آزادی کے بعد برصغیر کی نئی سیاسی قیادتوں کی کارکردگی دیکھی جائے‘ تو شدید مایوسی ہوتی ہے۔ بھارت میں جن قیادتوں کے دور میں تقسیم اور انتقال اقتدار کے فیصلے ہوئے‘ اسی وقت سارے مسائل نمٹا دیئے جاتے‘ تو آج ڈیڑھ ارب کے قریب انسان‘ امن کی زندگی گزار رہے ہوتے۔ لیکن بدنصیبی یہ تھی کہ انگریز نے تقسیم اور انتقال اقتدار کی ساری سکیمیں خود ہی تیار کیں اور تمام مراحل کی تکمیل تک سارے فیصلے اپنے اختیار میں رکھے۔ ہندو سیاستدان زیادہ چالاک اور عیار تھے۔ انہوں نے ابتدا ہی سے انگریزحکمرانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے‘ ان کے وفادار ساتھیوں کا روپ دھار لیا۔ تاریخی طور پر ہندو ایسے ماحول میں پروان چڑھے ہیں کہ نہ وہ کہیں کا اقتدار طاقت کے بل بوتے پر حاصل کر سکے تھے اور نہ ہی ان میں یہ صلاحیت تھی کہ اقتدار کے لئے تدبیر کی طاقت استعمال کر سکتے۔یہی سبب تھا کہ وسطی ایشیا کے جنگجو‘ ہندوستان پر حملے کر کے‘ یہاں پر صدیوں حکمرانی کرتے رہے اور آج بھی صورتحال وہی ہے۔ فرق صرف یہ پڑا کہ وسطی ایشیا کے حکمرانوں کی جگہ یورپ کے حکمرانوں نے لے لی اور آج تک بھی انہی کی حکمرانی جاری ہے۔ پاکستان اور بھارت نے معاملات حل کرنے کے لئے کبھی آگے بڑھ کر‘ باہمی امور طے کرنے کا اختیار اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ ہم ہمیشہ بیرونی مددگاروں کی طرف دیکھتے رہے۔ کسی غیر کو برصغیر کے عوام کے دکھ درد سے کیا واسطہ ہو سکتا ہے؟ اگر کسی کو بھارت سے زیادہ فائدہ نظر آیا‘ تو اس نے ادھر جھکائو کر کے‘ پاکستان کے خلاف پالیسی اختیار کر لی اور پاکستان سے مفاد نظر آیا‘ تو ہم سے فائدہ اٹھا لیا۔ دونوں ملکوں کی قیادتیں ہر فیصلہ کن موڑ پر تصفیے کے لئے دوسروں کی طرف دیکھتی رہیں اور دوسرے موقع محل کے مطابق‘ کسی ایک کے حق میں جھکائو ظاہر کر کے‘ اپنا وقت نکالتے رہے اور مقامی طور پر ان دونوں ملکوں کی صلاحیتوں کا یہ حال ہے کہ برصغیر کا نقشہ جو تقسیم کے بعد بن گیا تھا‘ جوں کا توں چلا آ رہا ہے۔ لیکن اس صورتحال میں کسی میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ اپنے عوام کو امن اور ترقی کے راستے پر ڈال سکتے۔جو تنازعات پیدا کر لئے گئے تھے یا انگریز نے پیدا کر دیئے تھے‘ انہیں حل کرنے میں ‘ کسی نے اپنی اہلیت ثابت نہ کی۔
مسلسل کشیدگی اور تصادم کی جوپالیسی اختیار کی گئی اور حل طلب مسائل پر غالب آنے کی صلاحیتیں ظاہر نہ کر سکے‘ اس کی وجہ سے ڈیڑھ ارب عوام انتہائی تکلیف دہ‘ امن و آرام سے محروم‘ تنگ دستی اور نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبو ر ہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ طویل غلامی کی زندگی کے بعد‘ جب ہمیں نام نہاد آزادی حاصل ہوئی‘ توغیرملکی حکمرانوں کے بعد جو مقامی قیادت ہمیں نصیب ہوئی‘ وہ غیر ملکیوں سے بھی بدتر ثابت ہوئی۔ کوئی اعلیٰ پائے کا معیشت دان اگر دونوں ملکوں کی مجموعی معیشت کا جائزہ لے کر دیکھے‘ تو ہو سکتا ہے دونوں ملکوں کی سیاسی قیادتوں کی سمجھ میں آ جائے کہ اس نام نہاد آزادی کا ہماری زندگیوں پر کیا فرق پڑا؟ غیر ملکی حکمران بھی ہمارے غریب عوام کے استحصال سے ‘ ان کا خون نچوڑ کے ‘ اپنے اہل وطن کے وسائل میں اضافہ کرتے رہے اور ہماری دیہی آبادیوں اور کھیتوں میں بھوک اگاتے رہے۔
بھارت کی حالت پاکستان کے مقابلے میں زیادہ قابل رحم ہے۔ وہاں ذات پات‘ مذاہب‘ نسل پسندی اور اسی طرح کے دیگر تعصبات کے نتیجے میں بہت بڑی آبادی تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بھارتی معاشرے میں اس طرح کی جہالت مختلف شکلوں میں آج بھی موجود ہے اور اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی ابھی تک چھوت چھات کے بندھنوں سے آزادی حاصل نہیں کر سکے۔ بھارت کے شہروں میں ایسے تمام مقامات‘ جہاں لوگوں کو یکجا ہونے کی مجبوری ہو‘ وہاں آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک انسان کس طرح ‘ دوسرے کو حقارت سے دیکھتے ہوئے‘ ایک کے استعمال میں آئے‘ دھلے ہوئے برتنوں میں پانی پی سکتا ہے؟ بعض افراد کے اندر یہ تعصب اتنا شدید ہے کہ وہ کسی بھی انتظارگاہ‘ ریلوے سٹیشن حتیٰ کہ ہوائی اڈے پر بھی اپنا کھانا ‘ کاغذی کراکری میں کھاتے ہیں یا پتوں پر۔ ہم برصغیر کے لوگ عملی طور پر ایسی بیہودہ سماجی زندگی کے عادی ہو چکے ہیں اور اس کی پروا نہیں کرتے۔ لیکن غور سے دیکھا جائے‘ تو یہ سماج کی بدترین حالتوں میں سے ایک ہے‘ جس میں انسانی رشتوں کا حسن مسخ کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم برصغیر کے رہنے والے کسی نہ کسی انداز میں چھوت چھات کی اس بے انصافی کو دیکھتے اور گزرتے آ رہے ہیں۔ بھارتی سماج میں چھوت چھات کا یہ نظام زیادہ وسیع اور گہرا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں یہ زیادہ غیر مہذب اور بدصورت شکلوں میں دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً بھارت کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہاں ستّی کی غیرانسانی رسم‘ ریاستی قوانین کے ذریعے بڑی حد تک کنٹرول کر لی گئی ہے۔ لیکن معاشرتی رویوں کی طاقت پھر بھی قابو میں نہیں لائی جا سکی۔ پوری ریاستی مشینری کو ناکام کر کے‘ روایت پسند افراد‘ ستّی کے غیرانسانی فعل سے آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔ درپردہ سماجی گٹھ جوڑ سے ‘ کہیں نہ کہیں کسی بیوہ کو زندہ آگ میں جلا کر اپنی رسم پوری کر لی جاتی ہے۔
ہندو مسلم میں عدم مساوات کے جس نظام سے آزادی حاصل کرنے کے لئے‘ مسلمانوں نے ہندو اکثریت کے غلبے سے نجات حاصل کرنے کی خاطر‘ اپنے لئے جس علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا‘ وہ حاصل کرنے کے بعد بھی ‘ہم سماجی انصاف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں جو سماجی نظام قائم ہوا‘ وہ زیادہ ناانصافی‘ جبر اور ظلم سے عبارت ہے۔ سندھ میں اسے کاروکاری کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قبیلہ داری سماج میں جو عورت‘ کسی محبوب کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی ہمت کر بیٹھے‘ تو پھر اس کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے جوڑے برسوں بھاگتے پھرتے ہیں۔ مگر جیسے ہی قبیلے والوں کو ان کا سراغ ملتا ہے‘ باقاعدہ جرگہ لگا کر‘ فیصلے سنانے کے بعد ‘ انہیںموت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ یہ ہے پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کے معاشروں میں سماجی انصاف کی حالت۔ جس معاشرے کے لوگ‘ جمہوریت یا اجتماعی انصاف کے نام پر اقتدار حاصل کرتے ہیں‘ حکومتی نظام پر قابض ہونے کے بعد‘ ان کے رویوں میں فرق نہیں آتا۔ وہ بے وسیلہ اور غریب لوگوں سے ہر حال میں غلاموں اور جانوروں جیسا برتائو کرتے ہیں۔ جو معاشرے اجتماعی طور پر بدترین ناانصافیوں کو برداشت کرتے ہیں‘ وہ جمہوریت کے نام پر قائم شدہ حکومتیں کس طرح چلاتے ہوں گے؟ پاکستان اور بھارت کے مابین جو حالیہ سرحدی جھڑپیں ہو رہی ہیں‘ کیا دونوں طرف کے فوجی ایک دوسرے کے باشندوں کو موت کے گھاٹ اتارتے وقت جنگی قوانین کا احترام کرتے ہیں؟ مقبوضہ کشمیر میں نہتے اور آزادی مانگنے والے نوجوانوںکو جس طرح پیلٹ گن سے نشانہ بنا کر ‘ ان کی زندگیاں عذاب بنائی جا رہی ہیں‘ یہ کسی بھی ایسے معاشرے میں جو انسانیت پر یقین رکھتا ہو‘ ممکن ہے؟ پاکستان اور بھارت کے ریاستی طور طریقوں پر یقین رکھنے والے بے گناہ سرحدی عوام کو بارود کا نشانہ بنا کر‘ ایک ہی طرح کے جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ محنت مشقت کی زندگی گزار کے خلق خدا کے لئے اناج اور خوراک پیدا کرنے والوں کو ان کے بیوی بچوں اور ان کے بزرگوں کے ساتھ گولہ باری کا نشانہ بنایا جائے گا۔ایمبولینسوں میں سفر کرنے والے بیماروں کو بھون کے رکھ دیا جائے گا۔ ہمارے حکمران‘ ایک دوسرے کے نہتے شہریوں کو ہلاک کر کے فخریہ نعرے لگاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے حکمران پرامن،
بے گناہ کو ہلاک کرنے پر جس طرح فخر کا اظہار کرتے ہیں‘ اس کے ہوتے ہوئے ہم ایک دوسرے کو انصاف کیسے دے سکتے ہیں؟ برصغیر کے ڈیڑھ ارب عوام‘ 70سال سے ایک لغو اور بیہودہ دشمنی کو پالنے کے لئے بچوں‘ بوڑھوں اور بیماروں کی خوراک چھین کر ‘بارود کے ذخیروں میں اضافہ کر رہے ہیں اور کرتے ہی جا رہے ہیں۔ مجھے تو دور دور تک یہاں امن کی امید دکھائی نہیں دے رہی۔ اتنے اسلحہ اور گولہ بارود کے ڈھیر لگا کر‘ امن کی فصلیں نہیں اگائی جا سکتیں۔