مسلم دنیا میں انتشار اور تباہی کی جو نئی لہر اٹھی تھی‘ اب دم توڑتی نظر آرہی ہے۔اسی حوالے سے ''فارن پالیسی میگزین‘‘ میں شائع شدہ ایک مضمون کا ترجمہ پیش خدمت کر رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے:۔
''16 اکتوبر 2006 ء کو شام چار بجے جنوبی ترکی کے ایک شہر غازیان تب (Gaziantep) میں پولیس ہیڈکوارٹر کے '' اینٹی سمگلنگ اینڈ آرگنائزڈ کرائم ڈائریکٹوریٹ ‘‘ میں فون کی گھنٹی بجی۔ فون کرنے والے نے اپنا نام نہ بتایا اور دستیاب ریکارڈ سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ فون کرنے والا آدمی تھا یا عورت‘ تاہم اس کی فراہم کردہ معلومات میں ایک اہم اطلاع موجود تھی کہ ایران کے کئی شہری غازیان تب سے گزر کر کیلس(Kilis)‘ جو کہ شامی سرحد پر ایک ترک قصبہ ہے ‘ کی طرف جارہے ہیں ۔ فون کرنے والے نے وضاحت کی وہ ایران کا جعلی پاسپورٹ استعمال کررہے ہیں۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ وہ جس گاڑی میں سفر کررہے ہیں اُس کی نمبر پلیٹ 79 M 0064 ہے ۔ شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے پانچ سال تک غازیان تب کی طرف دنیا کی توجہ مبذول نہ ہوئی ۔ اُس وقت تک یہ شہرہر قسم کے افراد ‘ جیسا کہ غیر ملکی جہادی‘جاسوس‘ صحافی اور امدادی کام کرنے والوں کا مرکز بن چکا تھا۔ بہت سے جہادی اس راستے سے گزر کر داعش کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے جارہے تھے ۔ داعش کی ''خلافت ‘‘ میں داخل ہونے سے پہلے غازیان تب آخری پڑائو تھا۔تاہم 2006 ء تک ''خلافت ‘‘ اپنا عملی وجود نہیں رکھتی تھی ۔ اُس وقت یہاں بہت کم غیر ملکی تھے ‘لیکن وہاںسے گزرنے والی ایک گاڑی نے توجہ کھینچ لی ۔ فون پر اطلاع ملنے کے فوراً بعد‘ غازیان تب یونیورسٹی کے جنوبی کونے پر پولیس نے مذکورہ نمبر پلیٹ والی گاڑی کو روکا۔ اس میں دو آدمی‘ ایک عورت اور چار بچے تھے ۔ گاڑی میں موجود گروپ لیڈر نے اپنا تعارف بطور ایک ایرانی شہری کراتے ہوئے اپنا نام محمد رضا رنجبار رضائی بتایا۔ اُس کے پاس موجود ایرانی پاسپورٹ پر یہی نام درج تھا۔ غازیان تب پولیس ڈپارٹمنٹ کے ''دی ڈائریکٹوریٹ آ ف فارنرز‘‘ کو مسٹر رضائی کا پاسپورٹ انتہائی مشکوک لگا۔ اس پر ترکی میں داخلے کی مہر یکم نومبر 2005 ء کی لگی ہوئی تھی اور اس کی تصدیق کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ سے تصدیق ہوگئی لیکن ایران سے روانگی کی کوئی مہر نہ تھی۔ تاہم محمد رضا کادعویٰ تھا کہ وہ ترکی میں چند دن پہلے ہی
داخل ہوئے تھے۔پاسپورٹ پر موجود مزید تین انٹریز اور ایگزٹ کی مہریں بھی ریکارڈ سے میچ نہیں کررہی تھیں۔ جس کسی نے بھی ان کی مخبری کی تھی اُس کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور تھا۔ اپنا نام محمد رضا بتانے والے اُس شخص کو ایک وکیل کی خدمات فراہم کی گئیں۔ اُس کی تلاشی لے گئی اور اُسی دن رات گیارہ بجے تک اُس سے پوچھ گچھ کی گئی ۔ باقی افراد اور گاڑی کی تلاش لینے پر اس سے 10,625 ڈالر‘ دو موبائل فون‘ دوسمیںاور ایک ہیڈ لیمپ ملا۔
پاسپورٹ میں پائے جانے والے تضادات اور پوچھ گچھ کے دوران سامنے آنے والی غلط بیانی فاش ہونے کے بعد اُس نے اعتراف کرلیا کہ اُس نام محمد رضا رنجبار رضائی نہیں اورنہ ہی وہ ایران کا باشندہ ہے ۔ اُس نے بتایا کہ اُس کا اصل نام عبدالرحمن بن یار محمد ہے اور وہ افغانستان کے صوبے تخار میں پیدا ہوا اور آج کل کابل میں اپنی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ رہ رہا تھا۔ اُس نے مزید بتایا کہ وہ یورپ جارہا تھا جہاں پہنچ کر اُس نے سیاسی پناہ حاصل کرنے کی درخواست دینی تھی۔ ترک پولیس کی رپورٹ کے مطابق وہ ''ایسے ملک جانا چاہتا تھا جہاں اُسے بہتر ملازمت اوراُس کے بچوں کو بہتر تعلیم مل سکتی اور وہ ایک بہتر زندگی بسر کرسکتے ۔ ‘‘ آخر میں اُس نے ترکی میں پناہ کی درخواست دے دی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہو ا کہ اگر وہ یورپ کی طرف جارہا تھا تو اُس کی گاڑی کا رخ شام کی طرف کیوں تھا؟اس پر اُس نے پولیس کو بتایا کہ وہ یورپ جانے سے پہلے ‘ماہ ِ رمضان کے دوران شام میں کچھ زیارتیں کرنا چاہتا تھا ۔ اُس کا کہنا تھا کہ وہ ایران کا بارڈ کراس کرتے ہوئے ترکی میں چار دن قبل Dogubeyazit کے راستے داخل ہوا تھا۔ اُس نے ترکی کے ایک چھوٹے سے قصبے‘ ان میں تھوڑی دیر کے لیے قیام کیا تھا۔ وہاںسے وہ غازیان تب آیاجہاں اُسے گرفتار کرلیا گیا۔ اس کی بیوی کا نام سونیا تھا اور جب اُس سے علیحدگی میں کہانی سنی گئی تو اس کا بھی یہی بیان تھا۔ اس مرحلے پر اُن کا اصرار تھا کہ وہ کسی صورت واپس افغانستان نہیں جائیں گے ۔ اگر اُسے ترکی میں رہنے کی اجازت نہیں تو اُسے پاکستان بھیج دیا جائے ۔ اُس نے جعلی ایرانی پاسپورٹ حاصل کرنے پر معافی مانگی۔ اُس کا کہنا تھا کہ اُس نے یہ پاسپورٹ ایران میں فعال کسی جرائم پیشہ گروہ سے پانچ سو ڈالر کے عوض خریدا تھا اور یہ کہ اُسے ترکی میں داخلے کے لیے اُس سے پہلے بھی کئی لوگ استعمال کرچکے تھے ۔ یہ بات واضح نہیں کہ ترک پولیس '' محمد رضا ‘‘ کی شناخت کس حد تک کرپائی لیکن کچھ دیگر حکام کا کہنا تھا کہ سی آئی اے کو معلومات حاصل تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ ترکی میں القاعدہ کے دو کارندے ، محمد یلمز (Mehmet Yilmaz) اور محمد ریست اسحق (Mehmed Resit-Isik) ایران گئے تھے اور اُنہوںنے محمد رضا اور اس کی فیملی کو سفر کرنے اور ترک بارڈر کراس کرنے میں معاونت فراہم کی تھی ۔ سی آئی اے کو پتہ تھا کہ یلمز افغانستان میں لڑ چکا ہے اور 2003 ء میں استنبول میں ہونے والے بم دھماکوں میں بھی اُس کا ہاتھ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ القاعدہ کے ایک اور کارندے ‘ محمدبولاد (Mehmet Polat) نے محمد رضا اور اس کی فیملی سے غازیان تب میں ملاقات کی تھی۔ نیز گاڑی میں پایا جانے والا دوسرا شخص یہی محمد بولاد تھا۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ وہ جانتے تھے کہ غازیان تب میں گرفتار ہونے والا شخص نہ تو محمد رضا رنجبار رضائی ہے اور نہ ہی عبدالرحمن بن یار محمد‘ اور یہ کہ اُس کا رخ یورپ کی طرف ہرگز نہ تھا اور نہ ہی وہ کوئی مہاجر تھا۔ سی آئی اے جانتی تھی کہ غازیان تب میں پولیس کی حراست میں شخص کا اصل نام‘ عبدالہادی العراقی تھا اور اُسے عراق میں باغی دستوں پر ایک بار پھر القاعدہ کی اتھارٹی قائم کرنے کے مشکل مشن پر بھیجا گیا تھا۔ جب الہادی پولیس کی حراست میں تھا تو اُسے اندازہ ہوچکا تھا کہ اب اُس کا مشن ناکام ہوچکا۔ لیکن اُسے یہ اندازہ نہ تھا کہ ناکامی کا دائرہ کس قدروسیع ہوگا اور اس کی گرفتاری کن دوررس نتائج کی حامل ہوگی۔ درحقیقت القاعدہ کے اس اہم رکن کی گرفتاری سے القاعدہ ایسے فعال ایجنٹ سے محروم ہوگئی تھی جو باغی دستوں پر قابو پاسکتا تھا۔ وہ باغی دستے جو بعد میں ایسی ہولناک جہادی تنظیم بننے والے تھے ‘جسے دنیا داعش کے نام سے جانتی ہے ۔
داعش نے اپنی خلافت کا اعلان 2014 ء سے پہلے نہیں کیا تھالیکن وہ تنظیم موجود تھی ۔ درحقیقت الہادی کی ترکی میں گرفتاری سے ایک دن پہلے‘ ان باغی دستوں نے ''آئی ایس آئی ایس‘‘ کے نام سے خود کو متعارف کرا تے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اُن کا مقصد شام میںعلاقے پر قبضہ اور خلافت کا قیام ہے ۔ ا س نے عراق سے دور‘ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں روپوش القاعدہ کی اعلیٰ قیادت سے مشاورت کی ضرورت محسو س نہ کی ۔ چنانچہ یہ اعلان القاعدہ کی اتھارٹی کے لیے ایک چیلنج تھا۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ باغی دستے القاعدہ سے الگ ہو کر اسلامی خلافت کی طرف گامزن ہیں۔ جو دستے بعد میں داعش کا روپ دھارنے والے تھے ‘ اُن سے القاعدہ کے ابتدائی تعلقات کی کہانی بتاتی ہے کہ القاعدہ کے رہنمائوں کی کوششیں نئی تنظیم کی قیادت کو اپنی اتھارٹی کے تابع کرنے میں ناکام رہیں۔ ان دونوں کے درمیان تنازع بہت سی شکلیں اختیار کرتا رہا لیکن اس میں سب سے اہم ڈرامائی موڑ‘ اکتوبر 2006 ء میں آیا جب اس کا ایک اہم رہنما ترک پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ اُس وقت تک ابھی داعش کی خلافت کا اعلان نہیں ہوا تھا ۔ نوشوان عبدالرزاق عبدالباقی 1990 ء کی دہائی میں سوویت یونین کے افغانستان سے انخلاکے بعد پاکستان آیا تھا۔ وہ عراق کے شہر موصل سے تعلق رکھنے والا کرد نسل کا باشندہ تھا جس نے ایران عراق جنگ میں عراقی فوج میں خدمات سرانجام دی تھیں۔ ان برسوں میں اس کی کنیت تبدیل ہوتی رہی تھی۔ کبھی اُسے عبدالہادی الموصلی کے نام سے پکارا جاتا۔ کبھی وہ عبدالہادی الانصاری کہلاتالیکن آخر کار وہ عبدالہادی العراقی کے نام سے جانا جانے لگا ۔ اُس وقت بہت سے جہادیوں کی طرح عبدالہادی بھی پاکستان میں قیام پذیر تھا ۔اس دوران سوویت انخلا کے بعد افغانستان میں مجاہدین کے مختلف دھڑوں کے درمیان خانہ جنگی پورے عروج پر تھی ۔ ایسا لگتا تھا کہ اُس نے 1995 ء یا 1996ء میں کسی وقت سرحد پار کی اور افغانستان چلا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب طالبان دیگر مجاہدین گروہوں کو شکست سے دوچار کرکے‘ ملک کے زیادہ تر حصوں کا کنٹرول سنبھال چکے تھے ۔ اپنا عراقی فوج کا تجربہ بروئے کار لاتے ہوئے وہ ایک دستے ''انصا ربٹالین‘‘ (Ansar Battalion,)کا لیڈر بن گیا۔ اس دستے میں زیادہ تر غیر ملکی جنگجو تھے‘ جو طالبان کے ساتھ مل کر لڑرہے تھے ۔نائن الیون حملوں کے بعد انصار بٹالین کا ڈھانچہ‘ ٹریننگ کا طریق ِکار‘ نظریات کے علاوہ عبدالہادی کی سابق زندگی اور عراقی فوج کے مینول کی ایک کاپی بھی سامنے آگئی ۔ کئی سالوں بعد کچھ تجزیہ کاروں نے کہنا شروع کردیا کہ داعش دراصل عراقی فوج کے حربی طریقے استعمال کررہی ہے ۔وہ ثابت کررہے تھے کہ داعش کو دراصل بعث پارٹی کے سابق رہنما چلارہے ہیں۔ شاید ایسا ہی ہو لیکن عراقی فوج کا اثر‘ القاعدہ اور اس کی ابتدائی جہادی ٹریننگ پرتھا لیکن اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ صدام حسین ان گروہوں کی پشت پناہی کرتے تھے بلکہ اس کی وجہ وہ شخص تھا جس کے پاس عراقی فوج کا تجربہ تھا اور اب اس کے پاس‘ القاعدہ کی عسکری کارروائیوں کا کنٹرول تھا۔ 1998 ء تک عبدالہادی القاعدہ کی صفوں کا تابندہ ستارہ بن چکا تھا۔ کابل میں گروپ کے گیسٹ ہائوس کا انتظام بھی اسی کے پاس تھا اور اس کا شمار اُن6 عرب نمائندوں میں ہوتا تھا جو ''طالبان عرب رابطہ کمیٹی ‘‘ کے رکن تھے۔ یہ اتھارٹی عبدالہادی کو افغانستان میں موجود عرب جنگجووں کی طر ف سے طالبان حکومت سے بات کرنے کا اختیار دیتی تھی ۔ اس کا شمار ایک خصوصی گروہ'' بامیان گروپ‘‘ میںبھی ہوتا تھا۔ یہ وہ گروپ تھا‘ جس نے مارچ 2001 ء میں بامیان میںمہاتما بدھ کے تاریخی مجسمے تباہ کیے تھے۔ جون 2001 ء میں اُس کا شمار اُن دس اہم ترین القاعدہ رہنمائوں میں ہوتا تھا جو اسامہ بن لادن کا مشاورتی گروپ تشکیل دیتے تھے ۔
نائن الیون حملوں کے بعد امریکی فورسز کے حملے نے افغانستان سے طالبان کی حکومت ختم کردی تو القاعدہ نے عبدالہادی کو شمالی افغانستان میں کمانڈر مقرر کیا اور غیر ملکی آپریشنز کی ذمہ داری سونپی۔ دسمبر 2001 ء میں پیرس سے میامی جانے والی پرواز کو جوتے میں بم چھپاکر تباہ کرنے کی کوشش کرنے والے ''شوبمبار‘‘ رچرڈ ریڈنے اپنی وصیت میں عبدالہادی کو اپنا دوسرا beneficiary قرار دیا تھا۔ چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ الہادی نے عراق میں القاعدہ کی حکمت ِعملی وضع کی تھی کیونکہ اس کا تعلق عراق سے تھااور وہیں اس کا خاندان اور دوست احباب بھی تھے۔ نائن الیون سے پہلے وہ موصل کے قریب مقیم اپنے خاندان کے افراد اور دوستوں کے ساتھ روابطے میں تھا۔ ان میں سے کئی ایک کابل میں القاعدہ کے گیسٹ ہائوس میں قیام کرچکے تھے ۔ اس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ عراقی کردوں کو بھی افغانستان میں عسکری تربیت دی گئی تھی۔(جاری )