"NNC" (space) message & send to 7575

سی پیک اور بھارت

بھارت،پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے سے برافروختہ ہو گیا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جیسے اس منصوبے کی شاخوں اور اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، بھارت یہ سوچنے پر مجبور ہو رہا ہے کہ خطے میں اس کے معاشی مفادات اور مقاصد، پاکستان سے کوئی سمجھوتہ کئے بغیر پورے نہیں ہو سکیں گے۔ بھارت شرقِ اوسط اور مغرب سے تجارت میں دور دراز کے علاقے استعمال کرنے پر مجبور رہے گا۔ نئی اقتصادی راہداری کے بعد، اس کے لئے تجارتی راستوں کی طوالت زیادہ تکلیف دہ ہوتی جائے گی۔ ایک طرف پاک چین اقتصادی راہداری ہو گی اور دوسری طرف گوادر کا راستہ ہو گا، جس کے بغیر مستقبل میں بھارت کی بیرونی تجارت بری طرح متاثر ہو گی۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں، جب بھارت کے لئے پاک چین اقتصادی راہداری سے دور رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اقتصادی راہداری بھارت کو مجبور کر دے گی کہ وہ آنے والے دور میں بیرونی تجارت کے لئے پاکستانی راستوں کا محتاج ہو کر رہ جائے گا۔ ''بھارت 46 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے حامل منصوبے، پاک چین معاشی راہداری (سی پیک) کی مسلسل مخالفت کر رہا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ یہ راہداری اس کے علاقے (پاکستان کے کنٹرول میں کشمیر، جو آزاد کشمیر کہلاتا ہے) میں سے گزرے گی۔ اس موضوع کو کچھ ماہرین نے اپنی بحث کا موضوع بنایا، جو درحقیقت اس نوعیت کی پہلی بحث تھی۔ ماہرین کے ایک پینل نے ہفتے کو مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت میں اس معاشی راہداری کے پاکستان، چین اور بھارت کے تعلقات پر اثرات کا جائزہ لیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاک چین معاشی راہداری کا کشمیر پر لازمی اثر پڑے گا؛ چنانچہ اس خطے کو بھی جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے پس منظر میں بننے والے اس منصوبے کے ثمرات کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پاک چین معاشی راہداری کے معاشی، سیاسی اور تزویراتی پہلوئوں پر بات کرنے کے لیے ''دی کشمیر انسٹی ٹیوٹ‘‘ (ایک تھنک ٹینک جو کشمیر کے تمام حصوں کی بات کرتا ہے جس میں پاکستان، انڈیا اور چین کے مفادات بھی شامل ہیں) کے زیر اہتمام ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ خطے کے تزویراتی عوامل کا جائزہ لینے کے لئے ہونے والے اس سیمینار کا عنوان ''کشمیر پر پاک چین معاشی راہداری کے اثرات کا جائزہ‘‘ تھا۔ 
پاک چین معاشی راہداری پاکستان اور چین کے درمیان بننے والا ایک عظیم منصوبہ ہے، جس میں موٹر ویز، ڈیم، پن بجلی کے منصوبے، ریلوے اور پائپ لائنز شامل ہیں۔ یہ پاکستان کی گہرے پانی کی بندرگاہ، گوادر کو شمالی چین کے علاقے Xinjiang Uyghur Autonomous Region سے ملا دیتا ہے۔ یہ منصوبہ چین کی وسیع تر پیش رفت، ''ون بیلٹ، ون روڈ‘‘ ، جو علاقائی معاشی ہم آہنگی اور روابط کا ہدف رکھتا ہے، کا ایک حصہ ہے۔ تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اس سیمینار میں شرکا نے اس بات پر بحث کی کہ یہ معاشی راہداری جموں اور کشمیر کے معاشی اور سیاسی معروضات پر کس حد تک اثر انداز ہو گی؟ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت جاری ہے۔ گزشتہ سال ایک حریت پسند نوجوان لیڈر، برہان وانی کی شہادت کے بعد پھوٹ پڑنے اور کئی ماہ تک جاری رہنے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران کم و بیش 80 افراد شہید ہو گئے تھے۔ 
سی پیک پر ہونے والی بات چیت کے آغاز کے پر ''دی کشمیر انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے ڈائریکٹر فرہاد شاہ کاکہنا تھا کہ معاشی راہداری جنوبی ایشیا کا ایک اہم منصوبہ ہونے کے ناتے خطے کے معروضی حالات پر لازمی اثر انداز ہو گا؛ چنانچہ کشمیریوں کواس پر بطور خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ سمندری راستے سے محروم یہ وادی، تین ایٹمی طاقت کی حامل ریاستوں، انڈیا، پاکستان اور چین کے درمیان موجود ہے۔ مسٹر شاہ کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ''جیو اکنامک‘‘ منصوبہ خطے کی معیشت اور سیاست پر گہر ے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ان پیچیدہ امکانات کے درمیان، اہمیت اس بات کو ہے کہ کشمیر اپنے مفادات کا تعین کس طرح کرتا ہے؟ اس کے ایک طرف انڈیا اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات ہیں، تو دوسری طرف پاک چین دوستانہ تعلقات ہیں؛ تاہم چین اور انڈیا کے درمیان تنائوکے اپنے مضمرات ہیں۔ The China-Pakistan Axis کے مصنف، اینڈریو سمال، جو ''جرمن مارشل فنڈ‘‘ کے فیلو ہیں، نے سی پیک کی سیاسی اور معاشی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان کی بندرگاہوں کو تجارت کے علاوہ، فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنا چاہتا ہے۔ مسٹر سمال کا کہنا تھا۔۔۔ ''اس وقت چین کی معیشت تبدیلی کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اس کی شرح نمو گر رہی ہے؛ چنانچہ یہ نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے۔ وہ پہلی ترجیح اپنی صنعتوں کو دے گا اور اس میں پاکستان میں قائم کی جانے والی صنعتیں بھی شامل ہوں گی۔ اس وقت چین کی طرف سے کچھ بیانات سامنے آئے ہیں جن میں کشمیر میں لڑنے والے گروہوں کا ذکر ملتا ہے۔ یہ ذکر اسی معاشی راہدری کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔‘‘
اجلاس میں شامل متوازن رائے رکھنے والے گوہر جیلانی، جو ایک سیاسی مبصر اور صحافی ہیں، نے دنیا میں ہونے والی جدید معاشی تبدیلیوں، جن میں پاک چین معاشی راہداری اور اس میں کئی ممالک کی بڑھتی ہوئی دلچسپی بھی شامل ہے ، کے تناظر میں کشمیر کی اہمیت پرروشنی ڈالی۔ اینڈریو سمال نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ نے نئی دہلی اور اسلام آباد، دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ خطے میں تنائو کم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ تنائو اور کشیدگی، معاشی راہداری کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ کشمیر کی یونیورسٹی IUST کے سابق چانسلر اور مورخ، پروفیسر صادق وحید نے کشمیر کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ماضی میں معاشی امکانات کا حجم بہت چھوٹا ہوتا تھا لیکن اب معاشی منصوبے، جیسا کہ سی پیک، سیاسی جغرافیائی معروضات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ پروفیسر وحید کا کہنا تھا۔۔۔ ''طاقت ریاستوں کے پاس ہوتی ہے۔ ہم سی پیک کو پاکستان اور انڈیا سے بھی آگے دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے کشمیر جنوبی اور وسطی ایشیا میں اہمیت حاصل کرنے جا رہا ہے۔ ہم کشمیر، لداخ، جموں اور گلگت بلتستان کے لوگ، وسیع تر ایشیائی خطے کا حصہ ہیں اور میں درحقیقت جموں اور کشمیر کو پاکستان اور انڈیا کے سیاسی معروضات سے آگے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس دوران، میں کشمیر کو کوئی بفر زون نہیں سمجھتا کیونکہ یہ بہت سے صدمات برداشت کرنے کی تاریخ رکھتا ہے۔ اگر پاک چین معاشی راہداری کا منصوبہ آگے بڑھتا ہے تو کشمیر کے لوگ، جنہوں نے اپنی صلاحیت کے مطابق کنٹرول کرنا ہے‘ اس سے مستفید ہوں گے۔‘‘
مقامی تجارتی امکانات پر بات کرتے ہوئے کہ کیا کشمیر، سی پیک سے استفادہ کر پائے گا؟ کشمیر چیمبر آف کامرس کے سابق صدر، مبین شاہ نے اس تصور کی بھرپور وکالت کی کہ کشمیر کے دونوں منقسم حصوں کو ''ایک آزاد تجارتی زون ‘‘ قرار دے دیا جائے۔ مسٹر شاہ کا کہنا تھا۔۔۔ ''پاکستان اور انڈیا، دونوں کو اپنی سیاسی پوزیشن واضح کرنا ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ سی پیک سے بہت کچھ تبدیل نہ ہو لیکن یہ کشمیر کے تنازع کے حل کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہم گھریلو صنعت، دستکاریوں اور ٹیکسٹائل پر توجہ دے سکتے ہیں۔ یہ راہداری زمینی فاصلے کم کرتے ہوئے، کشمیر سے وسطی ایشیا تک کا سفر سستا اور آسان بنا دے گی۔‘‘ یونیورسٹی آف بارکلے سے تعلق رکھنے والے ایک معاشی محقق، زبیر اے ڈار نے سی پیک کے صرف معاشی پہلوئوں پر بات کرنے کی بجائے اس کے ماحولیاتی اثرات کو اپنی گفتگو کا موضوع بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس کے لئے ہونے والی تعمیرات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آلودگی کشمیر کے ماحول کو متاثر کر سکتی ہے۔ انہوں نے پاک چین شراکت داری کو ''فوجی طاقت کے بل بوتے پر قائم ہونے والی گہری تزویراتی پارٹنرشپ‘‘ قرار دیا۔ 
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ سی پیک کس طرح کشمیر کے لئے بے حد اہمیت کا حامل ہو چکا ہے، یونیورسٹی آف کشمیر کے سابق ماہر معاشیات، محمد ابراہیم نے سی پیک کے کشمیر سے تعلق کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے موجودہ معروضی حالات کے پس منظر پر بات کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ''انڈیا سی پیک کے حق میں نہیںکیونکہ اس کی زیادہ توجہ چاہ بہار بندرگاہ میں ہے۔ کشمیر پاکستان کے لیے اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس کے آبی وسائل کا سرچشمہ کشمیر ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں سی پیک دونوں ممالک کے درمیان قیام امن میں معاون ثابت ہو گا۔‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ ایران بھی سی پیک کا حصہ بن کر پاکستان کو قائل کر سکتا ہے کہ وہ بھی چاہ بہار بندرگاہ کو استعمال کرلے۔ اس کے بعد افغانستان بھی اس میں شامل ہو سکتا ہے۔ مسٹر ڈار کا کہنا تھا۔۔۔ ''پاکستان کے کنٹرول میں آزاد کشمیر، میں بننے والے زبردست ترقیاتی منصوبے خطے پر لازمی اثر انداز ہوں گے۔ یہ فیصلہ چین نے خود کرنا ہے کہ وہ اس معاشی ماڈل کو کس طرح استعمال کرے گا؟ ہو سکتا ہے کہ جب سی پیک زیادہ فعال اور طاقت ور ہو جائے تو انڈیا بھی اپنا خیال تبدیل کرکے اس سے استفادہ کرنے کا سوچے۔ یقینا معاشی مفادات سیاسی عوامل پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں