طاقت کے استعمال کا فیصلہ نہیں کیا‘ تو بھارت اور پاکستان کے پاس کون سی انوکھی طاقت آ گئی ہے‘ جو وہ تنازع کشمیر حل کرنے کے لئے‘ ایٹمی طاقت استعمال کرنے کی حرکت کریں گے؟ پاکستان اور بھارت کے باہمی تنازعات کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں‘ جب کبھی انہیں حل کیا گیا‘ تو وہ مذاکرات کی میز پر ہی ہوں گے۔ دنیا کی ہر جنگ آخرکار اسلحے کا استعمال ترک کرنے پر ہی ختم ہوئی۔ تاریخ کا بہترین سبق یہ ہے کہ ہر جنگ کا نتیجہ‘ ہتھیاروں کا استعمال چھوڑنے پر ہوا۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس
میں پاکستان‘ افغانستان‘ بھارت اور چین بڑے بڑے تنازعات میں فریق ہیں۔ دیگر شرکا کے تنازعے بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں‘ لیکن انڈو چائنا اور پاک بھارت اور افغانستان میں سے کوئی ایک بھی تنازع‘ متعدد ممالک باہمی تعاون سے حل کر سکتے ہیں‘ تو وہ افغانستان ہے۔ باقی جتنے بھی تنازعات ہیں‘ وہ ہند پاک اور ہند چین تنازعات سے زیادہ پیچیدہ نہیں۔ مذاکرات کے ذریعے کوشش کرنے کے سوا‘ کسی کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں۔ بہترین راستہ یہی ہے کہ مذاکرات جتنی مرتبہ ناکام ہوں‘ انہیں پھر سے شروع کر دینا چاہئے۔ کامیابی کے حصول تک‘ ہارٹ آف ایشیا کے شرکا کو‘ اسی راستے پر چل کر‘ امن کی منزل تک پہنچنا ہو گا۔