پاکستان اور بھارت کی قیادتیں‘ اپنے اپنے سیاسی مقاصد کے تحت‘ باہمی رابطوں اور رشتوں میں جتنا بھی تعطل اور انجماد پیدا کریں لیکن ہمارا محل وقوع اور تاریخ‘ ہمیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے۔ بھارت میں کوئی وبا پھیلے گی تو ہماری سرحدوں کے حفاظتی نظام اسے نہیں روک سکیں گے۔ ہم جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے اس قدر جُڑے ہوئے ہیں کہ تمام رشتے منقطع کرنے کے بعد بھی ہم ایک دوسرے کے اثرات کے زیر اثر ہی رہیں گے۔ دونوں کا بنیادی تضاد‘ مُلاّ اور پنڈت کے مذاہب کا تضاد ہے۔ دونوں اپنے اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کی ضد کی شکل میں دیکھتے ہیں‘ اور اسی تضاد پر ان کا سارا کاروبار قائم ہے۔ پنڈت‘ مسلمان کے خلاف نفرت پیدا کر کے ہندو کو اپنے کاروبار میں اضافے کے لئے استعمال کرتا ہے اور مسلمان اپنے ماننے والوں کو۔ جس قدر بھارت میں ہندو مسلم کشمکش تیز ہو گی‘ اتنا ہی ردعمل پاکستان میں آئے گا اور پاکستانی مُلاّ‘ بھارتی ہندوئوں کی انتہا پسندی کے جوابی ردعمل میں‘ اپنے پیروکاروں کو متحد کرے گا۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کے نتیجے میں پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ کم و بیش ہزار سال کی مشترکہ تاریخ رکھتے ہوئے بھی ہم اپنے کلچر میں یگانگت اور گھل مل جانے کی صلاحیت پیدا نہیں کر سکے۔ ہم اپنے طور سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔ عقل و دانش سے کام لینے والے رہنمائوں نے ہمیشہ باہمی رشتوں کو خوشگوار بنانے کے جتن کئے۔ معاشرے کے بڑے حصوں نے ان تعلیمات کے زیر اثر باہمی رشتوں کو مستحکم بنانے کی کوشش کی لیکن نفرت کا نعرہ‘ محبت کے نعرے سے اکثر زیادہ کارگر ہوتا ہے اور اجتماعی نفرت کی وبا تو نہایت تیزی سے پھیلتی ہے۔ باہمی میل جول اور یگانگت کے رشتے بڑی دیر میں پروان چڑھتے ہیں۔ یہی ہمارے برصغیر کی تاریخ ہے۔ آپ اس کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں۔ عوام کی اکثریت میں ہمیشہ باہمی اخوت اور پیار‘ محبت سے مل جل کر رہنے کی خواہش موجود رہی ۔ ہر دور میں چند افراد پر مبنی چھوٹے گروہ‘ نفرت اور تصادم کے جذبات بھڑکاتے رہے جبکہ عوام کے اندر موجود یکجہتی کا جذبہ‘ ہر خارجی دبائو کو شکست دے کر غالب آتا رہا۔
پاکستان اور بھارت کے عوام نے اپنے اپنے تہذیبی اور اعتقادی رویّوںکی بنیاد پر باہمی یکجہتی اور اتحاد کو فروغ دیا‘ جبکہ مذہبی تاجروں نے ہمیشہ تضادات ابھارنے کی کوشش کی۔ ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ دونوں قوموں نے ایک دوسرے کا خون بہایا‘ لیکن جب بھی نفرت کے جذبات کی شدت میں کمی آئی‘ عوام پھر ایک دوسرے سے گلے مل کر پیار اور محبت کے رشتے قائم کرنے اور انہیں فروغ دینے لگے۔ کانگرس نے انگریز کی حاکمیت کے خلاف‘ آزادی کے جذبات ابھارے۔ یہی تضاد مسلم اور انگریز حکمرانوں کے درمیان بھی تھا مگر محکوم ہونے کی وجہ سے‘ دونوں قوموں نے اپنے اپنے تضادات کو مذہب کے نام پر‘ سیاست کے عمل میں ڈھالا۔ اگر جدوجہد آزادی کے ابتدائی دور کو دیکھیں تو ہندو اور مسلمانوں کی جدوجہد کا ہدف‘ ایک ہی تھا یعنی انگریز حکمران۔
اس وقت مسلمانوں کے سب سے بڑے رہنما‘ قائد اعظم محمد علی جناحؒ تھے۔ وہ مذہبی سیاست کے ہرگز قائل نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی سیاسی جدوجہد‘ ہندوستانی عوام کی مشترکہ آزادی کے لئے کی۔ انہیں ہندو مسلم اتحاد کا لیڈر سمجھاجاتا تھا‘ لیکن کانگرس کے لیڈروں نے انہیں انتہا پسندی کی طرف دھکیل دیا۔ قائد اعظمؒ نے ہندو قیادت کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے یہی بہتر سمجھا کہ پہلے مرحلے میں بیرونی حکمرانوں سے آزادی حاصل کی جائے اور اس کے بعد‘ آزاد ہونے والی دونوں قومیں‘ اپنے اپنے عوام کو آزادی کے ثمرات سے بہرہ ور کرنے کے لئے باہمی تعاون اور دوستی پر مبنی فضا پیدا کریں۔ قائد اعظمؒ نے دو قومی نظریہ آزادی کی وضاحت ان الفاظ میں کی تھی: ''آزادی کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے رشتے‘ یو ایس اے اور کینیڈا جیسے ہوں گے‘‘۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے مفاد پرست طبقے اپنے اپنے دائو پر تھے۔ کانگرسی قیادت کی انتہا پسندی نے قائد اعظمؒ کو مجبور کر دیا کہ وہ مسلمان قوم سے تعلق رکھنے والے عام آدمی کو مذہبی تاجروںکے فریب میں آنے سے بچائیں۔ نوآزاد مسلمان قوم کے مذہبی تاجروں کی اکثریت قائد اعظمؒ کے خلاف تھی۔ اگر آپ قائد اعظمؒ کی سیاسی ٹیم کا جائزہ لیں‘ جس نے آزادی کے فوراً بعد پاکستان کی قیادت سنبھالی‘ تو آپ کو واضح طور سے دکھائی دے گا کہ قائد اعظمؒ مذہبی تاجروں سے مختلف نظریات رکھتے تھے۔ انہوں نے خود جو کابینہ بنائی‘ اس میں بھی مذہبی آزاد خیالی واضح نظر آتی ہے۔ ان کی کابینہ میں ہندو بھی تھے‘ احمدی بھی موجود تھے اور ایک دوسرے سے مختلف عقیدے رکھنے والے مسلمان بھی۔ ہماری بدقسمتی کہ قائد اعظمؒ کو زندگی کی مزید مہلت نہ ملی‘ ورنہ وہ اپنی سیاسی طاقت اور مقبولیت کے بل بوتے پر پاکستان کو ایک ایسا آئین دے سکتے تھے‘ جس میں مذہبی فرقہ بندی کی بنیاد پر سیاسی مُلاّ‘ قوم کا استحصال نہ کر سکتے۔ جیسے ہی قائد اعظمؒ دنیا سے رخصت ہوئے‘ مُلاّئوں کی بن آئی۔ کمزور سیاست دان اپنی اپنی طاقت میں اضافے کے لئے مُلاّئوں کی حمایت حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہو گئے‘ اور آپ نے دیکھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ حقیقی جمہوریت کی جگہ مذہبی عقائد کی چھاپ گہری ہوتی چلی گئی۔ مُلاّئوں کی انتہا پسندی کے دبائو میں 1970ء تک‘ پاکستان آئین بنانے میں بری طرح ناکام رہا۔ مشرقی و مغربی پاکستان‘ آئین کے معاملے میں متصادم ہو گئے۔ نتیجے میں بھارت نے موقعے کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دولخت کر دیا۔ بنگلہ دیش‘ مذہبی سیاست دانوں کے چنگل سے نکلنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہا ہے مگر متبادل کے طور پر جو سیاسی قیادت برسر اقتدار ہے‘ وہ نظریات کے بجائے ریاستی طاقت اور علاقائیت کے نعرے لگا کر‘ مذہبی سیاست دانوں کو شکست دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں ہزار میل دور بیٹھ کر‘ موجودہ بنگلہ دیش کے حالات کا تجزیہ نہیں کر سکتا۔ تاریخ کی روشنی میں دیکھتا ہوں تو صاف نظر آتا ہے کہ نام نہاد آزاد خیالی اور علاقائیت پر مبنی جمہوریت‘ مُلاّئوں کو شکست دینے میں ناکام رہے گی اور وہاں بھی پاکستان اور بھارت کی طرح‘ دائیں بازو کے انتہا پسند‘ جو مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں‘ طاقتور ہو جائیں گے۔
وجہ کوئی بھی ہو‘ تینوں ملک جمہوریت کے نعرے پر آزاد ہوئے لیکن ترقیء معکوس کا عالم یہ ہے کہ یہ
تینوں ہی‘ مذہبی انتہا پسندی کی لپیٹ میں آتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں تنگ نظری پر مبنی مذہبی نعروں کی بنیاد پر ہمارا مُلاّ‘ ہتھیاروں کی طاقت پر قبضہ کر رہا ہے۔ ہمارے اصل حکمران طبقے‘ انسانی آزادیوں کے تصور سے ناآشنا ہیں۔ قدیم جاگیردارانہ ذہنیت‘ مختلف نعروں کی آڑ میں غلبہ حاصل کرتی جا رہی ہے اور مذہب کے نام پر اقتدار حاصل کرنے کے خواہش مندوں نے تشدد کے جو نئے نئے طریقے اختیار کئے ہیں‘ داعش اس کی تازہ مثال ہے۔ جو کچھ ان دنوں افغانستان میں ہو رہا ہے‘ وہ ہم سے دور نہیں۔ داعش کا تازہ کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے خود سے مختلف عقائد رکھنے والوں کو زمین میں بم گاڑ کر‘ انہیں اوپر بٹھایا اور ریموٹ کنٹرول سے دھماکہ کر کے ان کے پرخچے اڑا دیے۔ میں جانتا ہوں کہ پاکستان کے حکمران طبقے‘ معاشرے پر اپنا غلبہ برقرار رکھنے کے لئے کسی کی بھی مدد لے سکتے ہیں۔ وہ ایسا ہی کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ بھارت بھی تمام تر جمہوری روایات کے باوجود‘ تیزی کے ساتھ مذہبی انتہا پسندوں کے زیر اثر جا رہا ہے۔ مودی حکومت کا عرصہ اقتدار پورا ہونے تک‘ بھارتی معاشرے میں بھی مذہبی انتہا پسندی مزید پھولے پھلے گی۔ ہر صنعت کار اپنی تجارت ہندووانہ طور طریقوں کے تحت ہی چلاتا ہے۔ وہاں آزاد خیال اور جمہوری اقدار کے حامیوں پر جو سماجی دبائو بڑھایا جا رہا ہے‘ درحقیقت اس کے پیچھے مذہبی انتہا پسندوں کا ہاتھ ہے۔ موجودہ رجعت پسند بھارتی حکمرانوں کے سرپرست سرمایہ دار ہیں‘ جو اپنے مالیاتی مفادات کو عالمی مارکیٹ تک پھیلانا چاہتے ہیں۔ بھارت کے تمام سیاسی اور مذہبی نظریات رکھنے والے خواتین و حضرات کو مذہب کے نام پر‘ جبر و استبداد کے نظام سے آزادی حاصل کرنے کے لئے طویل سفر طے کرنا ہو گا۔ عوام کو کامیابی اس وقت نصیب ہو گی‘ جب تینوں ملکوں کے حکمران طبقے‘ عوام کے ہاتھوں شکست کھا کر پیچھے ہٹیں گے۔ وہ لمحہ آنے تک طویل جدوجہد سے گزرنا ہو گا۔ بھارت میں مذہبی انتہا پسندوں کے چند روزہ اقتدار کا نتیجہ یہ ہے کہ اب وہاں انسانی حقوق اور جمہوریت کے بجائے نسلی تصورات کا غلبہ بڑھنے لگا ہے۔ ہریانہ میں جاٹوں کی تحریک اتفاقیہ نہیں۔ بھارت کے جو علاقے طاقت کے مراکز کہلاتے ہیں‘ ان میں جاٹ سب سے زیادہ منظم اور طاقتور ہیں۔ اتر پردیش میں وہ ایک بڑی طاقت ہیں۔ بھارتی پنجاب میں فیصلہ کن طاقت کے مالک ہیں۔ بنگالیوں‘ تاملوں اور جنوبی ہند کے مختلف نسلی گروہوں کی علاقائی جدوجہد‘ اپنے اپنے انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ بھارتی یونیورسٹیوں میں نوجوانوں کی تحریک‘ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس کے محرک انقلابی نوجوان ہیں‘ جن میں ہندو اور مسلمان‘ دونوں شامل ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں حالیہ بغاوت کو منظم کرنے والا کنہیا کمار‘ ایک سیکولر ہندو نوجوان ہے جبکہ اس کا قریبی ساتھی مسلمان۔ اپنے اپنے علاقوںکی بغاوتوں میں حصہ لینے والے نوجوانوں کا صرف ایک نعرہ ہے: ''جب تک بھارت نہیں ٹوٹتا جنگ رہے گی‘ جنگ رہے گی‘‘۔ میں نے جواہر لعل یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کو ایک بھارتی ٹی وی چینل پر یہ نعرہ لگاتے سنا ہے۔