"NNC" (space) message & send to 7575

کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا

6ستمبر پاکستان کے عظیم فرزندوں کی شہادتوں کا دن ہے۔جسے قوم ہر سال عزت و احترام کے ساتھ مناتی ہے۔جسا کو شہادت کے لئے یہ دن میسر آجائے‘ اس کی خوش نصیبی پر رشک کرنا چاہئے اور جسے خدا نے یہ موقع دیا ہواور وہ اس سے بچنے کے لئے ہاتھ پائوں مارتا پھرے تو یہی دعا کرنا چاہئے کہ جو اللہ تعالیٰ بہتر سمجھے‘ اس کی قسمت میں وہی کچھ لکھ دیا جائے۔آج پاکستان کے وزیردفاع کی سیاسی شہادت کا دن مقرر ہے۔ کئی بار دوسرے دن بھی مقرر کئے گئے۔ قربانی کا یہ مال حیلے بہانوں اور چال بازیوں سے بچ نکلا اور ابھی تک بچتا چلا آرہا ہے۔وزیر موصوف کے خیر خواہ ظاہر ہے دعا کر رہے ہوں گے کہ یہ رتبہ انہیں نصیب ہو جائے مگر وزیر دفاع کی کوشش ہے کہ کوئی نہ کوئی ترکیب لڑا کر‘ وہ سیاسی شہادت سے پھر بچ نکلیں۔ہم تو اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ صرف دعا ہے۔ وہ آج کے6ستمبر سے‘ فیض یاب ہو جائیں یا کوئی اور دن اپنی سیاسی شہادت کے لئے منتخب کر لیں لیکن جو کمپنی خواجہ آصف نے اپنے لئے چن رکھی ہے‘ اس میں شامل ہونے والا کوئی شخص‘ اس قابل دکھائی نہیں دیتا‘جس کے نصیب میں یہ سعادت لکھی ہو۔ کہتے ہیں کہ عیبی بکرے کی قربانی قبول نہیں ہوتی۔ وزیر موصوف کی ٹولی میں کوئی بکرا‘ دنبہ اوربھیڈوں ایسا نہیں‘ جسے قربان ہونے کا رتبہ نصیب ہو۔قدرت کا بھی کیا نظام ہے؟ موجودہ حکمران خاندان کے بانی نے عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو حرام کا رزق نہیں کھانے دیں گے۔ رب کی شان ہے کہ آگے ان کی اولاد نے‘ سب کچھ الٹا کے رکھ دیا۔انہوں نے اپنی جھولی بڑی کرکے‘ بے تحاشا بھر دی ہے کہ اس میں رزق حلال کی گنجائش ہی باقی نہیں رہ گئی۔
حلال و حرام کا فلسفہ میری سمجھ میں تو کبھی آیا نہیں۔صرف اتنا جانتا ہوںکہ میرا اور میرے بچوں کے پیٹ اتنے چھوٹے ہیں کہ چند لقموں میں سیر ہو جاتے ہیں۔پرانے زمانے کے منتخب لوگوں کے پیٹ بھی چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے۔ اسی لئے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین بھی درمیانے درجے کی روٹی کھا کر‘ مطمئن ہو جاتے تھے۔ اب تو عوامی نمائندوں کایہ حال ہے کہ اپنے حلقے کا سارا حصہ خود ہڑپ کر جاتے ہیں۔اس کے بعد بھی مزید مانگتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ پرانے زمانے میں عوام کی ضروریات پر خرچ کر نے کے لئے‘ 80فیصد رقم اپنے حلقے میں خرچ کرنے کے لئے بلدیاتی نمائندوں کے سپرد ہوا کرتی تھی اور وہ خدا کے بندے بھی تمام فنڈز اپنے ووٹروں پر خرچ کر دیا کرتے تھے۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ عوام پر خرچ ہونے والا روپیہ ان کے پاس بھی آسکتا ہے۔ وہ اس کام کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔اپنا مقام یہ سمجھتے تھے کہ عوام اور ملک و قوم کے معاملات چلانے کے لئے قانون سازی پر ہی قناعت کریں۔اس علمی اور تحقیقی کام میں ‘لوٹ کا مال سمیٹنے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی تھی۔ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین میں سے بعض مال و دولت پر ہاتھ مارتے تو کوئی لکڑی کاٹنے کا ٹھیکہ لے لیتا۔کوئی اپنے عزیز کے لئے سرکاری عمارتوں اور سڑکوں کی صفائی اور مرمت کا کام لے لیتا۔پاناما کیا چیز ہے؟ اس کا تو انہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہاں بھنے ہوئے چنے ملتے ہیں یا نہیں۔ کھانے کے بعد منہ میٹھا کرنے کے لئے کھیر اور حلوے کے سوا کوئی اور چیز بھی کھائی جاتی ہے یا نہیں۔منتخب اداروں میں سادھو سنت قسم کے لوگ جایا کرتے تھے۔
میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ جھنگ سے قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہونے والے سیاست دان‘ شیخ سعید ہوا کرتے تھے۔ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے۔ لوگوںکے کام بڑے خلوص اور دل جمعی سے کرتے اور جو ''کام‘‘ آج کل کئے اور کرائے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں تو شیخ صاحب جانتے ہی کچھ نہیں تھے۔اس زمانے کی اسمبلیوں میں بے تحاشا قانون سازی ہوتی تھی۔ دور غلامی کے انتظامی امور‘ آزاد ی کے بعد والے کے زمانے کے لئے تیار کئے جا تے تھے۔ اگر عوام اجتماعی مفادات کے لئے حکومت سے کوئی مسئلہ حل کرنے کے طلب گار ہوتے اوراس میں مشکل پیش آتی تو چند معززین کا وفد اپنے حلقے کے ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی کے پاس جا کر مدعا بیان کر دیتا اور کام ہو جایا کرتا۔ ممبران اسمبلی کے ڈیرے بڑے فراخ اور کھلے ہوتے تھے۔ صحن یا گھر کے ویہڑے میں کرسیاںاور موڑھے بچھا دئیے جاتے تھے۔ جو لوگ بھی اپنے کام کاج کے لئے آتے‘ اپنے لئے کرسی یا موڑھا ڈھونڈ کر بیٹھ جاتے۔ کسی کی حیثیت امتیازی نہیں ہوتی تھی۔ البتہ ممبر حضرات کے رشتے دار یا نجی دوست آجاتے تو اکثر پچھتایا کرتے کیونکہ ممبر صاحب سارے سائلوں کو نمٹانے کے بعد پوچھتے: '' فرمائیے! کیسا آنا ہوا‘‘؟میں دور حاضر کے نوجوانوں یا نئے معززین کو کیسے بتائوں؟کہ لائل پور کے مخدوم نذر حسین‘ میر قیوم‘مہر صادق اور 
جھنگ کے شیخ سعید‘ صف اول کے سیاست دانوں میں ہونے کے باوجود‘ عام آدمی کی زندگی گزارتے۔ اپنے حلقے کے عام لوگوں سے بیرون شہر بھی ان کا رابطہ رہتا۔ وہ انگریز کی چھوڑی ہوئی دنیا تھی ۔ اس میں لاٹ صاحب کے سوا‘ باقی سب عام آدمی ہوتے تھے۔50ء اور60ء کے عشرو ں میں آخری لاٹ صاحب رخصت ہو گئے اور اس کے بعدقومی دولت کی وہ تقسیم ہوئی کہ بلدیاتی نمائندے تو پھونکوں سے اڑا کر غائب کر دئیے گئے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے نمائندوں نے بھی ڈرتے ڈرتے ہاتھ مارنا شروع کیا۔ اب حال یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے342کے ایوان میں‘ حکومت کے اکثریتی ممبران میں سے ‘ایک بھی رکن ایسا نہیں جو اپنے ضمیر کی آواز سنتا ہو۔ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کہ اتنے بڑے ایوان میں پاناما پیپرز کے کھاتے میں لوٹی گئی عوامی دولت کے ڈھیر لگے ہوں اور اپنا پیٹ کاٹ کر ٹیکس دینے والے شہریوں کے لئے اپنے بچوں کو پڑھانا مشکل ہو چکا ہو۔ بیماروں کو دوائیں دستیاب نہ ہوں۔ موٹرویز کے سوا گلیاں اور چھوٹی سڑکیں‘ گڑھوں اور کھڈوں میں دفن ہو گئی ہوں اور انہی عوام کے پیسوں پر‘ بڑے بڑے جہازوں میں‘ صرف ایک خاندان دنیا بھر کے اندر سیر و تفریح کرتا پھر رہا ہو ۔ ''منشیٔ قوم‘‘ دن رات پاناما کے خزانوں میں اضافہ کر رہا ہو۔ اپوزیشن کے لیڈر چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں کہ قوم کو پاناما کا حساب د ے دو اور معزز ایوان میں حکومتی اکثریت میں سے ‘ایک بھی رکن ضمیر کی آواز سن کر‘ ایک سوال بھی کرنے سے قاصر ہو۔مخالفین آہ و بکا کر رہے ہیںکہ عوامی خزانے میں سے تھوڑی سی رقم نکال کر‘ عام آدمی کو معمولی سہولتیں ہی فراہم کر دو۔اب تو یہ شک ظاہر کیا جا رہا ہے کہ خزانوں سے بھری بھری پیٹیاں ‘پاناما سے بھی نقل مکانی کر رہی ہیں۔ ان کی نئی منزل کیا ہو گی؟کوئی مودی کا نام لیتا ہے۔ کوئی را را را کرتا ہے۔پاناما نے ساری پاکستانی قوم کی جیبیں خالی کر دی ہیں۔ ہمارے بینکوں کے پاس سرمایہ کاری کے لئے‘ قرض دینے کو بھی پیسے نہیں رہ گئے۔ دولت کمانے والوں میں جو کوئی پاناما سے نکل کر‘ لندن میں جائیدادیں بناتا ہے‘ اپنی منشا سے ملکوں ملکوں دولت چھپا رہا ہے۔کچھ اینکر زمنہ بند کر رہے ہیں۔ کچھ کھول رہے ہیں۔ایک بھائی پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا رہا ہے۔ دوسرا بھائی پاکستان زندہ باد کا۔لوگ آج کے حکمرانوں کی طرف‘ امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور میں ‘آنے والے حکمرانوں کے لئے ووٹوں کے ڈبے بھرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ یہ کیسا نظام ہے؟ یہ کیسی جمہوریت ہے؟
کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا
میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں