روٹیوں اور گولیوں میں ایک ہی فرق ہے۔ گولی زندگی لیتی ہے اور روٹی زندگی دیتی ہے۔ پاکستان کے محنت کش انہی دونوں کے درمیان زندگی گزارتے ہیں۔ روٹی ملتی ہے‘ تو بہت تھوڑی اور ترسا ترسا کے۔ گولی البتہ شوں سے آتی ہے اور جان نکال لیتی ہے۔ اس کا فیصلہ حکمران اور کارخانوں اور فیکٹریوں کے مالکان اور افسران کرتے ہیں۔ افسران‘ حکومتوں اور محکموں کے بل بوتے پر طاقت آزمائی کرتے ہیں اور مالکان ‘ دولت اور طاقت کے زور پہ‘ کمزوروں کی کشمکش زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ کشمکش زندگی کیا چیز ہے؟ یہ اس زندگی کو کہتے ہیں‘ جو محنت کش گزارتے ہیں۔ اس زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔کبھی تنخواہ‘ ضروریات کے مطابق مل جائے‘ تو ان کی زندگی سسکتے ہوئے گزر جاتی ہے اور اگر تنخواہ ‘ گھر والوں کی روٹی پوری نہ کر سکے‘ تو محنت کش سسک سسک کر جیتا ہے۔ مالک کویہ پتہ لگ جائے کہ اس کی گزراوقات ٹھیک ہو جاتی ہے‘ تو وہ اس پر سختی شروع کر دیتا ہے۔ کام کے اوقات بڑھا دیتا ہے۔ مشقت زیادہ کردیتا ہے۔ تنخواہ میں دیر کر تا ہے تاکہ محنت کش آرام اور سکھ کا سانس نہ لے سکے۔ گھر میں ایک دو دن کا فاقہ آ جائے۔ یہ فاقہ اس وقت آتا ہے‘ جب محنت کش پڑوسیوں اور جاننے والوں سے ادھار لینے کے قابل نہیں رہتا۔ اس کے دو نتیجے ہوتے ہیں۔ ادھار دینے والے کی اپنی جیب خالی ہو جائے یا ادھار لینے والا اپنی اوقات کے مطابق ادھار لے چکا ہو اور اس میں ادھار چکانے کی ہمت باقی نہ رہے۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے‘ جب بال بچوں سمیت فاقوں کا نزول ہونے لگتا ہے۔ پہلے فاقے پر محنت کش ‘ افراد خاندان کو تسلیاں اور سہارے دیتا ہے۔ دوسرے فاقے پر ‘ ادھار سے انکار کرنے والوں کو کوستا ہے اور تیسرے فاقے پر‘ براہ راست خدا سے شکایتیں شروع کر دیتا ہے۔یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے‘ جب اسے خبر ملتی ہے کہ آج تمہیں تنخواہ مل جائے گی۔ تنخواہ ملتے ہی وہ اپنا ادھار چکاتا ہے اور چکانے کے بعد جو کچھ اس کے پاس بچتا ہے‘ وہ پندرہ دن کے لئے دو وقت کی روٹی ہوتی ہے۔ محنت کش سمجھدار ہے‘ تو دو وقت کی روٹی کو ایک وقت کی کر کے‘ مہینے بھر کا گزارہ کر لیتا ہے۔ اگر اس نے دو وقت کی روٹی کھا لی‘ تو باقی آدھا مہینہ جس مصیبت میں وہ گزارتا ہے‘ اسے ''کشمکش زندگی‘‘ کہتے ہیں۔
یہ کشمکش زندگی پہلے مرحلے میں ادھار سے انکار کرنے والے دوستوں اور شناسائوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کے بعد بیوی سے ہوتی ہے۔ بیوی کے بعد‘ قسمت بنانے والے سے ہوتی ہے ؎
قسمت بنانے والے ذرا سامنے تو آ
آ تُجھ کو میں بتائوں کہ دنیا تیری ہے کیا؟
قسمت بنانے والے کے ساتھ ایک ڈیڑھ دن کشمکش ہوتی ہے اور اس کے بعد محنت کش اپنے آپ کو قسمت بنانے والے کے رحم و کرم پر چھوڑ کر‘ ہاتھ پائوں ڈھیلے کر دیتا ہے۔ ایسے وقت میں اسے تنخواہ مل جاتی ہے اور وہ باقی آدھا مہینہ عیش و آرام کی زندگی گزارتا ہے اور باقی آدھا مہینہ شدید کشمکش میں۔ اگر آپ کی کسی محنت کش دوست سے مہینے کے اوائل میںملاقات ہو ‘ تو اس کے ساتھ خوب موج مستیاں کریں۔ آنے جانے والوں پر جملے کسیں۔ دوستوں کی خوبیوں اور برائیوں سے دل بہلائیں۔ اس وقت یہ
سب کچھ آپ کے لئے جائز ہو گا۔ مہینے کی آخری تاریخوں میں اپنے اس دوست سے دور رہنا شروع کر دیں۔ آپ کو اپنے گھر کی طرف آتا دکھائی دے‘ تو گھر سے باہر ہو جائیں۔ اگر اچانک سڑک پر آ جائے‘ تواس کے سامنے ''اوہ! میں تو بھول ہی گیا‘‘کہہ کر نظروں سے اوجھل ہو جائیں اور فراموش کر دیں کہ آپ نے کسی کے ساتھ کوئی وعدہ کیا ہے۔ حقیقت میںآپ کوئی وعدہ کرتے بھی نہیں۔ خود پر الزام لگاتے ہیں کہ آپ بھول گئے۔ ''کیا بھولے؟‘‘ اس کا آپ کے ملاقاتی کو پتہ ہی نہیں چلے گا۔ عام حالات میں وہ یہی سمجھے گا کہ یہ کوئی کام کئے بغیر گھر سے نکل کھڑا ہوا ہے اور اب یاد آیا ہے‘ تو واپس چلا گیا ہے اور بھولا ہوا کام کر کے‘ جلد واپس آ جائے گا۔ مگر آپ حقیقت میں کسی کام کے لئے ہی نہیںنکلے۔ آپ کے پاس کوئی کام ہی نہیں۔ آپ کے پاس کرنے کے لئے بھی کچھ نہیں۔ حقیقت میں بھکاری سے تنگ آ کر ‘ آپ اس پر لعنت بھیجتے ہوئے گھر سے نکلے تھے۔ آپ کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ راستے میں آپ کو کوئی جاننے والا مل جائے گا۔ درحقیقت آپ کا المیہ یہی ہوتا ہے کہ آپ بے مقصد گھر سے نکلے‘ تو آگے سے کوئی جاننے والا مل کر‘ آپ سے دنیا جہان کی باتیں کرنا شروع کر دے۔ جن باتوں سے آپ کو کوفت ہوتی ہے‘ آپ کو پوچھنا شروع کر دے۔ ''کیا حال ہے؟‘‘
''میں اپنا حال کیا بتائوں؟‘‘
''مجھے پتہ ہے‘ آپ کے پاس بتانے کے لئے کچھ نہیں۔ پھر بھی دنیا داری کے لئے پوچھ لیا۔‘‘
''کیا ساری دنیا داری ''پوچھنے میں‘‘ ہے؟‘‘
''نہ بھی پوچھیں‘ تو گزارا ہو جاتا ہے۔‘‘
''تو بغیر پوچھے ہی گزارا کر لیں۔‘‘
''مجھے گزارا کرنے کے لئے آپ کے مشورے کی ضرورت نہیں۔میرے دن بھی آپ کی مزاج پرسی کے بغیر گزر ہی جاتے ہیں۔‘‘
''تو میں کب کہتا ہوں کہ آپ بلاوجہ میری مزاج پرسی کا انتظام کریں؟ جتنی آپ کی اوقات ہے اس کے مطابق دن گزار لیں۔‘‘
سچ پوچھئے تو ہر محنت کش کی زندگی اسی طرح گزرتی ہے۔ اس کی زیادہ فکر یہ ہوتی ہے کہ دن کیسے گزاروں؟ کام کیا کروں؟ ہنڈیا کیا پکے؟ آٹا کیسے پورا ہو؟ بجلی کا بل کیسے دوں؟ گیس کا بل کیسے دوں؟ ہر کسی کو اپنے اپنے سوالوں کے جواب سوچنا پڑتے ہیں۔
ان دنوں میرے ذہن پر‘ پی آئی اے کے محنت کشوں کا مستقبل سوار ہے۔ روز اخبار پڑھتے ہوئے سوچتا ہوں کہ اب انہیں کیا ملے گا؟ ذہن میں جواب آتا ہے۔ ''ایک دو لاشیں اور مل جائیں گی۔‘‘ پھر وہ اپنے آپ کو ہی کوستا ہے کہ ''میں نے لاشوں کا کیوں سوچا؟ ضروری تو نہیں کہ گولی ہی چلے۔ حکمرانوں کے مزاج پر انحصار ہے کہ آج وہ گھر سے کیا سوچ کر نکلیں؟ کس بچے کے لئے آج یہ سوچیں کہ اسے فیکٹری لگا کر دینی ہے؟ یا کسی کی زمین چھین کر‘ اس کے نام کرانی ہے؟ یا حکومت کے کسی منصوبے کا آج ٹھیکہ دینا ہے؟ یا محنت کشوں کو جرمانہ کر کے‘ آج اپنی دولت میں کچھ اضافہ کرنا ہے؟‘‘سچی بات ہے میں ‘ محنت کشوں کی روزمرہ زندگی کے بارے میںکبھی نہیں سوچتا۔ مجھے سوچنے کی ضرورت ہی نہیں۔ جیسی زندگی وہ گزارتا ہے‘ اسی طرح ہی یا اس سے ملتی جلتی زندگی میں گزارتا ہوں۔ خوب سوچ بچار کے بعد ‘وہ اگر اپنے گھر میں آلو پکاتا ہے‘ تو میں مٹر پکا لیتا ہوں۔ وہ دال پکاتا ہے‘ تو میں اپنے گھر گوشت پکوا لیتا ہوں۔ بس یہی ہماری روزمرہ کی زندگی ہے۔ میں اس لئے خوشحال ہوں کہ میں تھوڑا بہت سوچ بچار کر کے‘گھر میں گوشت پکوا لیتا ہوں اور محنت کش اتنی ہی سوچ بچار کے بعد دال پکوا لیتا ہے۔ فرق تو صرف ایک ہے کہ میں بھوک مٹانے کے لئے کسی بکرے کے ذبح ہونے کا انتظار کرتا ہوں اور وہ دال کی دھلائی کا انتظار کرتا ہے اور جب سے میں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ لاہور میںگدھوں کا گوشت بکتا ہے‘ میں سخت الجھن میں پڑ جاتا ہوں۔ سوچتا ہوں ‘ گدھے کے گوشت کو اپنی خریداری سے کیسے بچائوں؟ ظاہر ہے‘ قصائی گوشت بیچنے سے پہلے ''اصل چیزیں ‘‘تو چھپا دیتا ہو گا۔ اس کی سری پائے‘ لمبے لمبے کان‘ ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے والی گردن‘ یہ سب توہماری نظروں کے سامنے نہیں آتے ہوں گے۔ سچائی سے پردہ اٹھانے والی یہ سب چیزیں ‘ قصائی‘ گاہک کی آنکھ سے پہلے ہی‘ چھپا کے رکھ لیتا ہے۔ شریف آدمی کی جیب میں پیسے آئے ہوں‘ تو وہ بھنگڑا ضرور ڈالتے ہیں۔ جیب میں پیسوں کا بھنگڑا محسوس کر کے‘ یقینا اس کی خودداری بیدار ہو جاتی ہے اور وہ گھر میں گوشت پکانے کے لئے بے چین ہو جاتا ہے۔ اس کا کیا قصورکہ جیب میں بار بار شروع ہونے والا پیسوں کا بھنگڑا‘ اسے کہاں لے جاتا ہے؟ خوشحالی کی سرمستی میں یقینا وہ گوشت والے کی دکان کا رخ کرے گا۔ یہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ قصائی‘ گدھے کی ساری نشانیاں‘ گوشت سجا کر رکھنے سے پہلے چھپا ڈالتا ہے اور شریف آدمی کے سامنے‘ صرف گدھے کا گوشت رکھا ہوتا ہے۔ وہ کیسے یہ پہچانے؟ کہ میرے سامنے پڑا ہوا گوشت بکرے کا ہے یا گدھے کا؟ لیکن مجھے کیا؟ مجھے تو گوشت کھانا ہے۔ وہ بکرے کا ہو یا گدھے کا۔
گدھے کا گوشت‘ ڈھینچوں ڈھینچوں کر رہا ہو‘ تو بندہ اسے پہچان بھی سکتا ہے۔جب گوشت خود خاموشی سے بک رہا ہو‘ تو گدھے کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اس کا گوشت ڈھینچوں ڈھینچوں کر کے‘ اپنی پہچان کرائے اور خریدنے والے کو کیا پڑی ؟کہ وہ گدھے کا گوشت خرید کر ‘ ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز سنے؟ بندے کے پاس پیسوں کی فراوانی ہو‘ تو اسے گدھے کے گوشت میں ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز سنائی دے جاتی ہے اور اگر گوشت ہی پندرہ دنوں کے بعد نصیب ہو رہا ہو‘ تو میں شرط لگاتا ہوں کہ گدھے کا گوشت خواہ کتنا ہی گلا پھاڑ کر ڈھینچوں ڈھینچوں کرے‘ کھانے والا ہرگز نہیں سنے گا۔ منہ کے اندر کونسے کان لگے ہوتے ہیں؟ پی آئی اے کے تازہ تازہ بیروزگاروں کو‘ چند روز گدھے اور بکرے کا فرق معلوم ہوتا رہے گا۔ کچھ عرصے بعد گدھے کا گوشت کتنا ہی ڈھینچوں ڈھینچوں کرے‘ اس کی کون سنے گا؟ وہ میں میں کرے یا ڈھینچوں ڈھینچوں۔ خریدار کو تو کھانے سے غرض ہے۔ کسی دوست سے اچانک سامنا ہونے پر ‘اس کی طرف دیکھیں تو خدا لگتی کہیے کہ آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ آپ کے دوست نے آج کیا کھایا ہے؟ بکرا یا گدھا؟