1995ء کے بعد‘ عالمی تجارتی پالیسی پہلی مرتبہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ یہ تبدیلی دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی کامرس میں آنے والے وسیع تر انقلاب کی نمائندگی کرتی ہے۔ گزشتہ آٹھ ماہ سے اکنامکس کا میڈیا‘ تجارتی پالیسیوں کی سیریز شائع کر رہا ہے تاکہ عالمی معیشت کے عظیم ترین کھلاڑیوں کے محرکات کو واضح کیا جا سکے کہ وہ کس طرح بدلتے ماحول کو گرفت میں لانے کی کوشش میں ہیں۔ عالمی تجارتی نظام‘ دوسری جنگِ عظیم کے بعد‘ امریکہ نے قائم کیا تھا۔ جنگ کے بعد کے عشروں میں‘ امریکہ او ر یورپ نے باہمی اشتراک سے اپنی معیشتوں کو بتدریج آزادی دینا شروع کی۔ اس عمل میں جاپان جیسی عظیم معیشتوں کا عالمی اثر ختم ہوتا گیا۔ جب جنرل ایگریمنٹ آن ٹیرف اینڈ ٹریڈ (GATT) کے نتیجے میں عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کی تخلیق عمل میں آئی تو اشیا اور محصولات میں کمی واقع ہوتی گئی۔ ابھرنے والی گلوبلائزڈ دنیا نے‘ تیز تر صنعتی پیداوار کیلئے مضبوط بنیاد فراہم کی۔ اس کے نتیجے میں چین جیسے ممالک امریکی اداروں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں آ گئے۔
پھر عالمی تجارتی تنظیم جمود کا شکار ہو گئی۔ کئی قسم کی رکنیت کی وجہ سے‘ کسی اتفاق رائے پر پہنچنا ناممکن ہو گیا کہ یہ تنظیم‘ عالمی تجارت کو کس طرح آگے لے کر جائے؟ آزاد تجارت جدید معیشت میں ہونے والی تبدیلیوں کی رفتار کا ساتھ دینے میں ناکام رہی۔ جب مغربی معیشتوں نے سروسز اور ڈیجیٹل کامرس جیسے شعبے متعارف کرائے تو عالمی تجارتی تنظیم کے اصول‘ جو اشیا کی تجارت کے حوالے سے تو بہت مضبوط تھے‘ سروسز کی فراہمی پر کمزور دکھائی دینے لگے‘ انہیں پس پشت ڈال دیا گیا۔ کثیر الجہتی محاذ پر آگے بڑھنے میں ناکامی کا سامنا کرنے پر ہم خیال ممالک نے چھوٹے چھوٹے گروپس میں‘ تجارتی معاہدوں پر کام شروع کر دیا‘ جیسا کہ ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ اور سروسز کی فراہمی کے معاہدے۔ اس دوران عالمی تجارتی تنظیم‘ بڑی حد تک اشیا کی تجارت سے متعلق‘ اصولوں کو نافذ کرنے والا ادارہ تھی، جبکہ رکن ممالک کو امید تھی کہ علاقائی معاہدوں پر دستخط کیے جا سکتے ہیں اور ان معاہدوں کو عالمی سطح پر بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔ یہ ہیں وہ معروضی حالات جنہیں اب چیلنج کا سامنا ہے۔
یہ چیلنج اب امریکہ کی طرف سے بڑھ رہا ہے۔ دنیا کی عظیم ترین معیشت کیلئے‘ وہ روابط درد سر بنے ہوئے ہیں جو اس نظام پر براہ راست سوال اٹھانے سے روکتے ہیں۔ امریکہ تجارتی تنازعات کی سماعت کرنے والے ججوں کی منظوری دینے سے انکار کرتے ہوئے‘ عالمی تجارتی تنظیم کو خود چیلنج کر رہا ہے۔ صرف یہی نہیں‘ امریکہ یکطرفہ تجارتی ازالے کے نظام کو بھی فعال کر رہا ہے۔ ایسا 1980ء کی دہائی کے بعد‘ اب ہو رہا ہے۔ 2017 ء میں امریکہ نے ٹی پی پی سے خود کو الگ کر لیا تھا۔ اب میکسیکو اور کینیڈا کے علاوہ ‘جنوبی کوریا کے ساتھ تجارتی روابط بحال کرنے کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔
دنیا بھر سے دو طرفہ تعلقات‘ امریکہ کی ضرورت ہیں۔ اس صورت میں کئی ممالک کے بجائے دو ممالک کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں۔ دو طرفہ تعلقات کی اس دنیا میں‘ بڑے کھلاڑیوں کا فائدہ اور چھوٹوں کو نقصان ہو گا۔ عالمی نظام میں امریکہ کا کردار‘ بے چینی پیداکرنے والے عامل جیسا ہے۔ 1945 ء سے امریکہ عالمی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس کی کرنسی دنیا بھر کی تجارت میں قبول کی جاتی ہے۔ سرحدوں سے ماورا نظام میں امریکہ ہی مرکز ثقل ہے۔ اس اہمیت سے سرمایہ کاری کے بہائو کا رخ اس کی طرف رہا ہے۔ اس سے تجارتی خسارہ‘ ایک سطح پر برقرار رہا اور اشیائے صرف کی مارکیٹ میں پھیلائو دکھائی دیا۔ اس وقت امریکہ میں بیرونی سرمایہ کاری 8 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔
امریکی عدم اطمینا ن کی بنیادی وجہ جاننے کیلئے‘ چین کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت نے‘ امریکہ اور یورپی یونین کے قائم کردہ تجارتی ڈھانچے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کئی عشروں کا معاشی جمود توڑ دیا۔ عالمی تجارتی تنظیم کی رکنیت نے‘ چین کو دنیا بھر میں فیکٹریاں لگانے کی اجازت دے دی۔ چین ترقی پذیر ممالک سے خام مال خرید کر‘ مصنوعات تیار کرتا ہے۔ پھر دوبارہ انہی ممالک کو فروخت کر دیتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ٹیرف بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ وہاں کی مارکیٹیں چینی اشیا کے بہائو کے سامنے‘ اپنا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔ جدید تجارت پر عالمی قوانین کے کنٹرول کا نہ ہونا چین کے حق میں جاتا ہے۔ جہاں تک یورپی یونین کا تعلق ہے تو یہ ابھی تک امریکہ کے طے کردہ راستے پر گامزن ہے۔ جدید اور ترقی یافتہ معیشت رکھنے والا یہ بلاک‘ اہم تجارتی شراکت داروں کے ساتھ معاہدے چاہتا ہے۔ اپنی تخلیق کے وقت سے ہی‘ یورپی یونین کی خواہش رہی ہے کہ وہ عالمی تجارت کا معیار اپنی مرضی سے طے کرے۔ اس طرح ہمارے سامنے تین اہم کھلاڑی ہیں۔ ایک امریکہ جو نظام کو برہم کرنے پر تلا ہوا ہے، دوسرا چین ‘ موجودہ صورت حال کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہے، اور تیسرا یورپی یونین‘ جو موجودہ سطح سے بہت آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
جاپان حالیہ برسوں کے دوران تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد‘ جاپان عالمی سٹیج پر آزاد معیشت سے گریزاں تھا؛ تاہم حالیہ برسوں کے دوران‘ اس کی تجارتی پالیسی میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کے قریب جنوبی کوریا ہے جو خود بھی فروغ پذیر معیشت ہے۔ جنوبی کوریا کو اپنے عقربی ہمسائے‘ چین کی موجودگی کا احساس ہے۔ جاپان اور جنوبی کوریا دونوں کے ذہن میں چین کا خطرہ موجود ہے۔ اس لئے دونوں ممالک‘ امریکہ کے ساتھ وابستہ بڑھانا چاہتے ہیں۔ جاپان اور یورپ آزاد تجارت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ 2017ء کے دوران ان کے درمیان بڑے تجارتی معاہدے دیکھنے میں آئے۔ برطانیہ کے سامنے ایک مشکل چیلنج موجود ہے‘ وہ یورپی یونین کی آرام دہ فضا سے نکلنے والا ہے۔ اس کی 43فیصد برآمدات کی منزل‘ یورپی یونین کی مارکیٹیں ہیں۔ یہ اپنی 54 فیصد درآمدات اسی بلاک سے کرتا ہے۔ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت رکھنے والے برطانیہ کا تجارتی خسارہ اسے پریشانی سے دوچار کر سکتا ہے۔ اس سے نبرد آزما ہونے کیلئے برطانیہ‘ صنعتی اشیا کے برآمد کندگان کے ساتھ تجارتی معاہدے کر سکتا ہے۔ عالمی تجارت تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ امریکہ اپنے رویے سے یہ واضح کر رہا ہے کہ وہ خود کو ایک عالمی رہنما نہیں سمجھتا۔ چین اور یورپی یونین مل کر پوزیشن سنبھال سکتے ہیں مگر ان کے نظریات میں حد درجہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم اور ترقی کرتے ہوئے علاقائی معاہدے‘ CPTPP میں نہ چین شامل ہے اور نہ ہی یورپی یونین۔ اس کے مقابلے میں چین RCEP کو آگے بڑھا رہا ہے۔ یہاں بھی اس کے ارکان مختلف مفادات رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ چین کو بھارت کی طرف سے سروسز کی فراہمی بھی پریشان کر رہی ہے۔ اس وقت عالمی تجارتی متزلزل ہے۔
اس مضمون سے عالمی نظام کی تفہیم اور بحالی یا تشکیل نوکے معروضات اور امکانات سمجھنے میں مدد دے گی۔ (استفادہ: Stratfor)