''ایک رات اُن کی لگائی آگ نے جنگی طیارے کو متوجہ کر لیا جس نے بمباری کی اور اس میں کئی قبائلی شہید ہوگئے اور جنگل کا بڑا علاقہ لاشوں سے اٹ گیا۔(یہی وقت تھا جب مجاہدین سری نگر کے ہوائی اڈے پر قبضہ کر چکے تھے۔ا سی ہوائی اڈے پر بھارتی افواج اتاری گئیں۔ یہی وقت تھا جب مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ منسلک ہونے کی دستاویز پر دستخط کئے۔اضافہ'' دنیا‘‘) ان کو بے نقاب کرنے کے بعد مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ منسلک ہونے کی دستاویز پر دستخط کئے۔ 26 سے 30 اکتوبر کے دوران‘ انڈیا نے اپنے کافی فوجیوں کو سری نگر بھیجا تاکہ وہ وہاں قبائلی جنگجوؤں کے خلاف توازن الٹ سکیں۔قبائلیوں کو اس وقت بھی عددی برتری تو حاصل تھی لیکن وہ پیادہ فوجی حکمت عملی کے بجائے گوریلا جنگ کے زیادہ عادی اور ماہر تھے۔اس موقع پر پاکستان کے قبائلیوں کی مدد کے لئے سری نگر پر باقاعدہ حملہ کرنے کی کوشش‘ برٹش جوائنٹ کمانڈ کی مخالفت کی وجہ سے ناکام رہی ‘ جس میں اس وقت تک انڈیا اور پاکستان کی فوجیں تقسیم نہیں ہوئی تھی۔
نومبر کے اختتام تک زیادہ تر قبائلیوں کو اوڑی کے راستے واپس بلا لیا گیا تھا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں دریائے جہلم کا پاٹ تنگ ہوجاتا ہے اور وہاں دفاع آسان ہے۔ اس کے فوراً بعد سردیوں کی برف پڑ گئی جس سے مظفر آباد کی جانب انڈیا کی پیش قدمی رک گئی۔یہاں وہ لکیر کھینچی گئی جو کشمیر کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان تقسیم کرتی ہے۔ 1948ء کے موسم بہار میں پاکستانی فورسز نے باقاعدہ اس مقام پر آکر سرحد کا انتظام سنبھالا تھا۔ پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں شلوزان نامی گائوں سے تعلق رکھنے والے حسین گل‘ نیم فوجی کرم ملیشیا کے فوجی اور اس فورس کے ممبر تھے۔ انہوںنے بتایا ''ہم وہاں حملہ کرنے اور پانڈو نامی پہاڑی چوٹی پر دوبارہ قبضہ کرنے گئے تھے ‘ جس پر خزاں کے دوران انڈیا نے قبضہ کر لیا تھا۔ وہ ایک اچھی فتح تھی۔ ہم نے کشمیر کے قابل ذکر علاقے پر قبضہ کر لیا لیکن پھر بھی خاصا گنوا دیا۔ اس سے ہمیں صدمہ پہنچا ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے اپنے گھر کا حصہ کھو دیا ہو‘‘۔ان کے والد‘ اس سے پہلے اپنے چند دوستوں کے ہمراہ لڑائی کے لیے گئے تھے لیکن ہار کے واپس آئے۔ تاہم وہ اپنے ساتھ لوٹا ہوا مال اور سونا لے آئے تھے۔ گوہر رحمان دیگر کئی قبائلیوں کے ہمراہ اس وقت گڑھی حبیب اللہ پہنچے ‘جب موسم سرما کی برفباری ہو رہی تھی ۔ انہوں نے بتایا ''وہ سب جنگ کے دوران حاصل کئے ہوئے لوٹ کے مال کے ساتھ واپس آئے تھے۔ چند مویشی اور زیادہ تر اسلحہ اپنے ہمراہ لے آئے تھے۔ اس حملے نے نہ صرف اچھی طرح سے آباد اور امن پسند کشمیری سوسائٹی کو صدمے سے دوچار کیا بلکہ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات پر تباہ کن اثرات مرتب کئے۔( چند الفاظ حذف۔''دنیا‘‘)
قبائلیوں کے حملے کی ٹائم لائن:۔
3 جون 1947ئ: جون پلان جسے ماؤنٹ بیٹن منصوبہ بھی کہا جاتا ہے ایک اجلاس میں منظور کیا گیا۔ یہ انڈیا کے آزادی ایکٹ 1947ء پر اختتام پذیر ہوا جس میں برطانوی انڈیا کو دو آزاد ریاستوں یعنی پاکستان اور انڈیا میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کو جولائی میں شاہی منظوری حاصل ہوئی۔
15 جون: 'نو ٹیکس‘ مہم کی صورت میں ریاست کشمیر کے اندرونی علاقے پونچھ میں ایک مزاحمتی تحریک کا آغاز ہوا۔
15 اگست: پونچھ کے علاقے باغ میں قتال کی اطلاعات موصول ہوئیں جہاں پاکستان کے حامی گروپوں نے پاکستانی پرچم بلند کرکے یوم آزادی منانے کی کوشش کی اور ریاستی پولیس کے ساتھ تصادم ہوا۔
12 ستمبر: وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے فوجی اور شہری حکام کے ساتھ ملاقات کی جس میں مبینہ طور پر دو مختلف منصوبوں پر عمل درآمد کی منظوری دی گئی۔ اس میں کشمیر پر شمال سے حملہ کرنے کے لیے قبائلی فورس کی تیاری اور پونچھ میں باغیوں کو مسلح کرنا شامل تھا۔
4 اکتوبر: باغیوں اور ریاستی فورسز کے درمیان تھورار کے مقام پر جھڑپیں ہوئیں اور پونچھ میں ریاستی فورسز کا محاصرہ کیا گیا۔
22 اکتوبر: قبائلی گروپوں نے مظفرآباد پر حملہ کیا پھر مشرق کی جانب چلے گئے تاکہ بارہ مولا پر قبضہ کیا جا سکے۔ چند جنگجو سری نگر کے مضافات تک جا پہنچے۔
24 اکتوبر: پونچھ کے علاقے میں موجود ایک پاکستان حامی جاگیردار سردار ابراہیم نے آزاد جموں و کشمیر کی حکومت بنانے کا اعلان کر دیا اور خود کو اس کا سربراہ مقرر کر دیا۔
26 اکتوبر: کشمیر کے مہاراجہ جو اپنے ریاستی آبادیاتی ڈھانچے کی بنیاد پر آزاد رہنے پر تیار تھے۔ ممکنہ طور پر دباؤ میں آکر انڈیا سے منسلک ہو گئے۔
27 اکتوبر: انڈیا کے فضائی اور بری فوجی دستوں نے سری نگر پہنچنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد قبائلی حملہ آوروں کا توازن پلٹنا شروع ہوا اور کشمیر اس لکیر کے ذریعے تقسیم ہوا جو آج کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔‘‘