"NNC" (space) message & send to 7575

’’یہاں غنڈوں کی کمی ہے؟‘‘

سب سے پہلے تو میں یہ عرض کروں گا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں گزشتہ روز جو ہنگامہ برپا ہوا‘ اس پر جناب محمد خان شیرانی کا غیرمعمولی ردعمل کسی بڑے منصوبے کی ناکامی پر جھلاہٹ ہے۔ ہو سکتا ہے اسی جھلاہٹ میں انہوں نے حافظ طاہر اشرفی کے گریبان پر ہاتھ ڈالا ہو۔ کل میں نے اس معاملے کو واقعاتی انداز میں دیکھا۔ بعد میں غور کیا تو میں یہ سوچ کر کانپ گیا کہ خدانخواستہ اسلامی نظریاتی کونسل میں ایجنڈے کی متنازعہ شق پر بحث ہو جاتی اور اپنے منصوبے کے مطابق شیرانی صاحب اس موضوع پر حکومت کو کوئی سفارش کرنے میں کامیاب ہو جاتے‘ تو کتنا بڑا فساد برپا ہونا تھا۔ اس وقت پاکستان اتنے نازک حالات سے گزر رہا ہے کہ فساد پیدا کرنے کی ذرا سی کوشش بھی پورے ملک میں آگ بھڑکا سکتی ہے۔ میں حافظ طاہر اشرفی کو خراج تحسین پیش کروں گا کہ انہوں نے متنازعہ شق سے اپنی لاتعلقی ظاہر کر کے ملک و قوم کو ایک بہت بڑے فساد سے بچا لیا۔ آپ نے ایک حالیہ رپورٹ دیکھی ہو گی جس میں یہ تفصیل بتائی گئی تھی کہ پاکستانی مدرسوں کو کتنی بیرونی امداد‘ کہاں کہاں سے مل رہی ہے۔ ان میں سعودی عرب‘ کویت‘ یو اے ای‘ قطر‘ ترکی اور ایران کے نام نمایاں ہیں اور امداد حاصل کرنے والے مدرسے لاہور‘ شیخوپورہ‘ گوجرانوالہ‘ حافظ آباد‘ جھنگ‘ چنیوٹ‘ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ بھکر‘ میانوالی‘ خوشاب‘ ملتان‘ ساہیوال‘ خانیوال‘ پاک پتن‘ ڈیرہ غازی خان‘ مظفر گڑھ‘ رحیم یار خان اور بہاولپور میں واقع ہیں۔ یہ مدرسے مختلف فرقوں‘ مسالک اور گروہوں کے لئے ان کے اپنے مطلب کی افرادی قوت مہیا کرتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ درحقیقت زیادہ تر شیعہ اور سنی مدرسوں کو ملتا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی اور قوم پرستانہ رجحانات رکھنے والوں کو نوازا جاتا ہے۔ بھیانک حقیقت یہ ہے کہ فرقوں کے نام پر جو مسلح تنظیمیں سرگرم عمل ہیں‘ ان پر فرقہ وارانہ تعصبات کی چھاپ گہری ہے۔ ان میں سے بیشتر کے رشتے بھارت سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان فرقوں اور مسلح تنظیموں کی تعداد کا شمار مشکل ہے۔ ہماری خفیہ ایجنسیاں اور اداروں کے پاس بھی تمام مسلح گروہوں کی فہرستیں موجود نہیں۔ ان میں سب سے زیادہ خطرناک اور سائنسی بنیادوں پر کام کرنے والے وہ گروہ ہیں‘ جو اپنی وارداتوں کے لئے عیسوی کیلنڈر سے کام لیتے ہیں۔ اس کا سراغ یوں ملا کہ وہ عموماً اپنے اہداف کا تعین عیسوی کیلنڈر کے مطابق کرتے ہیں۔ اگر ان گروہوں کی وارداتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ زیادہ تر وہ تاریخیں استعمال کرتے ہیں جو امریکہ اور یورپ کے نزدیک اہمیت رکھتی ہیں۔ مثلاً 2014ء اور 2015ء کے دو برسوں میں بڑے بڑے اہداف کے لئے ایک ہی مہینہ چنا گیا۔ 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور کا ہدف چنا گیا۔ اس میں ہدف کا تعین انتہائی سوچ بچار کے ساتھ‘ سیاسی نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا۔ 2014ء میں دسمبر کی تاریخیں چنی گئیں۔ اس دن کے واقعات میں ٹارگٹ کا انتخاب انتہائی ماہرانہ طریقے سے کیا گیا۔ مذکورہ سکول میں زیادہ تر فوجیوں کے بچے پڑھتے ہیں۔ جس قدر زیادہ بچوں کو نشانہ بنایا جاتا‘ اتنے ہی زیادہ فوجیوں کو گہرا صدمہ پہنچایا جا سکتا تھا۔ اس گروہ کے منصوبہ سازوں نے سوچا ہو گا کہ فوج کے جس کیڈر کے بچے اس سکول میں زیر تعلیم ہیں‘ اس کے گھرانوں میں گہرے زخم لگا کر فوجی افسروں کے حوصلے پست کئے جا سکتے ہیں۔ اس گروہ نے اے پی ایس کے معمولات‘ کلاسوں کے اوقات اور کس وقت میں زیادہ سے زیادہ بچے کس جگہ جمع ہو سکتے تھے؟ اس کا پورا جائزہ لیا تھا۔ انہوں نے بچوں کو پروگرام کے مطابق نشانہ بنایا اور ایسے اندوہناک سانحوں کو جنم دیا‘ جس نے فوج تو کیا‘ پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک اندازہ ان کا غلط نکلا اور وہ یہ کہ پاک فوج اور عوام کا ردعمل ان کے اندازوں اور تخمینوں کے بالکل الٹ نکلا۔ صدمہ پوری قوم کو ہوا۔ زخم ساری قوم کو لگے‘ لیکن جواب وہ تھا جو زخمی ہونے کے بعد شیروں کا ہوتا ہے۔ قوم غضبناک ہو کر دہشت گردوں کے خلاف منظم ہو گئی۔ سیاسی طور پر اس کا فوری جواب آل پارٹیز کانفرنس کی صورت میں سامنے آیا۔ تمام لیڈروں اور سیاسی جماعتوں نے باہمی اختلافات کو نظر انداز کر کے‘ اتفاق رائے سے ٹارگٹ طے کر کے‘ فوج کی قیادت میں جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ اس سانحے سے پہلے دہشت گردوں کے خلاف قوم کبھی اتنی منظم اور پُرعزم نہیں تھی‘ جس کا مظاہرہ دسمبر 2014ء کے بعد دیکھنے میں آیا۔ پاک فوج اور سیاسی برادری نے جس طرح دہشت گردوں کو ڈھو نڈ ڈھونڈ کے نشانے لگائے‘ دہشت گردی کی حالیہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ 
اس سال دسمبر ختم ہونے جا رہا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سال کے آخری چند روز میں دہشت گردی کا کوئی بڑا منصوبہ تیار کیا گیا ہو۔ اس نوجوان گارڈ کو جتنا بھی سلام عقیدت پیش کیا جائے کم ہو گا‘ جس نے اپنی جان پر کھیل کر اصل منصوبہ ناکام کر دیا۔ منصوبہ کچھ یوں بنا تھا کہ خود کش بمبار‘ شناختی کارڈ کے دفتر میں عین اس وقت داخل ہو‘ جب چھت کے نیچے‘ شناختی کارڈ لینے والوں کا بہت بڑا ہجوم جمع ہو۔ بم کی تباہ کاری کی صلاحیت بھی ہجوم کی ساخت کی مناسبت سے رکھی گئی تھی۔ منصوبے میں ظاہر ہے کسی نہ کسی نوعیت کی شرپسندی رکھی گئی ہو گی۔ مگر مطلوبہ تعداد میں جانیں دینے والوں کی کمی سے وہ شدید ردعمل پیدا نہ ہو سکا‘ جو سینکڑوں انسانوں کے ایک ہی وقت میں جانیں دینے کے نتیجے میں ہو سکتا تھا۔ غالباً یہی وہ فضا تھی جو خود کش بمبار نے سینکڑوں جانیں لے کر پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔
اب آتے ہیں اسلامی نظریاتی کونسل کے ایجنڈے کی طرف۔ اس کی پُراسراریت یہ ہے کہ کونسل ہمیشہ قرآن و سنت کی روشنی میں ان سوالوں کے جواب مہیا کرتی ہے‘ جو اس کے سامنے پیش کئے جائیں۔ بنیادی طور پر یہ علمائے دین کا ادارہ ہے‘ جس میں دین اسلام کے قانونی‘ شرعی اور فقہی ماہرین‘ دریافت کئے گئے سوالوں کے جواب تیار کرتے ہیں اور بعض معاملات میں تو باقاعدہ قانون سازی کی تجاویز بھی تیار کرتے ہیں۔ طاہر اشرفی ہرچند اعلیٰ پائے کے عالم دین نہیں‘ لیکن دین کے نام سے سیاست کرنے والوں پر ان کی نگاہیں بہت گہری ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی میٹنگ کے ایجنڈے میں چند ایسے سوالات دیکھ کر طاہر اشرفی کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے ایجنڈے کو دیکھتے ہی سوال اٹھا دیا کہ یہ شقیں کہاں سے آئیں؟ نہ تو یہ سوالات کونسل کے کسی رکن کی طرف سے اٹھائے گئے ہیں نہ حکومت کے کسی محکمے کی طرف سے تجویز آئی ہے‘ نہ کسی بار ایسوسی ایشن نے یہ سوالات اٹھائے ہیں اور نہ ہی علما کی کسی تنظیم نے۔ اس موقع پر طاہر اشرفی نے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پہلے کونسل کو یہ بتایا جائے کہ ایجنڈے میں یہ تجاویز داخل کیسے ہوئیں؟ آپ نے داڑھی میں تنکا والی کہانی تو ضرور سنی ہو گی۔ اسی قسم کا حال جناب شیرانی کا ہوا۔ حقیقت میں یہ سوالات کہیں سے بھی نہیں آئے تھے۔ کونسل کے چیئرمین جناب شیرانی نے ازخود ہی یہ ایجنڈا تیار کر کے کونسل کے سامنے رکھ دیا‘ جس کے وہ ہرگز مجاز نہیں۔ تمام حاضرین کی توجہ ایجنڈے کی اس پُراسرار شق کی طرف مبذول ہو گئی‘ جس کی نشاندہی طاہر اشرفی نے کر دی تھی۔ بحث شروع ہوئی تو اس میں بھی شیرانی صاحب کی حمایت میں کوئی آواز نہ اٹھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ ایجنڈے کے پُراسرار حصے میں شیرانی صاحب کا خفیہ منصوبہ کیا تھا؟ مخصوص قسم کے متعصب اور تنگ نظر مولویوں کے ذہنی اور فکری رجحانات پر نظر رکھنے کے عمل کو مولانا کوثر نیازی مرحوم ''مولویالوجی‘‘ کہا کرتے تھے۔ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی تھی کہ علم اور دین کی آڑ میں جب کوئی مولوی اپنا دائو لگانے کی کوشش کرے‘ تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ''مولویالوجی‘‘ کے ہنر کا کمال ہے۔ طاہر اشرفی ظاہر ہے ''مولویالوجی‘‘ کے ماہر ہیں۔ انہوں نے اصل نشانے کو بھانپ لیا اور جس ایجنڈے میں متنازعہ شق موجود تھی‘ اسے زیر غور ہی نہ آنے دیا‘ لیکن اگر میں ایجنڈے کی مذکورہ شق کے چاروں نکات آپ کی خدمت میں پیش کر دوں تو آپ کو بھی اندازہ ہو جائے گا کہ طاہر اشرفی نے کس فتنے کی نشاندہی کی تھی۔ میں صرف تین بنیادی نکات بیان کروں گا۔ 
الف: قادیانیوں کی موجودہ حیثیت کیا ہے؟
ب: قادیانی مرتد ہیں‘ کافر ہیں یا گمراہ ہیں؟
ج: پاکستان میں جو غیر مسلم رہتے ہیں‘ انہیں ذمی قرار دیا جائے یا ان کی علیحدہ علیحدہ حیثیت متعین کی جائے؟
ان سارے سوالوں کے جواب‘ پاکستانی آئین میں موجود ہیں اور جو بات آئین میں طے پا گئی‘ اسے دوبارہ زیر بحث لا کر کون سے فتنے اٹھانے کی کوشش کی گئی تھی؟ میری اطلاع کے مطابق شیرانی صاحب اپنی غلطی یا چالاکی پکڑے جانے پر بدحواس ہو گئے اور وہ اپنی نشست سے اٹھ کر بظاہر بیرونی دروازے کی طرف جاتے ہوئے نظر آئے‘ مگر اچانک مڑ کے وہ طاہر اشرفی کی کرسی کی طرف گئے اور ان کا گریبان پکڑ کر کھینچنا شروع کر دیا۔ ان کے دو ساتھیوں نے طاہر اشرفی پر حملہ کر دیا۔ یہ پورا منظر علما کے شایان شان نہیں اور شیرانی صاحب جو کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں‘ انہیں تو یہ پورا سلسلہ ہی زیب نہیں دیتا۔ میں نے اپنے علم کے مطابق واقعات بیان کر دیئے ہیں۔ خدانخواستہ جو بحث شیرانی صاحب نے کسی جواز کے بغیر چھیڑنے کی کوشش کی تھی‘ اس کا پس منظر کیا ہو سکتا ہے؟ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ میں نے ملک کو انتشار کے طوفان سے بچا لیا‘ ورنہ اسلامی نظریاتی کونسل میں یہ بحث چھڑ جاتی اور شیرانی صاحب اپنی جماعت کے ذریعے اسے پارلیمنٹ میں لے جاتے‘ تو ہمارا کیا بنتا؟ جہاں تک شیرانی صاحب کے اس جواب کا تعلق ہے کہ ''میں نے تو انہیں اپنے راستے سے ہٹایا تھا‘‘۔ وہ کہاں جا رہے تھے؟ ان کے راستے میں کرسی پر بیٹھے ہوئے طاہر اشرفی کیسے آ گئے؟ مجھے تو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔ خود شیرانی صاحب ہی بیان فرما دیں کہ وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر کس طرف جا رہے تھے؟ مڑ کر کدھر کو آئے اور جا کدھر رہے تھے؟ جہاں اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے طاہر اشرفی ان کے راستے میں آ گئے۔ یہ نقشہ سمجھ میں نہیں آتا۔ معاشرتی علوم پر شیرانی صاحب کی مہارت بھی قابل غور ہے‘ جو ان کے ایک جملے سے ظاہر ہوئی ''یہاں غنڈوں کی کمی ہے؟‘‘ ایک عالم دین سے‘ ٹی وی پر یہ جملہ سن کر بھاٹی لوہاری والوں کے حوصلے دوچند ہو گئے ہوں گے۔ انہوں نے حیرت سے کہا ہو گا: ''مولانا تو یہ بھی جانتے ہیں۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں