امریکہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے چند برگزیدہ اساتذہ ‘ برطانیہ کی تاریخی یونیورسٹیوں کو دیکھنے آئے۔ اس قصبے میں متعدد یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ چند ایک کو دیکھنے کے بعد جب وہ آکسفورڈ یونیورسٹی آئے‘ تو برطانوی میزبانوں سے یہ سنا کہ ''ہماری یونیورسٹی دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ اس کی قریباً ہزار سالہ تاریخ میں دنیا کی عظیم شخصیتیں فارغ التحصیل ہو کر گئیں۔ جیسے 27نوبل پرائز حاصل کرنے والے اور برطانیہ کے 26 وزرائے اعظم (بشمول موجودہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون) آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں۔‘‘ امریکی‘ دنیا کو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا ذہین اور تیز طرار تھا۔ اس نے میزبان پروفیسر سے آکسفورڈ یونیورسٹی کی تعریف سن کر گردونواح کی قدیم عمارتوں پر ایک نگاہ ڈالی اور کندھے اچکاتے ہوئے بولا''ہم چند سو ملین ڈالر میں ایسے کئی کیمپس تعمیر کر لیں گے۔‘‘ بوڑھے برطانوی سکالر نے اس کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا ''آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ آپ ایک آکسفورڈ کیا‘ ایسی درجنوں یونیورسٹیاں تعمیر کر لیں گے۔ لیکن آکسفورڈ یونیورسٹی پھر بھی نہیں بنا پائیں گے۔‘‘امریکی مہمان نے استفسار کیا ''آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘ برطانوی استاد نے جواب دیا ''آپ اربوں ڈالر خرچ کر کے درجنوں یونیورسٹیاں بنا سکتے ہیں۔ ان میں دنیا کی جدیدترین کتابیں اور کمپیوٹر بھر سکتے ہیں‘ لیکن میرے عزیز مہمان! ایک ہزار سال کی تاریخ کہاں سے لائو گے؟‘‘
ہمارے حکمران ‘لاہور کے لوگوں کے گھر‘ یادگار عمارتیں ‘ شالامار باغ‘ چوبرجی‘ لکشمی چوک‘ موج دریا اور 25کے قریب دیگر تاریخی مقامات کو ‘لاہور کے نقشے سے نکال کر یا ان کا حلیہ بگاڑ کے‘ لاہور جیسے 20 شہر تعمیر کر سکتے ہیں لیکن لاہور کے سینے پر آویزاں جو تمغے اتار دیئے جائیں گے‘ انہیں واپس کون لائے گا؟چین جتنے ارب ڈالر چاہے‘ ہمیں دے دے‘ ان میں امریکہ کے ڈالر بھی شامل کر لئے جائیں‘ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں کے بہترین انجینئرز اور ماہرین کی خدمات حاصل کر لی جائیں لیکن یہ ساری دولت اور ساری مہارتیں مل کر بھی‘ چوبرجی کی ایک اینٹ ہمیں واپس نہیں دے سکتے۔ شہر محض شہر نہیں ہوتے‘ تاریخ ہوتے ہیں۔ جو قبرستان اکھاڑ کر یہ اورنج لائن تعمیر کریں گے‘ انہیں کون بتائے گا کہ وہ کس کس کی مٹی کو دھول بنا کر اڑا ئیں گے؟ جن عظیم فنکاروں ‘ استادوں‘ مغنیوں‘ محققوں‘ شاعروں‘ افسانہ نگاروں ‘ موسیقاروں اور مصوروں کی قبروں کو ادھیڑ کر ان کے وجود کی دھول کو‘ چاروں طرف اڑائیں گے یا ٹریکٹروں اور ٹرالیوں میں لاد کر کہیں دور جا پھینکیں گے‘ وہ خدا کی بنائی ہوئی خوبصورت تخلیقات کو دوبارہ ‘اسی صورت میں کیسے قبر کی مٹی میں بدلیں گے؟ لاہور کے بزرگ ‘ اس شہر کی تہذیبی حیثیت کے بارے میں آنے والی نسلوں اور سیاحوں کو کیسے بتائیں گے کہ لاہور کی کس گلی سے علامہ اقبال گزرے تھے؟ کس گلی کی مٹی نے سعادت حسن منٹوکے پائوں چومے تھے؟ لاہور کی قدیم گلیاں اور سڑکیں کیسی تھیں؟ یہاں کا اصل طرز تعمیر کیا تھا؟ اس شہر کے آبائواجداد ‘ گرمی کے موسم میں ‘بجلی کے بغیر اپنے گھروں کو کس طرح ٹھنڈا رکھتے تھے؟ گرمیوں کی شاموں میں کچے صحن پر پانی چھڑک کر ‘ لاہور کی سوندھی مٹی کی خوشبو سے کیسے لطف اندوز ہوتے تھے؟ گلابی باغ جیسے مقامات نظروں سے اوجھل ہو جائیں گے۔ کپورتھلہ اور پیراشوٹ کالونی ‘جیسی قدیم آبادیاں کہاں منتقل ہو جائیں گی؟ کئی نسلوں سے ایک دوسرے کے پڑوس میں رہنے والے خاندان ‘اپنے اپنے وراثتی گھروں سے محروم ہونے کے بعد کہاں کہاں جائیں گے؟ کیا ایک بار پھر آبادیاں اجڑیں گی؟ ایک بار پھر پڑوسی بچھڑیں گے؟ ایک بار پھر ہزاروں عورتوں اور مردوں کی یادوں سے بھری گلیاں‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شہر کے منظر سے غائب ہو جائیں گی۔ لاہور کے چند دانشوروں اور اساتذہ کرام نے‘ ایک طویل تجزیئے میں بتایا ہے کہ تاریخ کا چھوڑا ہوا کونسا ورثہ ‘ کتنی رقم میں اجاڑا جائے گا؟ اور اس کی جگہ جو نئی چیز بنائی جائے گی‘ اس پر کتنا خرچ ہو گا؟ مجھے حیرت ہوئی کہ پاکستان کتنا بدل گیا ہے؟ یادوں کو بھی نفع و نقصان کے پیمانے سے پرکھا جاتا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار کی یادوں سے بھری ہوئی ‘دیواروں میںچنُی اینٹوں اور چونے کی کہانیوں کو ہم خسارے اور منافعے میں بانٹ کر کیسے پہچانیں گے؟ سینٹ اینڈریوز چرچ اور نابھہ روڈ کی قدیم عمارتیں کہاں چلی جائیں گی؟ ہندوئوں کے جین مندر نام کی عبادت گاہ‘ جو نابھہ روڈ کے عین درمیان میں‘ کامران کی بارہ دری کی طرح ‘ آنے جانے والے لوگوں کے درمیان کھڑی تھی‘ اسے تو ہم پہلے ہی برباد کر چکے۔ اس کے گردونواح کی وہ گلیاں‘ جنہیں دیکھ کر‘ اس مندر کا منظر یادوں میں ابھر آتا تھا‘ اب وہ بھی نہیں رہیں گی۔ہمارے دانشوروں نے اورنج لائن کی آمد کو نفع و نقصان کی اصطلاحوں میں جانچا ہے۔ پرانے عہد کا اینٹ گارا اور لکڑیاں تو لاہور کے دامن کو خالی کریں گی ہی لیکن وہ انسانی سرمایہ اور اس کی یادیں ‘ جو لاہور کے دامن کو مزید خالی کرے گا‘ اس کی جگہ کیا آئے گا؟ انجن اور ریل کے پہیوں کا شور؟
لاہور ہزاروں سال پرانا شہر ہے۔ اس کی ان گنت گلیاں اور ان کے دونوں اطراف میں مکانات اور حویلیاں‘ جس مٹی پر کھڑے ہیں‘ اس میں وہ دم نہیں کہ کئی کئی ٹن لوہے کے انجن اور ڈبے وہاں سے گزریں اور بوڑھی عمارتیں کھڑی رہ جائیں۔ اس کی دیواریں نئے زمانے کے آخری شور سے‘ بوڑھی عورتوں کی طرح دھڑک جائیں گی‘ جیسے کوئی طیارہ ایئربیریئر کراس کر کے‘ دھماکے چھوڑتا ہے اور بڑی بوڑھیاں کانپ اٹھتی ہیں۔ کتنی بار یہ لوہے کاپہاڑ ‘ اورنج لائن کے دونوں طرف بنے ہوئے ‘بوسیدہ مکانوں کو دھڑدھڑائے گا ؟اور مٹی اور چونے سے لگے ہوئے جوڑوں کے پرانے رشتوں کو توڑ کے رکھ دے گا۔ بوڑھی دیواروں کے لئے کھڑے رہنا مشکل ہو جائے گا۔ ان چھتوں اور دیواروں کے نیچے رہنے والے اپنا بڑھاپا تو لاٹھی کے سہارے کاٹ گئے اور کاٹ رہے ہیں۔ مگر یہ بوڑھی دیواریں کو نسی لاٹھی کے سہارے قائم رہیں گی؟ ہمارے دانشور دوستوں نے‘ ان جدید شہروں کا ذکر کیا ہے‘ جہاں اورنج لائن کے باعث نئی تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کی حرارت سے محبوس ہو کر‘ زندگی کو ناتواں ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اگر لاہور میں بھی کراچی کی طرح دیوقامت مشینیں‘ شہر کی رگوں میں سے گزریں گی‘ توکاربن مونوآکسائیڈ‘ سلفرڈائی آکسائیڈ اور دھاتی ذرات سے لبریز ہوا‘ جب بوجھل ہو کر انسانی سانسوں پر حملہ آور ہوگی‘ تو انسانی ڈی این اے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ آلودگی کی یہ خطرناک ترین صورت‘ انسانی خون میں شامل ہو کر پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے اور امراض قلب کا باعث بنتی ہے۔ 9یورپی ملکوں میں 312,944 افراد پر کی گئی‘ ایک تحقیق کے مطابق اس آلودگی کی قلیل مقدار بھی خطرناک نتائج مرتب کر سکتی ہے۔ ایسی آلودگی میںمعمولی اضافہ بھی اچھے بھلے انسان کو کینسر میں مبتلا کر دیتاہے۔ لاہور میں موجودہ فضائی آلودگی کا تناسب‘ پہلے ہی عالمی معیاروں کے مطابق حد سے زیادہ ہے۔ اورنج لائن کے منصوبے کا شکار ہونے والے راستوں میں آنے والی آبادیاں کھیل کے ان گنت میدانوں‘ سکولوں‘ مساجد‘ ہسپتالوں اور کلینکوں سے محروم ہو جائیں گی۔ شمالی لاہور کے 200 خاندانوں کے معذور بچوں کی تعلیم کے لئے بنائے گئے خصوصی سکولوں کو بھی گرا دیا جائے گا۔جدیدطرز زندگی کی یہ تازہ لہر ‘ تاریخ کی رہی سہی تصویروں کے رنگوں کو بھی اڑا کے رکھ دے گی۔ لاہور کا تہذیبی اور تاریخی چہرہ مسخ ہو کے رہ جائے گا۔ پڑوسی پڑوسیوں سے دور ہو جائیں گے۔ الماریاں اور طاقچے اٹھائے جانے والے ملبے میں شامل ہو کرکوڑے کے ڈھیروں میں دب جائیں گے۔ جدیدتہذیب کی لپیٹ میں آنے والے ترقی یافتہ شہروں کے لوگ ‘آج اپنے گمشدہ شہروں کو یاد کر کے‘ آہیں بھرتے ہیں۔ جن کی روحیں زندہ تھیں‘ انہوں نے اپنی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے کچھ مناظر بچا کر رکھ لئے تھے۔ مگر ہم تو آنے والی نسلوں کے لئے کچھ بھی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ جیسے جیسے نئی تعمیرات زمین کو مہنگا کریں گی‘ پرانے گھروں کے رہنے والے اپنی آبائی زمین بیچ کر‘ نئی آبادیوں میں نکل جائیں گے۔ آدھے سے زیادہ پرانا لاہور‘ نئی آبادیوں میں منتقل ہو چکا ہے۔ اب لاہور کا ایک اور بہت بڑا حصہ یہاں سے نکل جائے گا۔لاہور کے اندر سے لاہور نکل رہا ہے۔ یہ اپنے باسیوں کو اپنے رہن سہن کے ساتھ ہمیشہ کے لئے نکلتے ہوئے دیکھ کر‘ اداسیوں اور جدائیوں میں دب جائے گا۔ لاہور سے‘ لاہور نکل جائے گا اور بے آباد زمینوں پر جا کر بسیرا کرے گا۔ آج کے بااختیار لوگوں سے التماس کروں گا کہ اپنی قبریں ایسے مقامات پر بنوائیں‘ جہاں تبدیلی کی کوئی نئی لہر ان کا وہ حشر نہ کرے‘ جو ہم اپنی گزری ہوئی نسلوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔