پاناما پیپرز کا تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے۔ میں نے اب تک غیرجانبدار اور جانبدار مبصروں کے جو تبصرے پڑھے یا سنے ہیں‘ ان میں بھی غیرجانبدارانہ رائے دیکھنے کو نہیں ملتی۔ حکومت کی حمایت کرنے والے صرف اس کے اتحادی ہیں۔ جن دوسری جماعتوں کو آزاد خیال کہا جا سکتا ہے‘ وہ سب کی سب‘ وزیراعظم کی مخالفت میں بول رہی ہیں۔ ان تبصروں میں ایک تیسری رائے بھی ملتی ہے‘ جس میں وزیر اعظم کے لئے بحران سے نکلنے کا ایک غیریقینی راستہ دکھائی دیتا ہے۔ مگر شدید کشیدگی اور ٹکرائو کی حالت میں درمیانہ راستہ ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے۔ ریاستی طاقت‘ وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے لئے یہ ممکن ہے کہ قانون کی مدد لے کر وہ موجودہ بحرانی کیفیت سے نکل جائیں۔ مگر سیاسی حالات ان کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ زیر نظر دو اقتباسات سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ قانونی صورتحال کتنی پیچیدہ ہے؟ دونوں اقتباسات بی بی سی کے مختلف تبصروں سے لئے گئے ہیں۔
''پاناما لیکس میں سامنے آنے والے انکشافات اور وزیر اعظم کے خاندان پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے محدود اختیارات اور دائرہ کار کی وجہ سے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ خود کو کرپشن سے پاک اور بے گناہ ثابت کریں۔ اس ضمن میں جو نکتہ بہت زور و شور سے اٹھایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ لندن میں مے فیئر کے علاقے میں جو فلیٹس وزیر اعظم کے زیر تصرف رہے ہیں ان کو خریدنے کے لیے رقم کن ذرائع سے کب پاکستان سے بیرون ملک بھیجی گئی؟ اس ضمن میں سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ پاناما لیکس کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن اور دیگر ادارے پاکستانی قانون اور دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں کے تحت کس قدر بااختیار ہیں؟
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے‘ جن کا تعلق اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی سے ہے، بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کمیٹی قانونی اور معاشی امور کے ماہرین سے بریفنگ لے رہی ہے اور جلد حکومت کو اپنی تجاویز دے گی کہ پاناما لیکس پر کس طریقے سے تحقیقات کی جائیں؟ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز کمیٹی کو بریفنگ دینے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک سابق قانونی ماہر محمود مانڈوی والا کو بلوایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی اجلاس میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس کا دائرہ کار محدود ہے‘ وہ پاکستان کا مرکزی بینک ہے اور وہ پاناما لیکس پر کوئی تحقیقات نہیں کر سکتا؛ تاہم وہ کمیشن کی معاونت کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ پاکستان او ای سی ڈی، معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم کا ممبر نہیں، جس میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں ٹیکس کو آسانی سے چھپایا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاکستان نے دو یا دو سے زائد ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدوں میں سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کر رکھا جس کے تحت فورنزک آڈٹ کیا جا سکے۔ سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ ایف بی آر کے حکام پانچ مئی کو کمیٹی کو بریفنگ دیں گے؛ تاہم ایف بی آر کے اختیارات پر بات کرتے ہوئے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قانونی طور پر ایف بی آر بھی اس سلسلے میں محدود اختیار رکھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ایف بی آر کے پاس مصدقہ اطلاعات ہوں تب بھی محدود اختیارات ہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ پانچ سال سے پیچھے نہیں جا سکتے۔ سرمایہ کاری صرف پچھلے پانچ سال کے اندر ہو تو اس کی تحقیقات کی جا سکتی ہیں اور اسے ریٹرن فائل کرنے کے لیے نوٹس دیئے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 1992ء کے اکنامک ریفارمز ایکٹ کے مطابق، بیرون ملک سے اگر ترسیلات زر واپس پاکستان لائی جائیں تو ان لوگوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح ٹیکس سسٹم میں بھی آف شور کمپنی کا مالک اگر سرمایہ ،بینک کے ذریعے واپس لائے تو اس سے پوچھ گچھ نہیں کی جا سکتی۔ ''اگر پاکستان کے اندر کوئی آف شور کمپنی ایف بی آر کے علم میں آجائے تو پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ شیئر ہولڈرز پاکستانی نیشنل ہونے کے ساتھ ٹیکس کی ادائیگی کے لیے یہاں کے مقیم بھی ہیں یا نہیں، کیونکہ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں شاید ایف بی آر کے برعکس قومی احتساب بیورو اور ایف آئی اے زیادہ معاون ثابت ہو سکیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا سمجھتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ''جب قانون ہی نہیں تو آپ کیسے باہر جائیں گے۔ کمیشن کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کے سوئس اکاؤنٹس کی تحقیقات پر 40 لاکھ ڈالر خرچ ہوئے۔ سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاناما لیکس کے ذریعے سب کچھ باہر آ گیا ہے اب وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کہ ''وہ اپنی بے گناہی ثابت کریں۔‘‘ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی تحقیقات ہو سکتی ہیں لیکن وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ بتائیں کہ یہ جائیداد کیسے خریدی اور رقم کہاں سے آئی اور بچوں کے نام کیسے ہوئی؟ ''انکم ٹیکس کے واجبات تک رسائی ہے، جو وزیراعظم نے اپنے اثاثے ظاہر کئے ان تک رسائی ہے۔ آپ کو جو پیسے پاکستان سے ٹرانسفر کیے ان کی تفصیلات دیں؟ اور اگر پاکستان سے نہیں کہیں اور سے کیے تو بھی بتائیں۔‘‘
قائمہ کمیٹی کے رکن اور پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر محسن عزیز نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کے مختلف ممالک سے معاہدے نہیں اور کچھ حد تک ملکی سطح پر بھی قانونی دشواریاں ہیں تاہم ان کی جماعت جو بات کر رہی ہے وہ اخلاقی سطح پر کر رہی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ فورنزک ماہرین سے آڈٹ کروا لیں تو بہتر ہے۔''اگر ایک شخص الزام سے صاف ہونا چاہتا ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ میں قانون کی غلط تشریح کے پیچھے نہیں چھپنا چاہتا... میری تحقیقات کریں۔‘‘ قائمہ کمیٹی کے رکن اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر الیاس بلور کہتے ہیں کہ ان کی جماعت نہیں سمجھتی کہ وزیراعظم کو مستعفی ہونا چاہیے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی بریفنگ کے بعد بی بی سی سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ یہ تحقیقات مشکل ہیں تاہم ناممکن نہیں اب ہمیں فوری طور پر قانون بنانا چاہیے اور مختلف ممالک سے معاہدے کیے جائیں کیونکہ سیاست دان ہی نہیں بلکہ بہت سے تاجر اور جنرلز بھی اس قسم کے امور میں ملوث ہیں۔
پاکستان میں حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ تمام اپوزیشن اس بات پر متفق ہے کہ جن لوگوں کے خلاف تحقیقات ہونی ہیں وہ خود ضابطہ کار طے نہیں کر سکتے۔وفاقی کابینہ کی طرف سے پاناما لیکس کے بعد وزیر اعظم پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن کے ضابطہ کار کی منظوری دینے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ان رہنماؤں نے کہا کہ اگر حزب اختلاف کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو پھر عوامی احتجاج ہو گا۔بی بی سی اردو سروس کے ریڈیو پروگرام سیربین میں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ قوم کے لیے وہی ضابطہ کار قابل قبول ہو گا جو حزب اختلاف کی جماعتوں کی مشاورت سے بنایا جائے گا۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے کہا کہ اپوزیشن کا موقف اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ جن لوگوں کو الزامات کا سامنا ہے وہ ضابطہ کار نہیں بنا سکتے۔انہوںنے اس بات پر زور دیا کہ تحقیقاتی کمیشن کے 'ٹی او آر‘ ساری سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بنائے جانے چاہئیں۔ ضابطہ کار کے بارے میں وفاقی کابینہ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں ریٹائرڈ جج سے تحقیقات کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جب اپوزیشن کی طرف سے دباؤ پڑا تو وہ سپریم کورٹ کے جج کے تحت تحقیقاتی کمیشن بنانے پر تیار ہو گئے۔انہوںنے کہا کہ موجودہ حکومت پر جب اور دباؤ پڑے گا تو وہ ضابطہ کار تبدیل کرنے پر تیار ہو جائے گی۔بدعنوانی کے الزامات پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شفقت محمود کا کہنا تھا کہ آف شور کمپنیاں جب بنائی گئیں اس وقت وزیر اعظم کے دونوں صاحبزادوں کی عمر بہت کم تھی اور وہ اپنے والد کی کفالت میں تھے۔انہوںنے کہا کہ یہ کمپنیاں بنانے کے لیے پیسہ کہاں سے بھیجا گیا؟ ان کے خیال میں تحقیقات کا محور اور مرکزی نکتہ یہ ہی ہونا چاہیے۔سعید غنی نے کہا کہ جو لوگ شریف خاندان کے مالی معاملات کے بارے میں جانتے ہیں ان کو رتی برابر بھی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاملات شفاف نہیں ہیں۔ انہوںنے کہا کہ موجودہ بحران پاناما لیکس کے علاوہ وزیر اعظم کے خاندان کے افراد کے اپنے بیانات میں تضاد سے شروع ہوا ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں شفقت محمود نے کہا کہ حکومت نے جو ٹی او آرز بنائے ہیں ان میں قرضوں اور مختلف دیگر مسائل شامل کر کے اس کا دائرہ کار بہت وسیع کر دیا گیا ہے اور عام خیال یہی ہے کہ اس کے نتائج آئندہ دس سال تک نہیں نکلیں گے۔حکومت پر دباؤ ڈالنے کے حوالے سے شفقت محمود نے کہا کہ ان کی جماعت پہلے ہی مہم شروع کر چکی ہے اور اتوار کو اس سلسلے میں لاہور میں جلسہ کرنے والی ہے۔دوسری طرف سعید غنی کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے دو مئی کو اپوزیشن جماعتوں کا ایک اجلاس طلب کر رکھا ہے جس میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ قوم کے سامنے متبادل ضابطہ کار پیش کیا جائے۔انہوںنے کہا پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ کوئی فیصلہ تنہا نہ کیا جائے اور اپوزیشن کی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ انہوںنے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ایوان کے اندر اور سڑکوں پر بھی احتجاج کیا جا سکتا ہے۔‘‘