"NNC" (space) message & send to 7575

کیسا اسلامی اتحاد؟

نہ سفارتی رابطے‘ نہ باہمی مشاورت۔ نہ کسی ایجنڈے کی تیاری اور نہ ہی 34 ملکوں کے درمیان دو طرفہ یا ہمہ جہتی رابطے۔ اچانک ایک خبر آئی کہ سعودی عرب کی قیادت میں ایک مسلم بلاک معرض وجود میں آ گیا ہے۔ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا اسلامی فوجی اتحاد ہے‘ جو مذکورہ بالا تمام تکلفات کے بغیر بن گیا۔ پاکستان کے ساتھ تو اور بھی دلچسپ واقعہ ہوا۔ اس اسلامی فوجی اتحاد کی خبر‘ ہمارے ارباب اقتدار کے اعلیٰ ترین حلقوں کے لئے بھی حیرت انگیز تھی۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف‘ جنرل راحیل شریف کے سعودی حکمرانوں سے قریبی رابطے قائم ہو چکے ہیں اور قبائلی روایات پر یقین رکھنے والے سعودی حکمرانوں نے باور کر لیا کہ پاکستان ہمارا قریبی ساتھی ہے‘ لہٰذا وہ ہماری تجویز سے کس طرح اختلاف کر سکتا ہے؟ اگر پاکستان جیسے قریبی دوست سے رسم و رواج کے مطابق بھی اس اتحاد کے بارے میں رائے مانگ لی جاتی یا اپنا پروگرام بتا دیا ہوتا‘ تو اس اتحاد کا قیام پاکستان کے لئے قطعاً تعجب انگیز نہ ہوتا۔ پاکستان پر تو اچانک یہ خبر گری کہ ایک اسلامی فوجی اتحاد معرض وجود میں آچکا ہے اور پاکستان اس کا باقاعدہ رکن ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے مختلف سفارتی عہدیداروں کے لئے بھی یہ خبر اچانک تھی اور انہیں کچھ معلوم نہیں تھا۔ ہمارے ایک سرکاری اہلکار نے اپنی لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ ہمیں تو اس اتحاد کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں۔ وزیر اعظم ہائوس کے ذرائع سے البتہ اس کی تصدیق بھی ہوئی اور کچھ تفصیلات بھی بتائی گئیں‘ جن کا یقیناً باقی 33 اتحادیوں کو کوئی علم نہیں ہو گا کیونکہ مشاورت ہی نہیں ہوئی تھی۔ ہوئی ہوتی تو سیکرٹری خارجہ کو اس کا ضرور پتہ ہوتا۔ یوں لگتا ہے کہ سعودی رائل فیملی کے ساتھ‘ نواز شریف کے گہرے تعلقات کی روشنی میں وزیر اعظم ہائوس سے سعودیوں کے اعتماد کا بھرم رکھا گیا۔ دوستوں میں ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ 17 دسمبر کو وزارت خارجہ کے ترجمان نے کھلی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ''ہاں‘ ہم اس اتحاد کا حصہ ہیں‘‘۔
نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کی طرف سے اس اتحاد میں شمولیت کے اعلان کے باوجود‘ ایک اعلیٰ افسر نے انکشاف کیا کہ ''اس معاملے میں سعودی حکومت سے ہماری کوئی بات نہیں ہوئی‘‘۔ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ‘ اعزاز چوہدری نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم سعودی عرب میں اپنے سفیر سے دریافت کریں گے کہ وہ تلاش کر کے بتائے کہ یہ غلطی کیسے ہو گئی؟‘‘ اگلے دن وزارت خارجہ کے ترجمان نے مختلف پاکستانی افسروں کے متضاد بیانات کو مربوط کرتے ہوئے کہا کہ ''پاکستان کو صرف ابتدائی معلومات ملی ہیں۔ اس کی تفصیل جاننے کے بعد ہم باضابطہ اعلان کریں گے‘‘۔ ایک ممکنہ وضاحت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان واقعی‘ سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے اس فوجی اتحاد سے بے خبر تھا لیکن بعد میں اس نے اپنا بھرم رکھنے کے لئے پوزیشن بدل لی۔ پاکستان اور سعودی عرب‘ انتہائی قریبی دوست ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو بتائے بغیر بھی‘ باہمی معاملات کے بارے میں کوئی بات بھی کر سکتے ہیں۔ اس کا ثبوت بعد کے واقعات ہیں‘ جس میں دونوں ملکوں نے تصدیق کی کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں اس معاملے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے کہ دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ اتحاد کا باقاعدہ اعلان کرنے سے پہلے مشترکہ غور و فکر کیا گیا کہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جائیں؟
یہاں میں ایک اور دلچسپ سچائی بھی بتا دوں کہ ان 34 اسلامی ملکوں کی فہرست کیا ہے؟ ان میں سعودی عرب‘ پاکستان‘ بحرین‘ گیبون‘ گنی‘ آئیوری کوسٹ‘ اردن‘ کویت‘ لبنان‘ لبیا‘ ملائشیا‘ مالدیپ‘ مالی‘ مراکو‘ ماریطانیہ‘ نائجر‘ نائیجیریا‘ فلسطین‘ قطر‘سرالیون‘ صومالیہ‘ سوڈان‘ ٹوگو‘ تیونس‘ ترکی‘ متحدہ عرب امارات‘ بینن اور یمن شامل ہیں۔ اب رکن ممالک میں سے بعض کے اسلامی ہونے کی حقیقت بھی جان لیں۔ بینن میں صرف 17.3 فیصد مسلمان ہیں۔ گیبون میں 26 فیصد عیسائی ہیں اور صرف 12 فیصد سنی مسلمان ہیں۔ آئیوری کوسٹ کی 38.6 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ باقی ملکوں میں بھی دیگر مذاہب کے ماننے والے بڑی تعداد میں ہیں جبکہ دیگر کئی ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت دو چار فیصد زیادہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد اپنی جنگی منصوبہ بندیاں کیسے کرے گا؟ جہاں مسلمانوں کی اکثریت نہیں اور کسی نہ کسی ملک میں غیر مسلم اکثریت کی حکومت ہو گی تو اتحاد کے اجلاسوں میں غیر مسلم نمائندے بھی شریک ہوا کریں گے۔ ان کے نام تو اسلامی فوجی اتحاد کے اراکین کی فہرست میں شامل ہیں لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جہاں مسلمان اقلیتیں ہیں اور حکومتی نمائندے غیر مسلم ہوں گے تو وہ مسلم فوجی اتحاد کی میٹنگوں میں خفیہ معاملات میں کیسے حصہ لیں گے؟ اور اگر انہیں حساس معاملات میں شریک کیا گیا تو رازداری کی ضمانت کیا ہو گی؟ اگر ان ملکوں کو اتحاد کا رکن بنانا ہی تھا تو اس کا نام اسلامی فوجی اتحاد کیوں رکھا گیا؟ کوئی بھی دوسرا نام رکھا جا سکتا تھا۔
یہ خیال آرائی بھی کی جا رہی ہے کہ پاکستان واقعی اس اتحاد میں اپنی رکنیت سے بے خبر ہو اور متعدد بیانات کے بعد دوستوں‘ اتحادیوں اور اپنا بھرم رکھنے کے لئے پاکستان نے یہ پوزیشن لے لی ہو کہ وہ اس اتحاد کا پہلے ہی سے رکن ہے اور سارے رکن ممالک‘ آپس میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے پر صلاح و مشورہ کرتے رہے ہیں۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ممکن ہے پاکستان نے اس مسئلے پر اندرون ملک بحث مباحثہ کرنے میں زیادہ وقت لگا دیا ہو اور اسی دوران اتحاد کے قیام کا اعلان کر دیا گیا ہو۔ ایک قیاس یہ بھی ہے کہ اتحاد میں شمولیت کے لئے فوجی قیادت نے سب کچھ طے کر لیا ہو اور جمہوری حکومت کو بعد میں اس انتظام سے آگاہ کیا گیا ہو۔ اگر یہ قیاس درست ہے تو پھر مزید قیاس آرائیاں بھی ہو سکتی ہیں؟ پاکستانی فوج کے سربراہ‘ امریکہ سمیت اکیلے متعدد ملکوں کے دورے کر کے آئے ہیں۔ وہاں انہوں نے یقیناً مذاکرات کئے ہوں گے۔ کیسے سمجھا جا سکتا ہے کہ 
ان دوروں کے دوران میزبان حکومتوں سے کئے گئے مذاکرات پر‘ جمہوری حکومت کو کس قدر اعتماد میں لیا گیا ہو گا؟ روایتی طور پر پاکستانی فوج اور سعودی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دیرینہ اور گہرے مراسم ہیں۔ پاکستانی فوج کے کچھ دستے بھی سعودی عرب میں متعین ہیں۔ مختلف دارالحکومتوں میں یہ خیال آرائی بھی کی جاتی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو ایٹمی پروگرام کے لئے بھاری مالی امداد دی ہو گی اور بوقت ضرورت خفیہ طور سے‘ اس ایٹمی چھتری کے سائے میں آنے کا بندوبست بھی کر لیا گیا ہو۔ جب ایٹمی دھماکوں کے بعد‘ پاکستان کے وزیر اعظم‘ عرب ملکوں کے دوروں پر گئے۔ ان میں سعودی عرب سرفہرست تھا۔ مجھے اس دورے میں ان کے ساتھ جانے کا موقع ملا۔ سعودی معاشرہ‘ شہری آزادیوں کے معاملے میں بہت سخت گیر ہے۔ وہاں کوئی بھی کمیونٹی جلسے جلوسوں کا حوصلہ نہیں کر سکتی۔ اس سلسلے میں سخت گیری کا یہ حال ہے کہ اگر کسی کمپنی کے 10 ملازمین ایک کاغذ پر دستخط کر کے مشترکہ مطالبہ کر لیں تو انہیں فوری طور پر یونین سازی کے الزام میں برطرف کر کے سعودی عرب سے نکال دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر سعودی عرب کی خوشی قابل دید تھی۔ کسی حکومتی اجازت کے بغیر پاکستانیوں نے جدہ کی ایک کھلی جگہ پر باقاعدہ جلسے کا اعلان کر دیا‘ جس میں سعودیوں اور پاکستانیوں نے جوش و خروش سے شرکت کی اور وہاں وزیر اعظم نواز شریف نے حاضرین سے خطاب بھی کیا۔ اس طرح کے مناظر‘ سعودی عرب میں ممنوع ہیں لیکن یہ سعودی حکمرانوں کی خوشی تھی کہ انہوں نے اپنے تمام قوانین میں نرمی کرتے ہوئے‘ پاکستانی اور سعودی عوام کو کھلا جلسہ کرنے کی کھلے دل سے اجازت دی۔ میرا نہیں خیال کہ اس سے پہلے یا بعد میں سعودی عرب کے اندر کوئی عوامی اجتماع ہوا ہو یا اس میں تقریریں کی گئی ہوں۔ سعودی ارباب اقتدار کی طرف سے فراخدلی کا مظاہرہ‘ ظاہر کر رہا تھا کہ وہ بھی ہمارے ایٹمی طاقت بننے پر بہت خوش ہے۔ یقینی طور پر انہیں بھی پاکستان کی ایٹمی طاقت میں اپنی تقویت کا احساس ہوا ہو گا لیکن پاک فوج اپنی ایٹمی طاقت کے بارے میں بہت حساس ہے۔ وہ کسی کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتی کہ ہمارے ایٹمی اثاثوں میں کوئی دوسرا ملک شریک یا حصے دار ہے۔ اسی گہرے تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے سعودی عرب نے یمن کے خلاف پاکستان سے باضابطہ فوجی مدد مانگی تھی لیکن اس مطالبے پر پاکستانی قوم کے ارادے بھی متزلزل ہو گئے تھے۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے اندر بھی خاصی بحث ہوئی۔ نواز شریف جو کہ سعودی حکمران خاندان سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں‘ کی اپنی پارٹی متذبذب رہی اور آخرکار پاکستانی پارلیمنٹ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ ہم دو مسلمان ملکوں کی باہمی جنگ میں فریق نہیں بن پائیں گے۔ یہ پاک سعودیہ تعلقات کے لئے ایک بڑا جھٹکا تھا لیکن دونوں ملکوں کی قیادتوں نے بہترین ذہنی صلاحیتوں سے کا م لیتے ہوئے‘ ایک دوسرے کو آزمانے سے گریز کیا۔ 34 اسلامی ملکوں کا فوجی اتحاد‘ اس وقت تک مکمل اسلامی فوجی اتحاد نہیں بن پائے گا جب تک اس میں ایران‘ عراق‘ انڈونیشیا اور شام کو شامل نہ کیا جاتا۔ ایران اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کی نوعیت دیکھتے ہوئے اس خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کسی مرحلے پر یہ دونوں ملک‘ باہم متصادم ہو جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں