پاکستان کا سرمایہ چند ہاتھوں میں محدود ہوتے ہوتے بیماری کا شکار ہو گیا ہے۔ گزشتہ روز کوئٹہ میں بدہضمی کی ایک ڈکار ظاہر ہوئی تو مجھ جیسے لوگوں کی آنکھیں ‘اتنی دولت کو ایک ہی نظر دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ گئیں۔بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ‘ مشتاق رئیسانی کو ان کے دفتر سے گرفتار کر کے نیب کے ہیڈ کوارٹر منتقل کیا گیا۔ گھر پر چھاپہ مارا تو پاکستانی عوام جن کی اکثریت نے کبھی ایک دو لاکھ کی رقم اکٹھی نہیں دیکھی ہو گی‘ دولت کے انبار دیکھ کر‘ہکے بکے رہ گئے۔یہ وہی روپیہ ہے ‘جسے وہ دن رات کی محنت سے پیدا کرتے رہے ۔ پیداواری مراکز کے ایک بنے بنائے نظام کے ذریعے ‘ محنت کے سارے ثمرات ‘چند ہاتھوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔یہ ارتکازِ دولت کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔برآمد شدہ سرمائے میں ڈالرز‘ پائونڈز اور ریال‘ بھاری تعداد میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ کروڑوں روپے کا سونا بھی موجود تھا۔ مجموعی طور پر اس دولت کا ابتدائی تخمینہ73کروڑ روپے لگایا گیا لیکن برآمدگی پاکستانی اہلکاروں نے کی تھی‘یہ دولت گنتے گنتے ان کے ہاتھ بھی کچھ میلے ہوئے اور برآمد شدہ رقم سمٹ کر63کروڑ روپے پر آگئی۔ اب میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ باقی ماندہ رقم اپنی منزلوں تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گی۔ میں نہیں جانتا کون سے دفتری دائو پیچ لگیں اور یہ رقم کھلے راستوں سے باہر جا کر‘ کسی بڑے خزانے کے سمندر میں جا کر گھل جائے اور ہمیں اس کا پتہ بھی نہ چلے ۔ ہم اسے ڈھونڈتے رہ جائیں ۔ میرا خیال ہے یہ اندازہ بھی درست نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اس خزانے کو ڈھونڈ لیں مگردیکھتے ہی رہ جائیں۔ہماری قسمت میں ڈھونڈنا اور دیکھنا ہے۔ ہمارے کھربوں روپے کے خزانے ‘بیرونی دنیا میں نجانے کہاں کہاں پڑے ہیں؟ ہم صرف پانامہ لیکس کے گرد ہی گھوم رہے ہیں(رانا ثنا اللہ کو پاجامہ لیکس بہت پسند ہے۔ شاید انہوں نے سوچا نہیں کہ پاجامے میں کیا لیک ہوتا ہے؟)کبھی کبھی سوئٹزرلینڈ کا نام آجاتا ہے۔ ہانگ کانگ‘ دبئی‘ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ سپین‘ کینیڈا‘ملائشیا اور نجانے ہم سے لوٹی گئی دولت کہاں کہاں چھپائی گئی ؟ اور اب تو چھپانے کی روایت بھی ختم ہو رہی ہے۔ ہم اس خوش نصیب نسل سے تعلق رکھتے ہیں جسے چھپائے گئے خزانوں کوجاننے کا موقع ملا ۔یہ خزانہ بھی ہمارے علم میں نہ آتا۔ اس کا سراغ چند صحافیوں‘ دانشوروں‘ محققوں اور سراغ رسانوں نے لگایا اور آج ہی پڑھنے میں آیا ہے کہ جستجو کرنے والے ایک یورپی محقق نے ‘پانامہ میں پڑے خفیہ خزانوں کی تفصیل حاصل کر لی ہے اور اس نے اعلان کیا ہے کہ وہ دولت کو یوں چند ہاتھوں میںسمٹتے ہوئے نہیں دیکھ پا رہا۔اس کا خیال ہے کہ دولت کا ایساارتکاز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ دولت تقسیم ہو جائے تو اچھا ہے۔ چنانچہ اس نے دعوی کیا ہے کہ وہ بہت جلد مختلف ملکوں اور قوموں کی جیبوں سے‘ چرائے ہوئے سرمائے کے بارے میں ساری سچائی‘ پوری تفصیل کے ساتھ منظر عام پر لائے گا تاکہ دولت ‘ضرورت مند ہاتھوں تک پہنچ جائے۔ دیکھتے ہیں یہ خوش نما منظر کب دیکھنے میں آئے گا؟
میرے پاکستانی بھائی خاطر جمع رکھیں کہ نائیجیریا‘سوڈان اور صومالیہ کے بھوکے لوگوں تک تو ان کے حصے کے دوچار لقمے پہنچ جائیں گے لیکن پاکستانی عوام کی زندگی کا سارا حساب کتاب پہلے سے طے شدہ ہے۔کسان صرف غذائیں پیدا کر ے گا اور بنی بنائی اقتصادی مشینری کے ذریعے‘ اس کی پیداوار کا بڑا حصہ ‘سرمایہ داروں کے بینک اکائونٹس میں جمع ہو جائے گا۔یہ سرمایہ ایسی راہوں سے گزرتا ہوا جمع ہو گا‘ جو ہر طرف کھلی ہیں لیکن پاکستان کی حکومت اورعوام ‘اسے دیکھنے میں ناکام رہیں گے۔سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خرابی خود سرمایہ ہے‘جو ایک مرض کے مانند ہے۔بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس مرض سے بچنے
میں کامیاب رہتے ہیں۔ہمارے عبدالستار ایدھی ایسے کامیاب لوگوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی جمع پونجی ضرورت مند خلق خدا کے لئے خرچ کر نے کے بعد‘ ان لوگوں سے پیسہ لے کر جمع کرنا شروع کیا‘ جنہیں سرمائے کا مرض پوری طرح لاحق نہیں ہوا تھا۔ ان کے دلوں میں خوف خدا تھا لیکن ابھی تک ان میں انسانیت اور خدا ترسی کا جذبہ اس حد تک موجود تھا کہ پکارے جانے پر ‘اس کے اندر کی انسانیت آنکھ کھول لیتی ہے اور وہ اپنے پیسے کو ایسے ہاتھوںمنتقل کر دیتے ہیں‘ جہاں سے وہ ضرورت مندوں‘ بیماروں‘ بھوکوں اور بے گھروں تک پہنچ جاتا ہے۔ مہذب ملکوں میں حکومتیں ٹیکس جمع کر کے‘ معاشرے کے محروم طبقوں کی مدد کر دیتی ہیں۔ ایسے ان گنت ممالک موجود ہیں جہاں ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کمزور‘ محروم اور پسے ہوئے لوگوں تک پہنچا ئی جاتی ہے۔ا ن کی گنتی کی جائے تو بہت کم ہے۔سارے دولت مند ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ لیکن پھر بھی ایسے ملکوں کی تعداد کم نہیں جہاں غریبوں‘ لاچاروں اور ضرورت مندوں کی زندگی آسان کرنے کے لئے فنڈز رکھ لئے جاتے ہیں۔برطانیہ میں آج بھی بوسیدہ ہونے والے گھروں کو حکومت فنڈز دے کر‘ ان کی تعمیر نو کر دیتی ہے۔ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں ایسی پرانی آبادیاں موجود ہیں اور جہاں کے گھر رہائش کے قابل نہیں رہ گئے‘ چھتیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں‘ کھڑکیاں دروازے ٹوٹ گئے ہیں‘ فرش اکھڑچکے ہیں اور ان میں رہنے والے بیچارے غریب مرمت کے متحمل نہیں ہو سکتے‘ وہاں حکومتوں نے جائزہ رپورٹیں مرتب کر کے‘ یا تو خود تعمیر نو کی ذمہ داریاں اٹھائیں یاساتھی ملکوں سے رقوم لے کر یہ فرض نبھایا۔
میں چند سال پہلے اپنے ایک دوست سے ملنے برطانیہ کے شہر ڈون کاسٹر گیا۔ اس شہر کا ایک بہت بڑا حصہ خستہ حال مکانو ں پر مشتمل تھا۔چند سال بعد‘ میں دوبارہ دوست سے ملنے وہیں گیا تو گلیاں اور محلے پہچان میں نہیں آرہے تھے۔مجھے حیرت زدہ دیکھ کر‘ میرے دوست نے بتایا کہ برطانیہ ہر چند ‘یورپی یونین میں شامل نہیں لیکن یورپی یونین کو فنڈز‘ بہت بڑی تعداد میں دستیاب ہیں لہٰذا فلاحی کاموں میں یورپی یونین کے فنڈز‘ برطانیہ کے اندر بھی استعمال کئے گئے۔یہ شہر جو چند سال پہلے آسیب زدہ لگتا تھا‘ آج وہ برطانیہ کے دوسرے ترقی یافتہ شہروں کے برابر آچکا ہے۔اس طرح کے امدادی کام یورپی یونین کے ہر رکن کے حصے میں آگئے ہیں لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ ہماری طرح کے کئی تہی دست ملک‘ یونین کے رکن بنے۔ ان کی غریبی اور تنگ دستی کا عالم یہ ہے ع
تن ہمہ داغ داغ شد‘ پنبہ کجا کجا نہم
یورپی یونین کے فنڈز بھی ‘ان نئے ضرورت مندوں کے سامنے‘ تھوڑے پڑ گئے ہیں۔
ہمارا خطہ غریب پیدا کرنے میں بہت امیر ہے۔بھارت‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ برما‘ بھوٹان‘ افغانستا ن اورساراشرق اوسط‘ غریبی کے دبائو سے پھٹا پڑ رہا ہے۔غریبی اڑتی دھول کی طرح پھیل جاتی ہے۔ اس کا شکار ہونے والے زمین پر رینگتے یا فضائوں میں اڑتے اڑتے ضائع ہو جاتے ہیں۔ صومالیہ کے بعد‘ بھارت میں ایسے علاقے موجود ہیں‘ جہاں غریب کے لئے روٹی‘ رہائش‘ کھانا پینا اور بچوں کو تعلیم دلوانا‘ قریب قریب نا ممکن ہے۔ ہم باقی شعبوں میں بھارت سے مقابلے میں لگے رہتے ہیں لیکن اگر ہم غریبی اور بھوک میں بھارت کا مقابلہ کریں تو اس سے ہار نہیں سکتے۔گزشتہ چارعشروں میں پاکستانی غریبی نے اتنے انڈے بچے دئیے ہیں کہ ہم نے بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دوسرے شعبوں میں جو بھی صورت حال ہے‘ وہ اپنی جگہ لیکن غریبوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے معاملے میں ‘ہم بلا شک و شبہ بھارت کو پیچھے چھوڑتے چلے آرہے ہیں۔ ہمارا سماجی نظام اتنا متحرک اور طاقتور نہیں کہ ہماری معیشت کے کان میں گھس کر‘ پنجے گاڑنے والے کن کھجورے کو نکالے جا سکیں۔ساری دنیا کے کانوں سے کن کھجورے نکل جائیں گے لیکن ہماری تڑپ اور بلبلاہٹ ہمارے ساتھ رہے گی۔وہ ایک جھلک نوٹوں کی‘ جسے میں نے ٹی وی کیمروں کے ذریعے دیکھا میں صرف دیکھتا رہ گیا۔ غریبوں کے حصے کے یہ نوٹ‘ جو سسٹم کے ذریعے سمٹ کر چند ہاتھوں میں جمع ہوتے جا رہے ہیں وہ کسی نہ کسی دن کھلے راستوں سے گزرتے ہوئے‘ پانامہ پہنچ جائیں گے۔کوئٹہ میں چھوٹا سا پاکستانی پانامہ بھی‘ اصل پانامہ کی طرح ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا۔یہ چپکے سے سرک کر غائب ہو جائے گا اور جب پانامہ میں نمودار ہو گا تو ہماری پہنچ سے باہر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ٹی وی کیمروں کے ذریعے‘ مجھے پاکستان کا چھوٹا سا پانامہ دیکھنے کی توفیق حاصل ہو گئی اور مزید شکر یہ ہے کہ مجھے اپنے وزیراعظم کے ان خوش نصیب بچوں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے‘ جو الحمدللہ پانامہ کی آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ہر کسی کو آف شور کمپنیوں کے مالک دیکھنے کا موقع کہاں ملتا ہے؟آخر میں ایک ملزم کا یہ مطالبہ کہ جب میرے خلاف انکوائری ہونا ہے تو میں استعفیٰ کیوں دوں؟