جو کام ہمارے اہل سیاست کا ہے‘ وہ فوج کر رہی ہے۔ پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ آرمی پبلک سکول پشاور میں ہوا۔ جس کا فوری ردعمل حسب روایت افراتفری تھا۔ منظم سے منظم معاشروں میں بھی‘ اس طرح کے واقعات کا فوری ردعمل جبلّی ہوتا ہے۔ جیسے آنکھوں کی طرف فوری ہاتھ بڑھائیں‘ تو وہ جھپک جاتی ہیں۔ کسی کی طرف مکا بنا کے فوری طور پر مارنے کا ایکشن کریں‘ تو وہ یقینی طور پر پیچھے ہٹ کے یا دائیں بائیں ہوکر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے گا۔عالمی برادری میں سب سے مہذب اور شائستہ معاشرے میں جب دہشت گردی کی گئی‘ تو اس کا اجتماعی جواب دوسری قوموں سے کچھ زیادہ ہی جارحانہ تھا۔ جبکہ روس کے عوام اور لیڈر روایتی طور پر جارحیت پسند ہیں۔ فرانس کے سانحہ پر ردعمل ظاہر کرنے والی دیگر قومیں توفرانس کی اتحادی تھیں لیکن بیچ میں روس کیسے کود پڑا؟ اور زیادہ غم و غصے کے ساتھ کودا۔ یہ روس کی اجتماعی نفسیات کا گہرا مطالعہ اور تجزیہ کرنے کا معاملہ ہے۔ ہمیں ریاستی طور پر دہشت گردی کا نشانہ بنے قریباً 30سال کا عرصہ ہو رہا ہے۔ اگرعلمی طور پر اس کا سراغ لگایا جائے‘تو جڑیںصدیوں پر پھیلی ہیں۔ ہمارے دینی مدرسے‘ جدید طرزتعلیم کے طور طریقوں سے واقف نہیں۔ ان میں بچوں کو جس طرح پڑھایا جاتا ہے‘ اس میں سوال کی گنجائش نہیں ہوتی۔ نیا ذہن جیسے جیسے الفاظ اور ان میں پوشیدہ مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے‘ استاد کی طرف سے اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ بچوں کے سوال پر استاد کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ''پڑھائی پر دھیان دو۔ شیطانی خیالات سے بچو۔‘‘ اس طرح وہ جو کچھ بھی پڑھا رہا ہو‘ شاگرد کو یہ موقع نہیں دیتا کہ وہ اس کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرے۔
بالغ ہونے کے بعد ‘جب وہی بچہ سوال کرنے کی پوزیشن میں آتا ہے‘ تو اس کی جستجو اور تجسّس کی صلاحیتیں کُند ہوچکی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد وہ سوال کرتا ہے‘ تو وہ مدرسے کی روایات کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس طرزتعلیم کے ساتھ ساتھ ‘وہ فقہی تصورات بھی طالب علم کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں اور نصاب کے مزید مطالعہ سے اس کی ذہنی نشوونما ہوتی ہے۔ فقہی مکاتب میں دوسرے فرقوں کو گمراہ اور دین کے حقیقی علم سے نابلد قرار دیا جاتا ہے۔بعض مدرس‘ دین کی روح کو برقرار بھی رکھنا چاہیں‘ تو انہیں فقہی مباحثوں کی روشنی میں ‘ دوسرے مکاتب کو گمراہ قرار دینا پڑتا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے اس کے پاس وسیع دلائل کا سٹاک موجود ہوتا ہے۔ 60ء کے عشرے تک ہمارے دینی مدرسوں میں علم دین کو سمجھنے کا زیادہ رواج تھا اور فکروعمل میں جارحانہ رحجانات میں زیادہ شدت نہیں تھی۔ بین الفقہی مکالمہ زندہ تھا اور علما آپس میں بات چیت کے لئے افہام و تفہیم کو اہمیت دیتے تھے۔ مجھے ان علمائے کرام کی گفتگو سننے کی سعادت حاصل رہی ہے اور میں نے اس تبدیلی کو بھی دیکھا ہے‘ جو شرق اوسط کے ملکوں سے آنے والے اثرات کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ شرق اوسط کے مسلمان ملک‘ اپنی سیاست بھی مذہب کی بنیاد پر کرتے ''تھے‘‘۔ ماضی کا صیغہ میں نے اس لئے استعمال کیا کہ اس وقت تک بین الفقہی مباحثے میں سیاسی سرمائے کا زیادہ عمل دخل نہیں تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف دولت مند ملکوں نے اپنی اپنی فقہ سے تعلق رکھنے والوں کو پیسے دینا شروع کر دیئے۔ دین پس منظر میں چلا گیا۔ پیسہ غالب آ گیا اور پھر سرمایہ کاری کرنے والے ملکوں کے باہمی تنازعات ‘ ہمارے مدرسوں میں بھی جگہ پانے لگے۔ سب سے زیادہ شدت ‘شیعہ سنی فرقوں میں پیدا ہوئی اور پاکستانی معاشرے میں پہلی مرتبہ یہ نعرہ بھی سامنے آ گیا کہ ''شیعہ واجب القتل ہیں‘‘۔ اس نعرے کے اثرات یوں پھیلے کہ ہمارے کئی شہروں اور علاقوں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پرقتل و غارت گری ہونے لگی۔اب یہ طرزفکر وبا کی شکل اختیار کر رہی ہے۔
روس نے افغانستان پر فوج کشی کی‘ تو امریکیوں نے ویتنام کا بدلہ چکانے کے لئے افغانستان کا انتخاب کیا۔ سعودی عرب اس کے زیراثر تھا اور سعودی حکمران جس فرقے سے تعلق رکھتے تھے‘ اس میں جارحیت نمایاں تھی۔ سوویت افواج کے خلاف جنگ کو جہاد قرار دے کر‘ مذہبی رنگ دے دیا گیا۔ کسی علاقے پر قابض باضابطہ افواج سے مقابلہ کرنے کے لئے گوریلا جنگ ایجاد ہوئی تھی۔ جہاد بھی گوریلا جنگ کی طرز پر شروع ہوا اور سوویت افواج کے مقبوضہ علاقوں میں گوریلا حملے کئے جانے لگے۔دونوں طرف سے مقابلے میں سنی تھے۔ لیکن قیادت کرنے والے علمائے کرام نے ‘اس میں بھی فرقہ واریت کی گنجائش نکال لی۔پاکستانی مجاہدین‘ افغان مسلمانوں کو اسلام دشمن قرار دیتے اور افغان علما سعودی پیسے کے بل بوتے پر ‘لڑنے والے جہادیوں کو گمراہ کہتے۔ یہ جنگ آخر کار سیاسی ہو گئی۔روس پسپا ہو گیا اور امریکہ کے حمایت یافتہ مجاہدین کامیاب ہوئے۔ لیکن فتح کے بعد ان کے قبائلی تعصبات ابھر آئے اور پھر خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ عام شہری ‘اس قبائلی خانہ جنگی سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ ملا عمر نے اسلام کا نام لے کر ‘قبائلی طرز کی جنگ میں الجھے ہوئے تمام لیڈروں کو‘ ان کے زیراثر علاقوں سے کھدیڑنا شروع کر دیا۔ ملاعمر جن علاقوں پر قبضہ کرتا‘ وہاں وہ اپنی طرز کا اسلامی نظام نافذ کر دیتا۔ جس میں بہرحال لوگوں کے جان و مال کے تحفظ اور قبائلی طرز کے انصاف کو رائج کر دیا گیا۔ یہ نہ ختم ہونے والی کہانی ابھی تک جاری ہے۔ افغان عوام‘ پرانے سرداروں کی جنگوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ باہر سے پاکستانی طالبان بھی اپنے تعصبات کے ساتھ ان میں شامل ہو گئے۔ شمال سے ازبک اور شرق اوسط کی دیگر ریاستوں کے مذہبی باغی بھی افغان جنگ میں شامل ہونے لگے۔ اس وقت یہ بدنصیب ملک ایک ہمہ جہتی جنگ کا شکار ہے اور حکومت میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ مسلح قبائلی گروہوں پر قابو پا سکے۔ پاکستان‘ جہاں کے مدرسے امن اور سلامتی کی تعلیم دیتے تھے‘ ان میں بیرونی سیاست کی مداخلت آنے سے صورتحال ہی بدل گئی۔ اب بعض مدرسوں میں تشدد اور قتل و غارت گری کی تربیت دی جاتی ہے اور لال مسجد کے طلباوطالبات نے تو پاکستان کی اعلیٰ تربیت یافتہ فوج کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لال مسجد کا مدرسہ تو خیر ختم ہو گیا، لیکن مولوی عبدالعزیزانتہاپسندانہ مذہبی رجحانات پھیلا کر اپنی فوج تیار کر چکا ہے اور اب وہ باقاعدہ خونریزی کی دھمکیاں دینے لگا ہے۔ دوسری طرف شیعہ مخالف گروہ ‘اپنے سرپرستوں کی شہہ پر‘ شیعہ مسلک رکھنے والوں کو جانی و مالی نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں اور یہ شیعہ دشمن گروہ ‘ وقت کے ساتھ ساتھ منظم ہو رہے ہیں اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے منصوبے رکھتے ہیں۔ یہ ہے وہ فضا جس میں پاکستانی معاشرہ انتہاپسندی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
بدنصیبی سے ہمارے اہل سیاست بھی سماج کے علم اور انتظامی علوم سے بیگانہ ہیں۔ وہ سرکاری اداروں کے بل بوتے پر قبائلی طرز کی سیاست کرتے ہیں اور اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ انتخابات میں بھی طاقت کااندھادھند استعمال ہونے لگا ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے سیاسی دھڑے بندی اور طاقت آزمائی ہماری سیاست کا چلن ہے۔ گزشتہ چند سال سے عوامی مقبولیت کا حامل ایک کھلاڑی ‘عمران خان سیاست کے میدان میں اترا۔ قریباً 20برس کی جدوجہد کے بعد‘اس کے حامی سیاسی جماعت میں بدل گئے ۔ جب تک وہ انتخابی میدان میں کسی کے لئے بھی چیلنج نہیں بنا تھا‘ تو بڑی سیاسی جماعتیں اسے خاطر میں نہیں لائیں۔ لیکن جب 2013ء کے انتخابات میں اس کی عوامی مقبولیت‘ ووٹوں میں بدلتی نظر آئی‘ تو حکمران جماعتیں بوکھلا گئیں اور دھاندلی کر کے اسے اصل ووٹوں کی حقیقی طاقت کے مطابق ‘کامیابی سے محروم کر دیا۔ عمران مسلسل‘ پرعزم نوجوان نسل کی بھرپور مدد سے ‘سیاسی طاقت میں بدل رہا ہے۔ اس کے پرجوش حامیوں کو ریاستی اور گلی محلوں کی طاقت سے‘ تشدد کا نشانہ بنا کرپیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ لیکن موجودہ حکمران طبقے‘ عوام سے بہت دور جا چکے ہیں۔ ان کے خلاف ‘عوامی جذبات میں شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں دیکھا گیا کہ عمران کے حامیوں نے حکمران جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے تشدد پر‘ ردعمل کا اظہار شروع کر دیا۔ یہ ابھی ابتدا ہے۔ ریاستی طاقت کے بل بوتے پر انتخابی کامیابیاں حاصل کرنے والوں کے خلاف ‘جذبات میں زیادہ تیزی آ رہی ہے اور اگر طاقت اور ریاستی مشینری کے بل بوتے پر ‘عوام کو دبانے کا سلسلہ جاری رہا‘ توردعمل میں بھی جارحیت آ سکتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ‘ جسے مذہبی انتہاپسندوں نے تشدد کا نشانہ بنا رکھا ہے‘ اقتدار کی سیاست کرنے والوں کے تصادم کی لپیٹ میں آ گیا‘ تو پھر اسے انارکی سے شاید ہی کوئی بچا سکے۔ انارکی کے جحانات ابھی تو زیادہ نہیں۔ لیکن کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی انارکی کے طوفان کو نہیں روک پائے گا۔ سندھ کا حکمران ٹولہ ‘قانونی روایات کو پامال کرتا ہوا عوام پر مسلط ہے۔ اب وہ وفاق سے ٹکرانے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے عوام‘ ناانصافیوں کے خلاف کسی بھی وقت بھڑک سکتے ہیں۔ بلوچستان پہلے ہی مسلح کارروائیوں کی لپیٹ میں ہے اور پنجاب کے گلی محلوں میںانتخابی تصادم کوئی بھی شکل اختیار کر سکتا ہے۔فوج نے دہشت گردی کے جواب میں امن اور محبت کا جو پیغام دیا ہے‘ مجھے نہیں لگتا کہ اقتدار کی سیاست ‘ تعلیم کے طویل مدتی پروگرام کو‘معمول کے حالات میں آگے بڑھنے کا موقع دے۔ ہماری سیاسی قیادت میں وہ دانش و حکمت نہیں پائی جاتی‘ جو اس گیت میں مضمر پیغام کو سمجھ سکے۔
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے