یوں تو ہر بار پاکستان کے نئے فوجی سربراہ کا تقرر ایک معما ہوتا ہے۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ پاکستان میں سیاسی حکومتوں کے تقرر اور ان کی رخصت کے گرد‘ ہمیشہ جالے اور دھندلکے پھیلے ہوتے ہیں۔ حکومتی سربراہ ‘یعنی وزیراعظم کو اپنی پڑی ہوتی ہے اور چیف آف آرمی سٹاف‘ جو سنیارٹی کے اعتبار سے موزوں نظر آتا ہے‘ وہی سب سے زیادہ خطرے میں ہوتا ہے۔ قبل اس کے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم ‘نئے کمانڈر انچیف کا انتخاب کرتے‘ سیاسی سازشیوں نے‘ انہیں ''شہید‘‘ کا درجہ دے کر ‘ دنیا سے رخصت کر دیا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم ‘ ملک و قوم کے لئے اتنے موزوں اور دیانتدار تھے کہ ان کے بعد شہیدملت لیاقت علی خان کی خوبیاں رکھنے والا کوئی لیڈر‘ پاکستانی قوم کو نصیب نہ ہو سکا۔ شہید ملت کو گولی کا نشانہ بھی‘ سازش کے تحت بنایا گیا اور خواجہ ناظم الدین کو بھی سازش کے تحت ہی وزیراعظم بنایا گیا۔ سازش صرف یہ تھی کہ ملک کے اکثریتی صوبے ‘مشرقی پاکستان سے وزیراعظم نہ لیا جائے۔ خواجہ صاحب درویش منش آدمی تھے۔ انہیں جلد ہی سازشوں کے جال میں گھیر کے ‘ایوان اقتدار سے باہر کر دیا گیا اور پھر چل سو چل۔ کوئی قومی اسمبلی غیر متنازعہ نہ آئی اور کوئی نیا کمانڈر انچیف ‘سیاستدانوں کی سازشوں سے محفوظ نہ رہ سکا۔ آج پھر وہی ماحول ہے۔ مگر ایک بہت بڑے فرق کے ساتھ۔ وزیراعظم غیرمتنازعہ نہیں اور چیف آف آرمی سٹاف متنازعہ نہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف ‘مدت ملازمت میں توسیع لینے سے انکار کر چکے ہیں۔ لیکن عوام ان کی رخصت کے خلاف ہیں۔ دیکھئے اس بحر کی تہہ سے نکلتا کیا ہے؟ بی بی سی کے عبداللہ فاروقی نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے۔
''پاکستان کا بااثر اور منظم ترین ادارہ سمجھی جانے والی‘ پاکستانی فوج کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف‘ نومبر کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اْن کی جانشینی کے لیے چند نام گردش میں ہیں جو کہ اِس وقت پاکستانی فوج میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدوں پر‘ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کی وجہ سے‘ فوج کی کمان کی تبدیلی ممکن ہوگی یا نہیں؟ اِس بارے میں بھی چہ میگوئیاں کی جا رہی ہیں۔ لیکن موجودہ صورتحال میں‘ حکومت نے بظاہر نئے فوجی سربراہ کی تقرری پر غور کرنا شروع نہیں کیا۔ سینیارٹی لسٹ کے مطابق‘ سب سے پہلا نام ہے لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کا‘ جو فی الحال جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر فائز ہیں۔ یہ فوج میں بہت معتبر عہدہ سمجھا جاتا ہے لیکن اِس سے قبل وہ ڈائریکٹر جنرل سٹرٹیجک پلانز ڈویژن بھی رہ چکے ہیں۔ اس عہدے کی ذمہ داری ملک کے جوہری اور تزویراتی اثاثہ جات کی حفاظت ہے۔دوسرا نام لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد کا ہے‘ جو کور کمانڈر ملتان ہیں اور اِس سے قبل چیف آف جنرل اسٹاف رہ چکے ہیں۔ انہوںنے سوات اور شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیاں مکمل کیں۔ لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فوج کے سربراہ کے لئے جتنی آپریشنل اور اسٹاف ذمہ داریوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ انہوں نے وہ تمام ادا کی ہوئی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے‘ فی الحال کور کمانڈر بہاولپور ہیں
لیکن اِس سے قبل سوات آپریشن کے دوران جی او سی رہ چکے ہیں۔ غیر ملکی تعیناتیوں میں دو اہم ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں‘ جس میں واشنگٹن میں بطور ملٹری اتاشی اور امریکی سینٹ کام کے ساتھ تعیناتی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں چند سینیٹرز ایسے بھی ہیں‘ جن کے ساتھ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے نے کام کیا ہے۔ یہی بات بعض تجزیہ کاروں کے بقول ‘فوجی سربراہ بننے کے تناظر میں‘ اْن کے حق میں اور یہی بات اْن کے خلاف بھی جا سکتی ہے۔آخر میں لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں‘ جو آج کل جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن ہیں۔ اِس سے قبل 2014ء میں‘ دھرنے کے دوران وہ کور کمانڈر راولپنڈی رہ چکے ہیں۔ جسمانی طور پر قوی الجثہ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ نے‘ حال ہی میں اْن تربیتی مشقوں کی خود نگرانی کی ہے‘ جو لائن آف کنٹرول کے اطراف کشیدگی کی وجہ سے کی جا رہی ہیں۔ اِن مشقوں کا معائنہ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل نے خود کیا تھا۔
ضروری نہیں پاکستانی فوج کا نیا سربراہ ‘اِنہی میں سے کوئی ہو۔ نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی کا طریقہ کار بھی واضح نہیں ہے۔ اِس کے لیے وزیرِ اعظم کا دفتر‘ وزارتِ دفاع کے ذریعے جی ایچ کیو سے سینئر ترین جرنیلوں کے ناموں کی فہرست طلب کرتا ہے‘ جو فوج کی سربراہی کے لئے موزوں ہو۔ اِس کے بعد فوجی اور سول خفیہ اداروں سے ‘اْن ناموں کی ساکھ کے بارے میں رپورٹ طلب کی جاتی ہے۔ یہ وزیرِ اعظم پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ ریٹائر ہونے والے فوجی سربراہ سے اْن کے جانشین کے بارے میں رائے طلب کریں۔یہ بھی ضروری نہیں کہ تجویز کردہ نام کو نیا آرمی چیف بنایا جائے۔ وزیرِ اعظم اِس معاملے میں اپنے وزرا اور مشیروں سے بھی مشاورت کرسکتے ہیں اور آخر میں اعلان خود وزیرِ اعظم کو ہی کرنا ہوتا ہے۔جنرل راحیل شریف‘ اس سال کے اوائل میں ہی واضح کرچکے ہیںکہ ان کا ملازمت میں توسیع لینے کا کوئی ارادہ نہیں ۔
حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ملک عبدالقیوم کہتے ہیں ''میرے خیال میں سینیارٹی کے لحاظ سے ‘شروع کے دو ناموں میں سے پہلے کو آرمی چیف اور دوسرے کو چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی بنا دینا چاہیے لیکن یہ اختیار وزیرِ اعظم کے پاس ہے کہ وہ کسی کو بھی بنا دیں۔‘‘اْن کے خیال میں نئے آرمی چیف کو اِس چیلنج کا سامنا ہوگا کہ جو دشمن دراڑیں ڈال رہے ہیں ‘اْن کا خاتمہ کرنا اور پھر ان دراڑوں کو ختم کرنا ہوگا۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ملک عبدالقیوم کے مطابق ''نئے چیف آف آرمی اسٹاف کو‘ انڈیا کی گیدڑ بھبکیوں سے نمٹنا ہوگا۔‘‘
عسکری اْمور کی تجزیہ کار اور مصنفہ عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ فوج کے اندر موجود‘ ہاکس سمجھتے ہیں کہ کوئی طاقتور فوجی آنا چاہیے۔''وہ لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم کو سپورٹ کرتے ہیں لیکن اگر وزیرِ اعظم کی بات چلے تو لیفٹیننٹ جنرل رمدے اور لیفٹیننٹ جنرل باجوہ کے درمیان رہے گی۔‘‘ عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ نئے آرمی چیف کے لئے‘ سب سے بڑا چیلینج جنرل راحیل شریف کی تخیلاتی میراث کا سامنا کرنا ہوگا ‘جو انہوں نے اتنے عرصے میں فوج کے اندر اور عوام کے درمیان ایک مسیحا کے طور پر بنائی ہے۔
واضح رہے کہ نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی کا اختیار تو وزیرِ اعظم کے پاس ہے لیکن فوج پاکستان کا بااثر ترین ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی رائے نظر انداز کرنا کسی سیاسی حکومت کے لئے آسان نہیں ہے۔ اس مرتبہ بھی ماضی کی طرح ‘تمام نظریں نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی پر لگی ہیں۔‘‘
جنگوں کا شکار ہونے والی بے گناہ سرحدی آبادی کے ساتھ جو کچھ ہوتا آیا ہے‘ وہ اسی کے خوف میں ‘پھر سے اپنے گھر چھوڑتی جا رہی ہے۔ پاک بھارت سرحدوں پر خاردار تار لگانے میں‘ جتنی زمین ضائع ہوئی اس کا رقبہ دیکھ کے دکھ ہوتا ہے۔ زیرنظر تحریر میں وہ ضائع شدہ رقبہ معلوم ہو گا‘جو بھارتی حکمرانوں نے اپنے غریب کسانوں سے چھینا۔
''انڈیا کے ''سرجیکل سٹرائیکس‘‘ کے دعوے کے بعد‘ انڈین پنجاب میں سرحد سے ملحقہ علاقوں کو خالی کرائے جانے کے حکومتی فیصلے پر‘ سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور حکومت کی نیت پر شک ظاہر کیا جا رہا ہے۔گرو نانک دیو یونیورسٹی میں‘ سیاسیات کے پروفیسر جگروپ سنگھ شیخوں ‘اسے پنجاب اور دوسری ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔بی بی سی کے نمائندے ونیت کھر ‘سے خصوصی بات چیت کے دوران انہوںنے کہا کہ ''پاکستانی سرحد پر کسی طرح کی کشیدگی نہیں ہے۔ کوئی خوف کا ماحول نہیں، جنگ کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ ایسے میں بڑی تعداد میں گاؤں خالی کرانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ حکومت نہیں بتا رہی ہے۔‘‘ ریاستی حکومت کہتی ہے کہ مرکزی حکومت کی ہدایت پر ایسا کیا جا رہا ہے۔ لیکن مرکزی حکومت کے اس فیصلے پر ریاستی حکومت نے کیوں کچھ نہیں پوچھا؟ سوال یہ بھی ہے۔شیخوں کا کہنا ہے کہ ''انتخابات کے پیش نظر ایک طرح کا جنگی جنون پیدا کیا جا رہا ہے۔ جارحانہ قوم پرستی کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔ یہ انتخابات کی تیاری ہے۔‘‘ انہوںنے مزید کہا ''دراصل مرکز اور ریاستی حکومتوں پر اعتماد پوری طرح ختم ہو چکا ہے۔ ان کے پاس عوام کے سامنے جانے کے لئے کوئی پروگرام نہیں۔ لہٰذا وہ ایک نیا مسئلہ کھڑا کر رہے ہیں۔‘‘ پروفیسر شیخوں کا کہنا ہے کہ سرحد پر رہنے والے لوگ ‘وقت سے پہلے ہی صورت حال کو بھانپ جاتے ہیں اور خود علاقہ چھوڑ دیتے ہیں۔''سنہ 1965، 1971 اور پارلیمنٹ پر ہونے والے حملوں کے بعد ‘جو صورتحال بنی تھی ‘اس وقت بھی لوگوں نے گاؤں خالی کر دیے تھے۔ لیکن یہاں تو لوگ پرسکون ہیں اور حکومت خوفزدہ۔‘‘ شیخوں نے سرحدی علاقوں کی بدحالی کے لئے‘ آزادی کے بعد سے اب تک کی تمام حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ''پورے علاقے میں روزگار، ترقی، ٹیلی کمیونیکیشن سہولیات، تعلیم اور دوسری چیزیں مہیا نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی حکومت نے علاقے کی ترقی پر توجہ ہی نہیں دی۔‘‘ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 21 ہزار کسانوں کی کم سے کم 25 ہزار ایکڑ زمین‘ سرحد پر لگائی جانے والی باڑ کی زد میں آکر بیکار ہو چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی علاقے ایسے بھی ہیں جو بارش کے موسم میں‘ پورے ملک سے منقطع ہو جاتے ہیں۔ حکومت نے اس پر کچھ نہیں کیا اور اب انتخابات سے پہلے ایک مسئلہ کھڑا کرنا چاہتی ہے، جو ہے ہی نہیں۔‘‘