صرف ہم ہی نہیں‘ دنیا کی تمام قابل ذکر طاقتیں خارجہ پالیسی کے بحران کا شکار ہیں۔ ماضی کی دو سپرطاقتیں، جنہوں نے دنیا کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں تقسیم کر رکھا تھا، اب یہ سمجھنے میں مشکل محسوس کر رہی ہیں کہ طاقتوں کی موجودہ صورتحال میں کیا پوزیشن اختیار کی جائے؟ چین کے سوا کوئی طاقت ایسی نہیں ،جس کے سامنے آنے والے دور کے باہمی تعلقات کا خاکہ واضح ہو؟عالمی امور کے ماہر جوناتھن مارکس نے، ابتدائی طور پر روس اور امریکہ کی موجودہ پالیسیوں میں مضمر امکانات کی جھلک دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ فی الحال سب کے سامنے یہی کچھ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
''روس اور امریکہ کے باہمی تعلقات جس قدر خراب آج کل ہیں، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد شاید ہی کبھی ہوئے ہوں۔حالت یہ ہو چکی ہے کہ امریکی افسران ،حلب پر روس اور شامی فوجوں کے حملوں کو''بربریت‘‘ کہہ رہے ہیں اور روس کو خبردار کر چکے ہیںکہ شام میں جنگی جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے۔دوسری جانب روسی صدر بھی واشنگٹن اور ماسکو کے تعلقات کی خرابی کا اظہار واضح الفاظ میں کر چکے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ اوباما انتظامیہ ، روس سے برابری کی سطح پر بات کرنے کی بجائے اس پر''حکم‘‘ چلانا چاہتی ہے۔اس کے باوجود شام کے معاملے میں روس اور امریکہ، ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ تندوتیز جملوں کے تبادلے اور الزامات کے باوجود، دونوں یہ جانتے ہیں کہ شام میں جاری ڈرامے کا جو بھی اختتام ہو گا، اس میں دونوں ممالک کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ماسکو جانتا ہے کہ شام کی مستقل جنگ نہ امریکہ کے مفاد میں ہے اور نہ ہی خود روس کے مفاد میں۔جب تک دونوں ممالک کے درمیان اعتماد پیدا نہیں ہوتا اور دونوں ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھتے، اس وقت تک ،شام کے معاملے میں دونوں کے درمیان مذاکرات کی بنیادیں مضبوط نہیں ہو سکتیں۔
کسی کو یہ توقع نہ تھی کہ روس اور امریکہ کے تعلقات اتنے بگڑ جائیں گے، بلکہ اکثر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ سرد جنگ کے خاتمے سے ،دونوں کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو جائیں گے۔کچھ عرصے کے لئے روس نے خود کو، عالمی معاملات سے پیچھے کر لیا تھا، لیکن اب وہ پورے زور شور سے عالمی سٹیج پر واپس آ چکا ہے۔ اس کی شدید خواہش ہے کہ ارد گرد کے ممالک میں ،اپنے کردار کو مستحکم کر لے اور اس تاثر کو غلط ثابت کرے کہ مغرب کے ہاتھوں اس کی سبکی ہوتی رہے گی۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ حالات اس نہج تک پہنچے کس طرح؟ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، روس اور مغرب ایک نئی قسم کے تعلقات قائم کرنے میں کیوں ناکام ہوئے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا امریکہ نے اپنی حدود سے تجاوز کیا اور روس کے جذبات کی پروا نہیں کی، یا روس ابھی تک سوویت دور کی عظمت کو سینے سے لگائے بیٹھا ہے؟ روس اور امریکہ کے معاملات اتنے خراب کیوں ہو گئے ہیں؟ اور کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ دونوں میں، ایک نئی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے؟میں یہاں ان سوالوں کے کوئی مفصل جواب نہیں دوں گا کیونکہ امریکہ اور روس کے تعلقات کی کہانی اتنی پرُپیچ ہے کہ اس موضوع سے انصاف کرنے کے لئے مجھے ٹالسٹائی کے ناول ''وار اینڈ پِیس‘‘ جتنی ضخیم کتاب لکھنا پڑے گی۔ بہرحال میری کوشش ہو گی کہ کچھ چیزیں آپ کے سامنے رکھوں۔
امریکہ کی جورج ٹاؤن یونیورسٹی سے منسلک تجزیہ کار پال آر پِلر کہتے ہیں کہ اس معاملے میں بنیادی غلطی خود مغرب کی ہے۔پال آر پِلر کے خیال میں روس اور مغرب کے تعلقات خراب ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب نے روس کو ایک ایسے ملک کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کیا ،جو اپنے کاندھے سے اشتراکیت کا طوق اتار چکا تھا۔ ان کے بقول ''ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کمیونزم کے خاتمے کے بعد روس کو اقوام کی برادری میں خوش آمدید کہا جاتا۔ لیکن روس کے اس اقدام کو سراہنے کی بجائے، مغرب نے روس کو سوویت یونین کا جانشین سمجھا۔ ایک ایسا ملک جس پر مغرب کبھی بھی اعتماد نہیں کر سکتا۔‘‘
آپ چاہیں تو اسے مغرب کا پہلا گناہ کہہ سکتے ہیں اور پھر اس کے بعد نیٹو کا دائرہ اثر بڑھانے کے جوش میں مغرب نے پولینڈ، چیک ریپبلک اور ہنگری جیسے ان ممالک کو اس اتحاد میں شامل کر لیا جہاں قوم پرستی کی روایت بہت قدیم تھی اور یہ ممالک ماسکو کے تسلط کے خلاف ایک عرصے سے جد وجہد کر رہے تھے۔لیکن نیٹو کا پھیلاؤ ان ممالک تک محدود نہ رہا بلکہ اس میں بلقان کی ان ریاستوں کو بھی شامل کر لیا گیا ،جن کے بیشتر علاقے سوویت یونین کا حصہ تھے۔ اسی لئے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جب جارجیا اور یوکرین کی مغربی مدار میں شمولیت کی بات ہوتی ہے اور روس ان ممالک کے راستے میں روڑے اٹکاتا ہے ،تو ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیے۔قصہ مختصر کہ روس کو یقین ہے ،سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی مغرب نے اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔صاف ظاہر ہے مغرب اس کو اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے اور مغرب سمجھتا ہے کہ روس ''بزور بازو‘‘ اپنے علاقے واپس لینا چاہتا ہے۔ مغرب کا خیال ہے کہ روسی سوچ کے اصل ترجمان صدر ولادی میر پوتن ہیں ،جن کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کا ٹوٹنا 20ویں صدی کا ''سب سے بڑا سیاسی حادثہ‘‘ تھا۔اس حوالے سے امریکی ماہرین اور تجزیہ کاروں کے حلقوں میں بحث جاری ہے کہ روس کا مؤقف درست ہے یا مغرب کا۔ کیا مغرب اور روس کے تعلقات میں سرد مہری کا ذمہ دار مغرب کی اس غلطی کو سمجھنا چاہیے کہ اس نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس کو قبول نہیں کیا یا ہمیں اس کی ذمہ داری روس کی حالیہ جارحانہ کارروائیوں پر ڈالنی چاہیے، جس میں وہ جارجیا، شام اور یوکرین پر چڑھائی کر چکا ہے۔
برطانوی خفیہ ادارے (ایم آئی 6) کے سابق سربراہ اور اقوام متحدہ میں برطانیہ کے سابق سفیر، سر جون سیورز کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے ‘ جنہوں نے حالیہ برسوں میں روسی سفارتکاری کا بغور جائزہ لیا ہے۔ وہ سرد جنگ کے خاتمے کے دنوں کی بات نہیں کرتے، بلکہ ان کے خیال میں روس اور مغرب کے تعلقات کو ہمیں حالیہ برسوں کے واقعات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔گذشتہ دنوں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سر جون سیورز کا کہنا تھا کہ مغرب نے پچھلے آٹھ سالوں میں روس کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات بنانے پر خاص توجہ نہیں دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ''اگر واشنگٹن اور ماسکو یہ اصول طے کر لیتے کہ انہیںتعلقات کی اس راہ پر کیسے آگے بڑھنا ہے؟ تو شام اور یوکرین جیسے علاقائی مسائل حل کرنا آسان ہو جاتا۔ اگر دونوں یہ تسلیم کر لیتے کہ وہ ایک دوسرے کے قائم کردہ نظاموں کو گرانا نہیں چاہتے، تو آج حالات بہتر ہوتے۔‘‘
میں نے اس سلسلے میں کئی ماہرین سے بات کی اور انہوںنے بھی اوباما انتظامیہ کی سفارتکاری کی اس خرابی کے بارے میں اشارہ کیا کہ اس میں کوئی تنوع نہیں اور اکثر اوقات آپ کو سمجھ نہیں آتی کہ امریکہ اصل میں کیا چاہتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ بطور واحد عالمی طاقت، امریکہ کے اثر ورسوخ میں کمی آ رہی ہو لیکن کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے پاس جو طاقت بچی ہے وہ اسے کیسے استعمال کرے؟ کیا واقعی امریکہ کا جھکاؤ ایشیا کی جانب ہو رہا ہے؟ اور کیا واقعی یورپ اور مشرق وسطیٰ پر اس کی توجہ کم ہوتی جا رہی ہے یا یہ محض دکھاوا ہے؟کیا امریکہ محض نعرے ہی لگاتا رہے گا یا ان پر عمل کرنے کے لیے اپنی طاقت بھی استعمال کرے گا؟ ہم جانتے ہیں کہ شام کی حد تک تو امریکہ صرف نعرے بازی ہی کرتا رہا ہے۔ کیا امریکہ کو واقعی معلوم ہے کہ اس نے ماسکو کے حوالے سے جو پالیسی اپنا رکھی ہے اس کے مضمرات کیا ہوں گے؟
2014ء میں جب روس نے کریمیا کو اپنے علاقے میں شامل کیا تھا تو مسٹر پوتن نے روسی پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''اگر آپ کسی سپرنگ کو اس کی حد سے زیادہ دبائیں گے تو جب یہ واپس پلٹے گا ،تو آپ کو زخمی کر دے گا۔ یہ بات آپ کو یاد رکھنی چاہیے۔‘‘ مسٹر پوتن کے اس بیان کے جواب میں قومی پالیسی کے موضوعات پر لکھنے والے امریکی جریدے ''نیشنل انٹرسٹ‘‘ نے اپنے ایک حالیہ شمارے میں لکھا کہ ''سمجھداری کی بات یہ ہو گی کہ آپ سپرنگ پر دباؤ کو کم دیں اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اپنے بچاؤ کا بندوبست ضرور کر لیں۔‘‘
ماضی میں جو بھی غلطیاں ہوئیں اور جو بھی ان غلطیوں کا ذمہ دار تھا، حقیقت یہ ہے کہ روس اور مغرب کے تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی شام کے مسئلے پر امریکہ اور روس ایک دوسرے سے لڑنے جا رہے ہیں؟میرا خیال ہے ایسا نہیں ہوگا۔لیکن کیا ہم ایک نئی سرد جنگ کے دھانے پر کھڑے ہیں؟ پال پِلر کہتے ہیں کہ روس اور امریکہ کے حالیہ خراب تعلقات کے حوالے سے ''سرد جنگ‘‘ کے الفاظ استعمال کرنا درست نہیں ہوگا۔ ان کے بقول '' آج عالمی سطح پر نظریات کی کوئی ایسی جنگ نہیں ہو رہی،جو سرد جنگ کے دور میں تھی اور نہ ہی روس اور مغرب کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی دوڑ ہو رہی ہے۔جو چیز باقی ہے وہ اثر ورسوخ اور عالمی غلبے کی لڑائی ہے اور اس حوالے سے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس کمزور ہوا ہے جبکہ امریکہ کی طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور وہ آج بھی ایک سپر پاور ہے۔‘‘
امریکہ میں صدارتی انتخابات کی مہم زوروں پر ہے اور ہو سکتا ہے کہ روس اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے اور اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ وہ دنیا کے ان علاقوں میں جہاں تنازعات جاری ہیں، کچھ ایسا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ،جو وائٹ ہاؤس کے نئے مکین کی مشکلات میں اضافہ کر دے۔‘‘