حزب اختلاف کے سارے نہیں تو بیشتر ندی نالے ایک ہی سمت میں بہتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ سب سے پہلے باقاعدہ تاریخ طے کر کے‘ جماعت اسلامی نے اپنی منزل کا تعین کر لیا ہے۔ یہ ایک پرانی‘ تجربہ کار اور احتجاجی حربوں پر عبور رکھنے والی جماعت ہے۔حکومت مخالف جماعتوں میںدیگر قابل ذکر پارٹیاں ایسی ہیں جو احتجاجی تحریکوں کا زیادہ تجربہ نہیں رکھتیں۔ پارٹی کے اعتبار سے پیپلزپارٹی یقینا کہنہ مشق ہے مگر اس کی موجودہ قیادت کو سیاسی جدوجہد کا تجربہ نہیں۔ موجودہ چیئرمین بلاول بھٹوپرعزم اور زوردار سیاسی کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن ابھی باپ بیٹے کے درمیان خیالات کی یکجائی موجود نہیں۔ بلاول کوئی قدم اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہیں‘ تو انہیں والد کی طرف سے روک دیا جاتا ہے اور والد صاحب کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اس کا تو شاید بلاول بھٹو کو بھی علم نہیں ہوتا۔ باپ بیٹے کے مشترکہ سیاسی عمل کا بھی یہ پہلا تجربہ ہے۔ زرداری صاحب نے جیلیں یقینا کاٹی ہیں اور ان پر الزامات بھی فوجداری نوعیت کے تھے۔ انہیں عام نوعیت کے مقدمات میں جیلیں کاٹنا پڑیں ۔ قواعد و ضوابط کی رو سے ان کی قید باضابطہ نہیں تھی۔ انہوں نے قید کا سارا عرصہ حوالاتی کی حیثیت میں گزارا۔ جیل سے باہر آ کر ان کا سیاسی تجربہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد شروع ہوا اور اس کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی طوفان کے ریلے پر سوار ہو کروہ ایوان اقتدار میں داخل ہو گئے۔ وہاں پانچ سال رہ کر وہ سہمی سہمی سیاست کرتے رہے۔ لیکن بند دروازوں کے پیچھے عہدیداروں کو جمع کر کے سیاست نہیں کی جا سکتی۔ یہی ان کے ساتھ ہوا اور پانچ سال اقتدار میں گزارنے کے بعد وہ سیاسی میدان میں اترے‘ تو انتخابی نتائج نے ظاہر کر دیا کہ غیرسیاسی عہدہ لے کر‘ سیاست نہیں کی جا سکتی۔ حالانکہ ان کی پارٹی کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ پنجاب میں اپوزیشن کی حیثیت میں رہتے ہوئے برسرا قتدار پارٹی کے خلاف جدوجہد کر کے اپنے عوامی رابطے مضبوط کر سکتی تھی اور انتخابات میں اگر اکثریت نہیں‘ تو معقول نشستوں پر یقینا کامیاب ہو سکتی تھی۔ لیکن زرداری صاحب نے شدید عدالتی دبائو میں رہ کر جو سہمی ہوئی سیاست کی‘ عام انتخابات میں اس کے اثرات سامنے آ گئے اور پیپلزپارٹی پنجاب میں بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی۔
ریاستی اداروں سے ٹکر لے کر انہوں نے سہمی ہوئی سیاست کا جو تجربہ کیا‘ اس میں وہ آج بھی الجھے ہوئے ہیں۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کا نعرہ لگا کر زرداری صاحب نے عوامی سیاست کا جو نیا قدم اٹھایا‘ اس کے نتیجے میں بھی وہ خود اختیار کردہ جلاوطنی میں جا کر سہمی ہوئی سیاست کر رہے ہیں۔ ابھی تک تو ان کے حامی‘ کارکنوںکو دلاسے دے رہے تھے کہ زرداری صاحب کے معاملات درست ہو رہے ہیں اور وہ جلد ہی واپس آ جائیں گے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ معاملات ابھی طے نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے‘ خبر جاری کی گئی کہ زرداری صاحب کارکنوں کے مطالبے پر فی الحال وطن و اپس نہیں آ رہے۔ اس سے لگتا ہے کہ زرداری صاحب کے حالات بھی زیادہ اچھے نہیں۔ وزیراعظم نوازشریف گزشتہ چند دنوں کے دوران اچانک ایسے دو بحرانوں کی زد میں آ گئے‘ جو ان کے وہم و گمان میں نہیں تھے۔ پاناما لیکس کی خبریں ایک دھماکے کی طرح سامنے آئیں اور اب اس کے بارودی ٹکڑے یکے بعد دیگرے پھٹ رہے ہیں۔ انہی دنوں‘ انہیں عارضہ قلب کی شکایت ہوئی۔ نوازشریف کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ بیماری وقت کے ساتھ ساتھ خطرناک ہوتی جائے گی۔ ابتداء میں صرف انہیں شک تھا کہ وہ عارضہ
قلب کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستانی ڈاکٹروں نے جب انہیں بتایا کہ وہ تسلی رکھیں‘ وہ دل کے عارضے سے محفوظ ہیں۔ ان کا شک دور نہ ہوا اور وہ دل کے علاج کے لئے لندن روانہ ہو گئے۔ وہاں سے خبریں دینے کی ذمہ داری صرف ان کے بیٹوں اور بیٹی نے سنبھالی۔ یہاں تک کہ ڈاکٹروں کی طرف سے بھی کسی طرح کی معلومات ظاہر نہیں کی گئیں اور وہ مطمئن ہو کر پاکستان واپس آ گئے۔پھر اچانک فیصلہ ہوا کہ وزیراعظم دوبارہ طبی معائنے کے لئے لندن جا رہے ہیں۔بتایا گیا کہ وہ دوبارہ اسی ہسپتال میں چیک اپ کے لئے داخل ہو گئے ہیں۔ جلد ہی خبر آ گئی کہ وزیراعظم کا آپریشن کیا جائے گا۔ اس کے بعد چند مبہم سی خبریں آتی رہیں‘ جن سے کچھ واضح نہیں ہو رہا تھا۔ تھوڑا سا وقت گزرنے کے بعد جناب شہبازشریف کا بیان سامنے آیا کہ وزیراعظم کے چار بائی پاس کئے گئے ہیں اور وہ بفضل خدا رو بصحت ہیں۔ وزیراعظم اور ان کے اہل خاندان نے خدا کا شکر ادا کیا۔ وزیراعظم نے سیر کے ساتھ ساتھ ملاقاتیں بھی شروع کر دیں۔ لیکن زیادہ تر وہ دفتری نوعیت کی تھیں۔ پہلی سیاسی سرگرمی کے لئے جو خبر نمایاں طور پر شائع کرائی گئی‘ اس میں بتایا گیا تھا کہ انتہائی اہم امور پر بات چیت کے لئے پرویزرشید اور طارق فاطمی کو لندن بلا لیا گیا ہے اور گزشتہ روز خبر آئی کہ اس ملاقات میں پاکستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ جناب وزیراعظم کو یا تو موجودہ صورتحال کی پیچیدگی سے آگاہ نہیں رکھا گیا یا وہ
حالات پر قابو پانے کے لئے مناسب تدبیر نہیں کر رہے۔کیونکہ پارٹی کے جن دو اہلکاروں کو بطور خاص لندن بلایا گیا‘ وہ مسلم لیگ (ن) کے اندر کوئی سیاسی پوزیشن نہیں رکھتے۔ پرویزرشید ‘ شریف برادران کے ذاتی عملے کا حصہ تھے اور طارق فاطمی ‘ الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والے مباحثوں میں کارکردگی دکھایا کرتے تھے۔ ظاہر ہے‘ یہ دونوں ذمہ داریاں غیرسیاسی تھیں۔ حکومت بننے کے بعد انہیں اعلیٰ عہدے ضرور دے دیئے گئے۔ مگر عملی سیاست سے یہ الگ تھلگ ہی تھے۔ پارٹی کے جو عہدیدار سیاسی ستون کی پوزیشن رکھتے ہیں‘ ان میں اسحق ڈار‘ خواجہ آصف‘ عابد شیر علی خواجہ سعد رفیق ‘ چوہدری نثار علی خاں‘ شہبازشریف ‘ حنیف عباسی‘ خرم دستگیر‘ رانا ثناء اللہ اور راجہ اشفاق سرورقابل ذکر ہیں۔ میںپارٹی کے اندر قابل ذکر پوزیشن رکھنے والے دیگر کئی رہنمائوں کا ذکر نہیں کر سکا۔ لیکن کوئی بھی سیاسی پارٹی جو اقتدار کے مقابلے میں پیش پیش ہو‘ وہ اپنے مضبوط سیاسی لیڈروں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ بحران کے زمانے میں ایسے ہی مضبوط کارکنوں سے سیاسی مشاورت کی جاتی ہے۔ لیکن وزیراعظم نے جو مشاورت کی‘ اس سے اندازہ ہوا کہ وہ ٹھوس سیاسی تبدیلیوں سے دور رہنے کی وجہ سے معاملات کو پوری طرح سمجھ نہیں پا رہے۔ برسراقتدار پارٹی کے سربراہ کی عارضی بے عملی کو دیکھتے ہوئے‘ اپوزیشن جارحانہ اقدامات کی تیاریاں کر رہی ہے۔ سب سے موثر اور منظم اپوزیشن پارٹی تحریک انصاف ہے۔ اگر موازنہ کر کے دیکھا جائے‘ تو عوامی تائید و حمایت کے معاملے میں تحریک انصاف ہی حکمران پارٹی سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہے۔ جو بھی احتجاجی تحریک چلے گی(اگر چلی تو) اس میں قائدانہ کردار عمران خان ہی ادا کریں گے۔ تجربہ کار اور آزمودہ سیاسی کارکنوں کی سب سے بڑی کھیپ پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ لیکن میں اس کی قیادت کے بارے میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں ۔ اس کی صف اول کی قیادت احتجاجی تحریک کی رہنمائی سے قاصر نظر آتی ہے۔ وہ ابھی تک تذبذب کا شکار ہے۔ یہ اندازہ کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ جناب زرداری اور بلاول بھٹو ‘ حکومت کے خلاف دلیرانہ جدوجہد میں کتنا حصہ لے سکیں گے؟ ایسی صورت میں پارٹی کی درمیانی قیادت اور متحرک کارکن‘ احتجاجی تحریک سے علیحدہ نہیں رہ پائیں گے۔ ان کے سامنے دو ہی راستے ہوں گے۔ یا حکمران جماعت کے لیڈروں اور کارکنوں کی طرح گھر بیٹھے رہیں یا احتجاجی تحریک کی مخالفت کریں۔ ظاہر ہے‘ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ احتجاجی تحریک کا جو بھی طوفان اٹھے گا‘ اس کی سربراہی از خود عمران خان کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔حزب اختلاف کے سارے نہیں تو بیشتر ندی نالے ایک ہی سمت میں بہتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ کسی جھیل کے ٹھہرے پانیوں کا حصہ بنیں گے؟ یا تبدیلی کا طوفان برپا کریں گے؟