''چل چل چمیلی باغ میں‘ میوہ کھلائوں گا‘‘۔ یہ ایک فلمی گانا تھا‘ جو میں اپنے بچپن میں ساتھیوں سمیت گنگنایا کرتا۔ اب چمیلی باغ تو نہیں رہے‘ کمیٹیاں ہیں اور حکومتیں‘ اپوزیشن کو گھیرنے کے لئے ایک لفظ بدل کے‘ یہ گیت سناتی ہیں ''چل چل کمیٹی باغ میں‘‘۔ پاکستان کی ہر حکومت‘ اپوزیشن کو گھیرنے کے لئے ایک مذاکراتی کمیٹی بناتی ہے اور یقین دلاتی ہے کہ اس کمیٹی میں بات چیت کر کے‘ قابل قبول مطالبات تسلیم کر لئے جائیں گے۔ اس کے بعد مذاکرات ہی مذاکرات۔ تھکن‘ بیزاری اور پھر چل سو چل۔ پاناما پیپرز کے منظر عام پر آتے ہی دنیا بھر کے کرپٹ اور مشکوک ارباب اقتدار اور بااختیار افراد کی ایک فہرست قسط وار شائع ہو رہی ہے۔ جس میں بتایا جاتا ہے کہ کونسی بااثر اور بااختیار شخصیت کا پیسہ آف شور کمپنیوں میں جمع ہے؟ یہ کمپنیاں ٹیکس اور مالیاتی چھان بین سے آزاد ہوتی ہیں۔ عام طور پر اپنے اپنے ملک کے ٹیکسوں سے بچا کر جمع کئے گئے پیسے‘ ان کمپنیوں کے سپرد کر دیئے جاتے ہیں‘ جہاں کوئی بھی حکومت ان کی چھان بین نہیں کر سکتی۔ ان کمپنیوں کی خدمات سے مختلف مقاصد رکھنے والے لوگ حسب ضرورت فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس وقت میرے سامنے دو مثالیں ہیں۔ ایک مثال عمران خان کی ہے اور دوسری پاکستانی حکمرانوں کی۔ عمران خان نے انگلینڈ میں کرکٹ سے جو پیسہ کما کر جمع کیا تھا‘ اس سے ایک فلیٹ خریدنے کا پروگرام بنایا۔ میری معلومات کے مطابق انگلینڈ میں دو طرح کے ٹیکس ہوتے ہیں۔ ایک وہ ٹیکس جو وہاں پر کمائی گئی آمدنی پر لگتا ہے اور دوسرا جائیدادوں کی خرید و فروخت پر۔ عمران ایک غیر ملکی شہری کی حیثیت میں رہائشی فلیٹ لینا چاہتا تھا۔ اس نے ایک ایجنٹ سے انتظام کرنے کے لئے کہا۔ ایجنٹ نے اسے بتایا کہ آپ برطانیہ کے شہری نہیں۔ اس لئے بہتر ہے‘ آف شور کمپنی بنا کر‘ اس کے نام پر فلیٹ خرید لیں۔ اس طرح آپ مقامی ٹیکس دینے سے بچ جائیں گے۔ یہ رعایت قانون کے مطابق ہے۔ اگر آپ کو یہاں قیام نہیں کرنا‘ تو اس رعایت کا فائدہ اٹھائیں‘ جو غیرملکیوں کو حاصل ہے۔ یہ ہے وہ فائدہ جو عمران خان نے اٹھایا۔ فلیٹ لینے کے بعد جو بھی رقم بچی‘ وہ ساری کی ساری پاکستان بھیج دی گئی۔ اس پوری ڈیل میں ہر چیز برطانوی اور پاکستانی قوانین کے مطابق ہے۔ لیکن جو دوسرے سیاستدان‘ پاناما سیکنڈل میں ملوث ہیں‘ ان کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ بطور وزیر اعظم جناب نواز شریف کی ذمہ داریاں عام شہریوں سے مختلف ہیں۔ مثلاً ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہونے کی حیثیت میں‘ ان کا کردار مثالی ہونا چاہیے۔ ان کے اہل خاندان ملک کی فرسٹ فیملی ہونے کے باعث منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ مثلاً وہ!‘ وزیر اعظم کا خاندان ہونے کی وجہ سے سرکاری طیاروں پر مفت سفر کر سکتے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں وزیراعظم کی بیگم کوخاتون اول کی حیثیت حاصل ہے۔ جس کی انہیں باقاعدہ پروٹوکول ملتی ہے۔ بیٹوں اور بیٹیوں کو وزیر اعظم کے خصوصی جہاز میں سفر کرنے کا حق حاصل ہے۔ پروٹوکول میں فرسٹ فیملی کے تمام ممبروں کو‘ خصوصی مراعات حاصل ہیں۔ خاندان کے جو افراد‘ وزیر اعظم سے نسبت کی بنیاد پر اعلیٰ درجے کی پروٹوکول لیتے ہیں‘ ان ساری مراعات کے عوض ان پر ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ حالیہ انکشافات سے ظاہر ہوا کہ وزیر اعظم کے بیٹے کچھ نہ کچھ امتیازی مراعات حاصل کرتے رہے ہیں۔ خصوصاً ان کی صاحبزادی مریم نواز کا معاملہ تو بالکل واضح ہے۔ انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں خود تسلیم کیا کہ ان کی کوئی ذاتی جائیداد نہیں۔ ان کی کفالت والد کرتے ہیں۔ لیکن بعد کے انٹرویوز میں انہوں نے تسلیم کیا کہ کچھ پراپرٹیز ان کی ملکیت ہیں‘ جن کا فائدہ براہ راست وہ اٹھاتی ہیں۔ اسی طرح مے فیئر فلیٹس کی خریداری کی تاریخیں بھی یکساں نہیں۔ خاندان کے افراد میں سے کسی نے خریداری کی تاریخ کوئی بتائی اور کسی نے کچھ۔ اگر ان ساری چیزوں کو ملا کر دیکھا جائے‘ تو پاکستان کے وزیر اعظم سچ چھپانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اصولی طور پر انہیں حقائق علم میں آنے پر‘ ازخود اپنی غلطی کا اعتراف کر کے‘ فیصلے کا اختیار عوام یا عدالت عظمیٰ کو دے دینا چاہیے تھا تاکہ عدالت پورا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کرتی کہ کیا انہوں نے دانستہ غلط بیانی کی تھی یا بے خبری میں ایسا کر بیٹھے؟ یہ فیصلہ بھی عدالت دے سکتی تھی کہ دانستہ جھوٹ کی صورت میں وزیراعظم کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ اور غیر دانستہ غلط بیانی پر انہیں کیا رعایت مل سکتی ہے؟ وزیر اعظم اس واقعے پر کیسی رعایت اورکیسی سزا کے مستحق ہو سکتے تھے؟ یہاں پر ان کی ذمہ داریوں کا بڑا حصہ ختم ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف وزیر اعظم کے مخالفین اپنا موقع گنوا بیٹھے ہیں۔ وزیر اعظم نے جب پہلی مرتبہ قوم سے خطاب میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے غلط بیانی سے کام لیا‘ تو مخالفین کو کسی ایک نکتے پر اصرار کر کے‘ وزیر اعظم کے لئے سزا اور جزا کا فیصلہ کر لینا چاہیے تھا۔ یہ دونوں کام عدالت عظمیٰ یا پارلیمنٹ میں ہو سکتے تھے۔ لیکن مخالفین موقع محل کا فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ جب پاناما سکینڈل پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا‘ تو سپیکر اور قائد حزب اختلاف نے مل کر مقررین کی تقریروں کا وقت مقرر کیا۔ اس ترتیب کے مطابق سب سے پہلے وزیر اعظم کو خطاب کرنا تھا۔ ان کے بعد قائد حزب اختلاف کو اور ان کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین کو۔ پہلے دن شام کا سیشن رکھا گیا۔ اس سیشن کی ابتداء وزیر اعظم کی تقریر سے ہوئی۔ جس کے بعد قائد حزب اختلاف کو بولنا تھا اور ان کے بعد عمران خان کو۔ مخالفین اسی پروگرام کے انتظار میں تھے۔ وزیراعظم اپنی باری کے مطابق بولے۔ ان کے بعد قائد حزب اختلاف کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کھڑے ہوتے ہی چند جملوں میں اپنی تقریر لپیٹی اور واک آئوٹ کر گئے۔ اپوزیشن کے سبھی لوگ حیرت زدہ تھے۔ اس اچانک واک آئوٹ پر وہ ‘عالم حیرت میں باہر چلے گئے۔ خصوصاً عمران خان جو وزیر اعظم کے سامنے تقریر کرنا چاہتے تھے۔ ہڑبڑاہٹ میں انہیں بھی واک آئوٹ کرنا پڑا۔ دونوں لیڈروں کا آمنا سامنا ہونے سے بچ گیا اور وہ جو کہتے ہیںکہ ''ایک لمحہ کام کا اور دوسرا آرام کا۔‘‘ وہ کام کا لمحہ شاہ جی نے‘ انتہائی مہارت اور چابک دستی سے نکال دیا۔ اگلے دن عمران خان کو کھلا وقت دے کر کہا گیا کہ اب جتنا چاہو بول لو۔ وزیر اعظم ایوان میں موجود نہیں تھے۔ عمران خان جی بھر کے بولے۔ لیکن ان کا یہ خطاب صدا بہ صحرا تھا۔ حاضرین کی اکثریت حکومتی پارٹی تھی۔ مخالفین کے سامنے تقریر کرنا‘ صحرا میں اذان دینے کے مترادف تھا۔ مخالف کیمپ کے حامیوں کو ایک تقریر سے متاثر نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان کی تقریر صرف قائد ایوان کے لئے تھی۔ قائد حزب اختلاف نے قائد ایوان کو پوری طرح‘ عمران کی تقریر سے بچا لیا۔ پہلے دن خان صاحب کو اپنے مقررہ وقت پر بولنے کا موقع مل جاتا‘ تو صورتحال مختلف ہوتی۔ یہ موقع نکل گیا‘ تو صورتحال بھی بدل گئی۔ اگلے دن وزیراعظم نے اپنا سارا لشکر ایوان میں اکٹھا کر کے‘ شاہ صاحب کو پیغام بھیجا کہ اب آپ اطمینان سے بول سکتے ہیں۔ شاہ صاحب نے اطمینان سے تقریر کی۔ لیکن جو موقع عمران خان حاصل کرنا چاہتے تھے‘ وہ شاہ صاحب نے ہاتھ سے نکال دیا۔ یہ گیم انتہائی کامیابی سے کھیلی گئی۔ اب ایوان کے اندر خان صاحب جتنی چاہیں تقریریں کرتے رہیں‘ وہ موقع دوبارہ نہیں آئے گا۔ کیونکہ اسی اثنا میں حکومت کا نوٹنکی گروپ‘ من گھڑت کہانیوں کے عمران خان کو گھیرے میں لے چکا تھا۔ چڑیا بھی دھوپ میں پیاس کی شدت سے بیہوش ہوتی‘ تو یہ نوٹنکی گروپ ٹھمکے لگا لگا کے عمران کے نام پر بین کرنے لگتا کہ ''یہ چڑیا عمران خان کی وجہ سے مری۔ وہ ایک بے گناہ پرندے کا قاتل ہے۔وغیرہ وغیرہ۔‘‘ عمران خان کو سیاست میں ایک لمبی اننگز کھیلنا ہو گی۔ صرف
عوامی طاقت کچھ نہیں ہو تی۔ اس کے استعمال سے واقعات کا رخ اپنے حق میں کرنا اور نتائج لینا‘ قیادت کی صلاحیتوں اور مہارتوں پر منحصر ہے۔ اس وقت کوئی عوامی تحریک موجود نہیں۔ صرف حالات سازگار ہیں۔ سازگار حالات کا وقت ‘ہاتھ سے نکل گیا۔ اب دوسرے موقع کا انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ انتظار کب طویل ہو کر‘ وقت کے دائرے سے نکل جاتا ہے؟ اور کب وقت کے دائرے کے اندر رہ کر نتائج پیدا کرتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لئے طویل انتظار کرنا ہو گا۔ فی الحال تو ''چل چل کمیٹی باغ میں‘‘ کہہ کر ایک کمیٹی بٹھا دی گئی ہے۔