"NNC" (space) message & send to 7575

زمانہ چال قیامت کی چل گیا

امریکہ کی کوشش ہے کہ چھوٹے اور تیز رفتار ایٹمی اسلحے کی تیاری کے لئے بڑی طاقتوں میں‘ جس سمجھوتے کے لئے مزید بحث اور شرائط طے پا رہی ہیں‘ پاکستان کو مناسب سٹیٹس نہ دیا جائے۔ پاکستان کو صرف تین ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ اگر پاکستان ان شرائط پر پورا اترا تو بہت سی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی ورنہ مشکلات کا ایک نیا امتحان‘ ہمارے سر پہ کھڑا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) میں ہماری شرکت کا وقت تیزی سے نکل رہا ہے اور ہمیں جون تک گرے ایریا دیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ کیا ہے؟ اور ہمارے لئے عجلت کرنا کتنا اہم ہے؟ زیرِ نظر تحریر سے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
''امریکہ ایک بار پھر عالمی طاقتوں کے درمیان کشمکش بڑھانے جا رہا ہے۔ 19 جنوری کو پینٹاگون نے نیشنل ڈیفنس سٹریٹیجی جاری کی۔ یہ گزشتہ دس برسوں میں جاری کی جانے والی پہلی سٹریٹیجی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چین اور روس کی عسکری صلاحیتوں میں اضافے کی وجہ سے بڑھنے والی ''تزویراتی مسابقت‘‘ امریکی خوشحالی اور سکیورٹی کے لیے اصل چیلنج ہے۔ سیکرٹری دفاع جیمیز میٹس نے ''Nuclear Posture Review‘‘ کے ابتدائیے میں اس تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ایٹمی ہتھیاروں میں کمی لانے کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ روس اور چین اپنے غیر روایتی ہتھیار وں کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔ امریکہ کا ''بیلسٹک میزائل ڈیفنس رویو‘‘ جس کی جلد اشاعت متوقع ہے‘ اسی اہم نکتے پر زور دے گا کہ امریکہ کو میزائل ڈیفنس بہتر بنانا چاہیے۔ ایسا کرتے ہوئے امریکہ تزویراتی مسابقت سے پیدا ہونے والے خطرے کا تدارک کر سکتا ہے۔ ان دستاویزات میں مشترکہ مسئلہ دہشت گردی نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان مسابقت ہے۔ یہی چیز امریکی سکیورٹی کا اگلا ہدف ہے۔ امریکہ وسائل‘ صلاحیتیں اور رسائی کو برئوے کار لاتے ہوئے‘ چین اور روس کی طرف سے اٹھنے والے چیلنجز کو ناکام بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ امریکی پالیسی اپنی جگہ لیکن بیجنگ اور ماسکو پیچھے ہٹنے کاکوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ عدم استحکام سے دوچار کرنے والی نئی دفاعی ٹیکنالوجی کا استعمال معمول بنتا جا رہا ہے۔ ڈیفنس پالیسی جائزے کے سامنے آنے سے پہلے بھی‘ چین اور روس کے ساتھ کشمکش امریکی ریڈار پر موجود تھی۔ امریکہ نے صدر اوباما کے دور میں ''بحرالکاہل پر توجہ‘‘ کی پالیسی آگے بڑھائی۔ اس کا مرکزِ ثقل‘ خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی بالا دستی کا راستہ روکنا تھا۔ اسی طرح روس کی یوکرائن میں مداخلت کے بعد سے‘ امریکہ نے یورپ میں فوجی طاقت بڑھانا شروع کر دی ہے۔ ا س سے پہلے امریکہ‘ یورپ سے فوجی قوت کو بتدریج کم کرنے پالیسی رکھتا تھا۔ پینٹاگون نے ''تیسرے توازن‘‘ کی پالیسی بھی بنائی۔ اس پالیسی میں جدید ٹیکنالوجی‘ ربورٹس اور مصنوعی ذہانت کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال میں لانا ہے۔ سابق صدر اور بش انتظامیہ کے دور میں‘ امریکہ کا اصل ہدف انسدادِ دہشت گردی تھا۔ مشرقِ وسطیٰ میں جاری مختلف کشمکشوں میں‘ امریکہ نے خاطر خواہ فوجی طاقت کا استعمال کیا۔ تب امریکہ کی تمام تر توجہ کا ارتکاز دہشت گردی کا خاتمہ تھا۔ اس کا فائدہ روس اور چین نے اٹھایا۔ جب جب امریکہ ان جنگوں میں الجھا ہوا تھا‘ یہ ممالک اپنی فوجی اور معاشی طاقت میں اضافہ کرتے گئے۔ چند ایک دفاعی شعبوں ‘جیسے اینٹی شپ میزائل‘ راکٹ اٹلری اور زمین سے فضا میں مارکرنے والے ڈیفنس سسٹم میں‘ ایشیا کے یہ عظیم ممالک امریکہ سے آگے نکل گئے۔ اس پیش رفت کو دیکھتے ہوئے امریکہ کے پریشان ہونے کی حقیقی وجہ موجود ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس مسابقت کو نظر انداز کرنا اُس کی خوشحالی اور سکیورٹی کے لیے مہلک ثابت ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کرۂ ارض کی عظیم ترین فوجی طاقت ہے۔ اگر وہ اس میں مزید اضافہ کرتا ہے تو ا س کے نتیجے میں یہ مسابقت اور بڑھے گی۔ اس دوران روس‘ چین اور امریکہ کے درمیان محاذ آرائی میں شدت بڑھتی جائے گی‘ عسکری ٹیکنالوجی کی جدت‘ پریشان کن ہتھیاروں کی دوڑ کو مزید تیز کر دے گی۔ مثال کے طور پر میزائل ڈیفنس سسٹم کی صلاحیت میں ہونے والا اضافہ مزید مؤثر میزائل بنانے کی ضرورت بنتا جائے گا۔ فی الحال میزائل ڈیفنس سسٹم صرف امریکہ‘ روس اور چین کے پاس ہے اور یہ صلاحیت محدود ہے۔ اس سسٹم میں آنے والی جدت سے یہ ممالک خوف محسوس کریں گے کہ ان کے ہتھیار بے کار ہو گئے ہیں۔ اگر میزائل ڈیفنس سسٹم میں امریکہ کو برتری حاصل ہو جائے تو روس اور چین بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ ایٹمی ہتھیار وں میں جدت‘ تنائو کی فضا کو مزید گہرا کرے گی۔ امریکہ کے ''Nuclear Posture Review‘‘ کے مطابق‘ امریکہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور اُن کے ممکنہ استعمال کے بارے میں نئی پالیسی بنا رہا ہے۔ اس میں کم طاقت کے ہتھیار بھی شامل ہیں‘ جو آبدوزوں سے فائر کیے جا سکیں گے۔ چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری امریکہ کے لیے کوئی نئی پیش رفت نہیں۔ اس سے ممکنہ دشمن ممالک‘ چاہے وہ روس جیسی طاقت ہو یا شمالی کوریا جیسی ''بدمعاش ریاست‘‘، خود کو مہیب خطرے کی زد میں پائیں گے۔ اس کے ردِعمل میں وہ بھی مقابلہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس صورتِ حال میں چھوٹی فوجی طاقت رکھنے والی ریاستیں‘ ایسے جوہری ہتھیار بنانے یا حاصل کرنے کی کوشش کریں گی جن کا خوف ان کے طاقتور حریف کو جارحیت کرنے سے باز رکھے۔ کم طاقت کے جوہری ہتھیاروں کو آبدوزوں سے فائرکیے جانے والے میزائلوں میں نصب کرنے سے امریکہ کو اپنے حریفوں پر سبقت مل جائے گی۔ اس فیصلے میں بھی بہت سے خطرات لاحق ہیں۔ پہلا یہ کہ ایک کم طاقت کے جوہری ہتھیار کا حملہ ایک بھرپو ر ایٹمی جنگ کے شعلے کو بھڑکا دے گا۔ اگر دشمن ملک کسی آبدوز سے فائر کیے جانے والے میزائل کا سراغ لگا لے تو وہ اس کے جواب میں کم طاقت کے ایٹمی حملے نہیں بلکہ اپنی بھرپور ایٹمی قوت کو متحرک کرے گا۔ ایسے ہتھیاروں کی تیار ی خطرے کو مزید بڑھا دے گی۔ 
ہتھیاروں کی صنعت اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ آرمز کنٹرول معاہدے بے کار ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکہ 2002ء میں اے بی ایم (اینٹی بلیسٹک میزائل) معاہدے سے نکل گیا تھا۔ ایک اور انتہائی اہم معاہدہ ''آئی این ایف‘‘ (انٹر میڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز) بھی سخت دبائو کا شکار ہے۔ اگر امریکہ اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھاتا رہا تو اس معاہدے کی بقا کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ میزائل ٹیکنالوجی اور سپر فیوز ٹیکنالوجی میں‘ امریکہ کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری‘ روس اور چین کو بھی اپنی جارحانہ صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی راہ دکھائے گی۔ اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی اسلحے کی دوڑ‘ آئی این ایف کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔ اسلحہ سازی کو کنٹرول کرنے و الے اہم معاہدوں کے خاتمے اور تباہ کن ٹیکنالوجی میں جدت‘ عالمی نظام کو عدم استحکام سے دوچار کر دے گی۔ خطرناک اسلحے کی دوڑ سے عدم اعتماد کی فضا مزید گہری ہو گی۔ عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیں گی۔ اس طرح دنیا دو قطبی تنائو کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ایک طرف امریکہ اور دوسری روس اور چین ہو گا‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں