"NNC" (space) message & send to 7575

قاتل ہوائیں (آخری قسط)

دوسری جانب ایسی بھی رپورٹیں ہیں کہ بھارتی پنجاب میں‘ کسانوں نے چاول کی فصل کی کٹائی کے بعد ‘بچ جانے والے تنوں کو بڑے پیمانے پر آگ لگائی ہے‘ جس کا دھواں ان شہروں تک پہنچا ہے۔ یاد رہے کہ کھیتوں میں فصلوں کی صفائی کا یہ طریقہ پاکستانی پنجاب میں بھی رائج ہے۔ لاہور سے صرف چار سو ستائیس کلومیٹر دور بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی صورت حال ایسی ہی ہے۔ گزشتہ سترہ سال کے مقابلے میں وہاں دھند اور دھواں بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ ہفتے کے روز نئی دہلی میں ‘سترہ سو سے زائد اسکول بند رکھے گئے ہیں جب کہ دھوئیں کی وجہ سے مکمل شہر‘ سرمئی رنگت اختیار کر چکا ہے۔ حالیہ دیوالی کے تہوار پر ہونے والی آتش بازی بھی اس کی ایک اہم وجہ بنی ہے‘‘۔
پاکستان میں سعید خان نے ایک انگریزی اخبار میں اس موضوع پر خصوصی رپورٹ لکھی ہے۔بیرونی رپورٹوں کو پڑھنے کے بعد‘ مجھے اعتراف کرنا ہو گا کہ پاکستانی صحافی کی تحقیقاتی رپورٹ زیادہ قابل تحسین ہے:
''حالیہ دنوں گہری دھند اور سرد موسم نے پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں میں فضائی اور ٹرین کے سفر کو متاثر کیا ہے ۔ ہر دسمبر میں لاہور پر گہری دھندچھاجاتی ہے اورسرما کے سورج کی روشنی کور وک دیتی ہے ۔ اس کی وجہ سے حد ِ نگاہ کم ہوجاتی ہے اور شام کے بعد موٹر وے کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کرنا پڑتا ہے ۔ دوسری طرف انٹر نیشنل ایئرپورٹ پر طیاروں کی لینڈنگ بھی روک دی جاتی ہے ۔ گزشتہ پانچ برسوں سے یہ مسئلہ بہت زیادہ شدت اختیار کرگیا ہے ۔اس کی وجہ لاہور میںگاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور فیکٹریوں سے دھوئیں اور گیسوں کا اخراج ہے ۔ حتی کہ موسم ِ گرما میں بھی شہر میں مستقل طور پر دھند سی چھائی رہتی ہے ۔یہ صرف بارش کے بعدہی چھٹتی ہے جب ماحول دھل کر صاف ہوجاتا ہے ۔
فضائی آلودگی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی طرف فوری توجہ دی جانی چاہیے کیونکہ لاہور کا شمار اب ایشیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے ۔موسم ِ سرما میں جب بارش کا سلسلہ رک جاتا ہے اورسردی اور مسلسل خشک موسم میں تمام آلودگی بوجھل ہوکر فضا میں نچلی طرف آجاتی ہے، یہ سموگ کی شکل میں پنجاب میں ہر طرف پھیل جاتی ہے ۔ لاہور کینال کے علاقے کے ایک رہائشی کا کہناہے کہ '' مہینہ بھر دھند یا سموگ کی گہری چادر کے بعد ہم نے آخرکا ر سورج کی شکل اُ س وقت دیکھی جب بارش ہوئی ۔ ہم ہر سال سرد‘مرطوب اور دھند آلود‘ یا سموگ سے گہرے موسم سے تنگ آچکے ہیں۔ ‘‘دھندلی فضا کی وجہ سے سرد ی میں اضافہ ہوجاتاہے کیونکہ دن کے وقت سورج کی بہت کم روشنی زمین تک پہنچ پاتی ہے ۔ 
سابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات‘ ڈاکٹر قمر الزماں چوہدری کے مطابق '' ہمارے ماحول میں نچلی طرف پائے جانے والے آلودہ عناصر کی وجہ مشرقی پنجاب ہے جہاں(بھارتی سرحد کے اندر) کوئلے سے توانائی حاصل کرنے والی صنعتیں ہیں۔ بے شک ہم نے بھی فیکٹریوں اور گاڑیوں کے دھوئیں کی وجہ سے اپنے ماحول میں آلودگی کا لیول بڑھا لیا ہے ‘‘۔نہری علاقوں میں دھان کی فصل اور دریائی علاقوں میں جہاں فضا میں نمی کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے ‘ دھند بہت گہری ہوجاتی ہے ۔ سموگ صرف اُسی وقت چھٹتی ہے جب بارش ہوتی ہے ‘ ورنہ تمام آلودہ ذرات اور نقصان دہ گیسیں اور دھواں ایک دبیز چادر کی صورت میں زمین کو ڈھانپے رکھتا ہے۔ 
Deutche Welle ویب سائٹ کے مطابق‘ سموگ کی وجہ سے لاہور اور نئی دہلی کو 2014 ء میں دس بدترین شہروںمیں شمار کیا گیا تھا۔ جب تک سرحد کے دونوں طرف صنعتیں گیسوں کے اخراج کو ماحولیاتی معیارکے مطابق صاف نہیں کرتیں اور لوگ ایسی ٹرانسپورٹ استعمال نہیں کرتے جو ماحول دوست ہو‘ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اُس وقت تک ضروری ہے کہ لوگ گھروں کے اندر ٹھہریں ‘ بلاضرورت گھر سے باہر نہ جائیں اور ماسک پہنیں۔ جیسا کہ چین کے انتہائی آلودہ شہر‘ بیجنگ میں کرتے ہیں۔ آلودہ فضا میں سانس لینا صحت کے لیے مضر ہے کیونکہ اس میں گرد وغبار کے علاوہ سلفر ڈائی آکسائیڈ‘ نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مانو آکسائیڈ جیسے زہریلے مرکبات پائے جاتے ہیں۔صنعتی آلودگی سے پیدا ہونے والی سموگ صحت کے لیے انتہائی تباہ کن ہے ۔ اس کی وجہ سے دمہ‘ پھیپھڑوں میں سوزش‘ سانس کی نالی میں تکلیف اور دل کے امراض جیسے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ ماہ حکومت ِ پنجاب نے سپریم کورٹ کے سامنے ایک رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا تھا کہ اس نے صوبے میں آلودگی کی روک تھام کے لیے کیا کیا اقدامات کئے ہیں؟ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے سے لاہور میں گاڑیوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے نتیجے میں فضا میں آلودگی بڑھ رہی ہے ۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ اب ٹوسٹروک انجن رکھنے والے رکشوں کی رجسٹریشن پر مکمل پابندی ہے ( یہ پابندی 2005 ء میں لگائی گئی تھی)اور موجودہ ٹو سٹروک انجن والے رکشوں کی جگہ فور اسٹروک انجن رکھنے والے رکشے لے رہے ہیں۔ تاہم جب شہر کی سڑکوں پر اتنی زیادہ گاڑیاں چل رہی ہوں اور پرانے پٹرول اور ڈیزل انجنوں سے دھواں نکل کر فضا کو گہرا کررہا ہوتو پھر محض قانون سازی نہیں‘ سخت قوانین کے عملی نفاذ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ 
دہلی بھی موسم ِ سرما میں سموگ کی گہری چادر میں چھپ جاتا ہے ۔ وہاں موسمیات پر کام کرنے والی مشہور این جی او ''سی ایس ای ‘‘ (Centre for Science and Environment) بھارتی حکومت پر زور دے رہی ہے کہ وہ فضائی آلودگی کو ایک مسئلہ تسلیم کرے اور سموگ سے نمٹنے کے لیے ''پلوشن ایمرجنسی ‘‘ نافذ کردے ۔ 'سی ایس ای ‘ کے مطابق ''عوامی صحت کے حوالے سے سنگین معاملہ یہ ہے کہ ہر روز بھاری مقدار میں زہریلے مرکبات سانسوں میں شامل ہوکر جسم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے اور آلودگی کو صاف فضا کے طے شدہ معیار تک نیچے نہ لایا گیا تو فضائی آلودگی عوامی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب کرے گی‘‘۔
لاہور کے نزدیک اینٹیں پکانے والے بھٹے ہیں۔ کھلے مقامات پر آگ جلانے ‘ گاڑیوں کی تعداد میں اضافے ‘ فیکٹریوںاور بجلی پیدا کرنے والے جنریٹروںسے لاہور کی فضا انتہائی آلودہ ہوچکی ہے ۔ 'سی ایس ای‘ فضائی آلودگی کو مانیٹر کرنے کے لیے جدید ترین آلات استعمال کرتی ہے تاکہ دہلی میں روزانہ کی بنیادپر آلودگی کا جائزہ لیا جاسکے ۔ 'سی ایس ای‘ کی سربراہ‘ سنیتا نرائن کے مطابق''ہمارے پاس حاصل ہونے والے اعدادوشمار خاصے پریشان کن ہیں۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ عوام کو اس سے کہیں زیادہ زہریلی فضا میں سانس لینا پڑتا ہے جو Delhi Pollution Control Committee کی مانیٹرنگ ظاہر کرتی ہے ۔ یہ بات عوامی صحت کے لیے درحقیقت انتہائی تشویش ناک ہے ‘‘۔
سی ایس ای چاہتی ہے کہ حکومت کوالٹی انڈیکس کے ساتھ ہیلتھ ایڈوائزری اور پلوشن ایمرجنسی کے اقدامات نافذ کرے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ پورے بھارت میں یورو IV انجن استعمال کیا جائے ۔ بھارت میں پاکستان کی نسبت گاڑیوں کے قوانین زیادہ سخت ہیں۔ وہ بھاری ٹیکس لگا کر پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافے کی تجویز بھی پیش کرتے ہیں۔ آخر میں وہ چاہتے ہیں کہ حکومت کاروں کی تعداد میں اضافے اور پارکنگ کو کنٹرول کرے ۔ اس کے علاوہ پاور پلانٹ ‘ بجلی پیدا کرنے والے جنریٹرز اور کھلی جگہوں پر جلانے کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ نہ صرف لاہوربلکہ ملک بھر میں آلودگی کم کرنے کے اقدامات کئے جائیں‘‘۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں