بلاول زرداری کے ذمے انتہائی مشکل بلکہ نا ممکن کام لگایا گیا ہے۔ وہ فرزند‘ آصف علی زرداری کے ہیں جبکہ انہیں زبردستی‘ ذوالفقار علی بھٹو کا وارث منوانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے بھٹو صاحب کا اثاثہ‘ ان کی سیاسی حیثیت اور مقام ہے۔پاکستانی عوام‘ وراثت کے جس تصور پر یقین رکھتے ہیں‘ وہ باپ کی نسل ہے۔ اسے صرف پاکستان نہیں‘ دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔اگر نظامِ فطرت کو دیکھا جائے تو وراثت کا یہ سلسلہ‘ باپ ہی کی طرف سے چلتا ہے۔دنیا میں شاید ہی کہیں سلسلہ نسب‘ ماں کی طرف سے چلتا ہو۔قدیم ادوار میںبعض قبیلوں نے یہ تجربہ کیا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ‘ یہ ناکام ہوتا گیا۔ ہو سکتا ہے افریقہ کے جنگلوں میں کہیں کوئی قبیلہ یہ رسم نبھا رہا ہو لیکن باقی ساری انسانی برادری ‘ایک ہی روایت پر قائم ہے اور وہ یہ کہ سلسلہ نسب‘ ہر جگہ اور ہر قوم میں باپ کی طرف سے چلتا ہے۔اب تو ڈی این اے ٹیسٹ‘ پوری حقیقت سامنے لا کر رکھ دیتا ہے۔آج کے سائنسی دور میںتو نسلی رشتے نا قابل تردید حقیقت بن چکے ہیں۔اولاد کو ان گنت خصوصیات‘ باپ کی طرف سے ملتی ہیں۔ محترمہ بے نظیر شہید ہر چند بھٹو صاحب کی بیٹی تھیں۔ غیر معمولی ذہانت بھٹو صاحب‘کی طرف سے انہیں ملی تھی۔ دونوں بیٹے مزاج اور رجحانات میں اپنے والد پر گئے تھے لیکن زندگی کی نا ہمواریوں نے انہیں جذباتی راستوں پر دھکیل دیااوروہ نارمل زندگی بسر نہ کر سکے۔باپ کی ناگہانی موت نے سیاست میں جو خلا چھوڑا تھا‘ اگر بھٹوصاحب کی موت فطری ہوتی تو ہو سکتا ہے کہ ان کا کوئی بیٹا‘ ان کا سیاسی جانشین بن جاتا لیکن قدرت نے اس کی مہلت نہ دی اور وہ جواں سالی میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔محترمہ بے نظیر شہید کے بچے فطری طور پر اپنے باپ پر گئے ہیں۔ہر چند آصف زرداری نے اپنی اولاد پر‘ بھٹو صاحب کا ٹھپہ لگا تودیا لیکن بہر حال زرداریوں کے گھر میں‘ انہی کی نسل چل رہی ہے اور وہی چلے گی۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ بھٹو صاحب جب 28برس کے ہوئے تھے تو وہ عالمی سیاست کی صرف سمجھ بوجھ نہیں بلکہ اس میں مہارت حاصل کر چکے تھے۔ قریباً اسی عمر میں وہ‘ اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کی حیثیت سے جا چکے تھے اور انہوں نے اس عالمی ادارے میں جو شاندار تقاریر کیں‘ ان کی وجہ سے دنیا بھر میں ان کے چرچے ہو نے لگے ۔ سکندر مرزا اور ایوب خان دونوں نے ہی‘ بھٹو صاحب کواقوام متحدہ میں بھیجنے کافیصلہ کیا اور پھر جلد ہی انہیں کابینہ میں وزیر بنا لیا گیا۔وہ اس دور میں کم عمر ترین وزیر تھے اورا پنی شاندار کارکردگی سے انہوں نے ثابت بھی کیا کہ وہ اعلیٰ پائے کے سیاست دان ہیں۔جو وزارت انہیں ملی اس میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ان کی ذہانت اور غیر معمولی صلاحیتیں اس وقت ظاہر ہوئیں‘ جب انہیں وزارت خارجہ کا قلم دان سونپا گیا۔اس وقت تک پاکستا ن کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہوتی تھی۔ بھٹو صاحب نے نہ صرف پاکستان کی قومی خارجہ پالیسی تشکیل دی بلکہ جلد ہی پاکستان‘ دنیا میں اپنی منفردپہچان اور شناخت بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ خصوصاً چین کے ساتھ جو دیر پا رشتے قائم کئے گئے‘ وہ آج بھی پھل دے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ نوابزادہ لیاقت علی خان اور حسین شہید سہروردی نے چین کے ساتھ‘ ابتدائی تعلقات قائم کئے ۔ قائداعظمؒ نے چین کی جنگ آزادی کی کامیابی کا اپنی زندگی میں ہی ادراک کر لیا تھا اور وہ چین کے انقلابی لیڈروں کے ساتھ رابطے شروع کر چکے تھے۔ حسین شہید سہروردی نے عالمی برداری میں چین کا کھل کر ساتھ دینا شروع کر دیا۔ چین کے ساتھ یہی ابتدائی رشتے تھے جن کی بھٹو صاحب نے آبیاری کی اور پھر پاک چین دوستی‘ اس مقام پر آگئی ‘جہاں ہم آج کھڑے ہیں۔
گوادر کی بندرگاہ کا حقیقت میں بدلنا‘ دورِ حاضر کی انقلابی تبدیلی ثابت ہوااور ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے کہ یہ بندرگاہ‘ پورے خطے کی معیشت اور سیاست کو بدل ڈالے گی۔روس جو مدتوں سے گرم پانیوں کا خواب دیکھ رہا تھا اورجنرل ضیا الحق نے افغانستان میں احمقانہ جنگ چھیڑ کر‘ پاکستان اور افغانستان دونوں کے لئے تباہی کا سامان کیا لیکن چین کی سست رفتار سفارت کاری نے گوادر کی بندرگاہ بنا کرگردونواح کے سارے سمندروں کواس سے منسلک کر دیا۔ آس پاس میں کوئی ایسی بندرگاہ نہیں‘ جہاں براہ راست بڑے جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہوں۔ دبئی‘ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار اور خلیج کی مختلف ریاستوں کی بندرگاہیں گہرے پانیوں میں نہیں ہیں۔ وہاں سمندر میں دور سے جہازوں کو اپ لوڈ کر کے‘ سامان کشتیوں میں رکھا جاتا ہے اور وہ کشتیاں گہرے سمندروں سے بندرگاہوں تک کا فاصلہ طے کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایران بھی گوادر سے استفادہ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ روس ابھی سے سڑک اور بندرگاہ دونوں سے فائدہ اٹھانے کی درخواست کر چکا ہے۔گوادر ہمارے لئے قدرت کا ایک عطیہ ہے۔ عین ساحل کے پاس اتنا گہرا سمندر کم از کم ہمارے خطے میں کہیں موجود نہیں۔گوادر اپنی خصوصیات کی بنا پر گردونواح کی ساری تجارت کو اپنی طرف لانا شروع کر دے گا لیکن بد قسمتی سے سیاسی قیادت اتنی اہل نہیں کہ اس تاریخ ساز موقعے سے پورا فائدہ اٹھاسکے۔ بہر حال وقت کے اپنے تقاضے اوررفتار ہوتی ہے جسے ایک موقع پر آکر روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔فی الحال مجھے پاکستان کے سیاسی منظر میں کوئی بھٹوصاحب جیسا ذہین اور غیر معمولی خداداد صلاحیتوں سے مالا مال دکھائی نہیں دیتا۔لیکن کچھ پتہ نہیں‘ کب کوئی ایسا لیڈر دستیاب ہو جائے؟۔
اگر حالات سازگار ہوتے گئے تو عمران خان کی طرف نظر جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے ‘ وہ قیادت کا خلا پُر کر دیں۔لیکن سیاست پرخاندانی قبضے کافی مضبوط ہیں۔ نوازشریف‘ اپنے خاندان اور حواریوں کے ساتھ مضبوط گرفت قائم کر چکے ہیں۔وہ طاقت اور دولت کا استعمال بھی فراخ دلی سے کرتے ہیں۔ انتخابی نتائج پر قبضہ کرنے میں بھی انہیں کافی مہارت حاصل ہے۔ سندھ کی حد تک‘ آصف زرداری مضبوط حیثیت رکھتے ہیں لیکن وہاں ایم کیو ایم کی باقیات کسی بھی وقت یکجا ہو کر‘ ایک علاقائی سیاسی طاقت بن سکتی ہیں۔پاناما لیکس کے سکینڈل نے شریف خاندان اور ان کے حواریوں کی ساکھ کو یقیناً کچھ نقصان پہنچایا ہو گا لیکن ابھی اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ 2018ء میں جب عام انتخابات آئے توپتہ چلے گا کہ نون لیگ کی طاقت آج بھی برقرار ہے یا کرپشن کے سکینڈلز نے اس پارٹی کو کوئی گزند پہنچایا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر امید کی جا سکتی ہے کہ عمران خان کے پاس اپنا ایک ووٹ بنک موجود ہے ۔ تحریک انصاف کی قیادت مستعد اور منظم رہی تو عمران خان اچھی خاصی پوزیشن حاصل کر سکتے ہیں۔مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ اس پارٹی کی قیادت میں بے صبری اور جلد بازی کا جو رجحان پایا جاتا ہے‘ وہ کسی بھی وقت پارٹی کی طاقت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ عمران اپنی پارٹی کو مشکل سے یکجا رکھے ہوئے ہیں لیکن انتخابات کا مرحلہ آیا تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس پارٹی کی قیادت میں اتفاق اور اتحاد قائم کرنا اور رکھنا ممکن رہ سکے گا۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو بلاول کے والد گرامی‘ طبعاً قبضہ گروپ ہیں ‘ وہ کسی کواپنی سیاسی طاقت میں شریک کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ بلاول ابھی سیاست سے نا بلد ہیں۔ وہ آزادی و خود مختاری سے سیاسی پارٹی منظم نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے والد گرامی‘ انہیں ایسا کرنے دیں گے۔جیسے ہی بلاول نے پارٹی پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کی‘ زرداری صاحب کا ردعمل فوراً سامنے آجائے گا اور عین ممکن ہے کہ بلاول ‘ باپ کے سامنے سر جھکا کر بیٹھ جائیں یا بے حوصلہ ہو کر‘ سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں۔فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے لیکن مجموعی طور پر مجھے‘ پاکستان کا سیاسی منظر اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔