چند ماہ پہلے میں نے سائنسی شعبے میں امریکہ اور چین کی مقابلہ آرائی کا تذکرہ کیا تھا۔ ذیل میں ربیکا کیلر کا تازہ تجزیہ پیش خدمت ہے۔ملاحظہ فرمائیے۔
'' سوشل میڈیا میں کوئی نہ کوئی تازہ تنازع سامنے آ جاتا ہے۔ ہمیں فکر رہتی ہے کہ ہماری معلومات کس کے پاس ہیں؟ کون ہماری خریداری یا انٹرنیٹ پر تلاش کی عادات کے بارے میں جانتا ہے؟ ہو سکتا ہے کوئی ان معلومات کی بنیاد پر اشیا یا سیاست دانوں کے اہدافی اشتہارات جاری کر رہا ہو؟ اس کے ساتھ ساتھ سخت کنٹرول‘ پرائیویسی کے تحفظ اور زیادہ شفافیت کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ یورپ اسی ماہ پرائیویسی سے متعلق نئے ضوابط کا اطلاق کرے گا۔ یہ سال بھر جاری رہنے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ اس اقدام سے بالآخر امریکہ میں بھی اسی نوع کی پالیسیوں کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے اس دوران لوگ اپنے ڈیٹا کی حفاظت کے لیے خود اقدامات کریں۔ اس ردِ عمل کے اثرات ہمارے لیپ ٹاپس یا سمارٹ فونز سے بہت آگے تک بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے چین کے ساتھ امریکہ کے مقابلے کے اگلے مرحلے میں‘ امریکہ کو بے بس کر دے گا۔سوویت یونین ٹوٹنے کے ایک چوتھائی صدی سے زیادہ عرصہ بعد‘ دنیا آہستہ آہستہ یک قطبی نظام سے پرے ہٹ رہی ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں عالمی اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کر رہی ہیں تو ٹیکنالوجی بتدریج ان کی کشمکش کا ایک اہم حصہ بن جائے گی۔ انتشار پیدا کرنے والی ٹیکنالوجی ‘ جیسے مصنوعی ذہانت میں نئی ایجادات اور اختراعات ان طور طریقوں کو تبدیل کرنے کا باعث بن رہی ہے‘ جن کے تحت کوئی معیشت کام کرتی ہے۔ کئی کلیدی شعبوں میں چین اپنے قریبی ترین حریف‘ امریکہ کے برابر چل رہا ہے اور مصنوعی ذہانت میں تو یہ جلد ہی امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔
مصنوعی ذہانت کے اکھاڑے میں اس وقت جتنے مقابلہ کرنے والے موجود ہیں ‘ ان میں چین انفرادی پرائیویسی کو سب سے کم اہمیت دیتا ہے جبکہ یورپی یونین والے نجی پرائیویسی کا سب سے زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے امریکہ کا نمبر کہیں درمیان میں آتا ہے۔ حال ہی میں رونما ہونے والے کچھ واقعات کی وجہ سے‘ امریکہ بھی پرائیویسی پالیسی کو سخت بنانے پر مجبور نظر آتا ہے۔ خصوصی طور پر جب سے کیمبرج اینالیٹیکا کی جانب سے 2016ء کے صدارتی الیکشن میں سیاسی اشتہارات کو ہدف بنانے کے لئے فیس بُک کا ڈیٹا استعمال کرنے کا سکینڈل سامنے آیا ہے‘ امریکہ میں عوام کی جانب سے نجی پرائیویسی کے حوالے سے مطالبات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ذاتی ڈیٹا پر ان کا اپنا زیادہ سے زیادہ کنٹرول ہو۔یاد رہے کہ کیمبرج اینالیٹیکا ایک برطانوی سیاسی کنسلٹنگ فرم ہے‘ جو مختلف حوالوں سے اعداد و شمار اکٹھے کرکے سیاستدانوں کی متفرق شعبوں میں مدد کرتی ہے۔ 2016ء کے امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لئے اس فرم کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔جب سے یہ سکینڈل منظر عام پر آیا ہے‘ محض امریکہ ہی نہیں پوری دنیا میں احتجاج ہو رہا ہے۔
آن لائن پلیٹ فارم‘ جیسے سوشل میڈیا نیٹ ورکس‘ ریٹیل سائٹس‘ سرچ انجنز اور رائیڈ ہیلنگ ایپس‘ سب کے سب اپنے صارفین سے وسیع پیمانے پر ڈیٹا حاصل کرتے ہیں‘ یعنی ان کا ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔ فیس بک 98 کیٹیگریوں میں 200 بلین ڈیٹا پوائنٹس اکٹھا کرتی ہے۔ ایمازون کی حقیقی نائب ''الیکسا‘‘ اپنے صارفین کے رویوں کی لا تعداد جہتوں کا احاطہ کرتی ہے۔ میڈیکل ڈیٹا بیس اور جینیالوجی (علم الانساب) ویب سائٹس‘ صحت اور جینیاتی معلومات کے حوالے سے اعداد و شمار اکٹھا کرتی ہیں۔ اور جی پی ایس (گلوبل پوزیشننگ سسٹم) سمارٹ فون پر ہماری ہر حرکت کا جائزہ لیتا رہتا ہے۔ اکٹھے کئے گئے اس ''ڈیٹا کی دولت‘‘ کی بنیاد پر مصنوعی ذہانت کی اپلیکیشنز‘ ہماری روزمرہ زندگی میں آن لائن شاپنگ سے کہیں زیادہ بڑے اور وسیع انقلابات برپا کر سکتی ہیں۔ جیسے مختلف بیماریوں کا ٹریک ریکارڈ مرتب کرنا‘ مستقبل میں کسی وبا کے پھوٹ پڑنے کے خدشات کو کم کرنا‘ سمجھ نہ آنے والے فوجداری مقدمات کے حل میں مدد فراہم کرنا‘ ٹریفک جام سے بچائو کے لیے طریقے اور معلومات سے آگاہ کرنا‘ انشورنس پالیسی خریدنے کے خواہش مندوں کو بہتر گائیڈنس دینا‘ الیکٹریکل گرڈز کی استعداد کار بڑھانا‘ فاضل مادوں کے اخراج کو کم کرنا۔ مصنوعی ذہانت کے ان پروگراموں کی وجہ سے وسیع پیمانے پر حاصل ہونے والی پیداواری کامیابیوں کے نتیجے میں عالمی معیشت کی ترقی کی رفتار تیز ہو جانے کے امکانات
کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایسے پروگراموں کے تخلیق کار‘ کوئی بھی ڈیٹا اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ معیار بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے جتنا کہ مقدار؛ چنانچہ اعداد و شمار اکٹھا کرنے کے طریقے تمام تر موروثی تعصبات سے بالا تر ہونے چاہئیں۔ مثال کے طور پر کوئی ڈیٹا اخذ کرنے کے لئے پہلے سے اس عمل میں حصہ لینے والوں کا انتخاب اس معاملے کو متعصبانہ بنا دے گا۔ اسی طرح پرائیویسی پر ضرورت سے زیادہ زور دینا حاصل ہونے والے ڈیٹا کا رخ مخصوص طبقات کی طرف موڑ سکتا ہے اور ٹھیک ٹھیک ڈیٹا اکٹھا نہیں ہو گا کیونکہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے تمام صارفین اتنے وسائل نہیں رکھتے کہ وہ کوئی ایسا آن لائن پلیٹ فارم استعمال کرنے کی قیمت ادا کر سکیں ‘ جو ان کی پرائیویسی کو بہتر بنا دے۔
اعداد و شمار اکٹھا کرنے کے عمل میں زیادہ شفافیت کی ضرورت مغرب میں مصنوعی ذہانت کو فروغ دینے والوں کیلئے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ یورپین یونینز جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشنز‘ جو 25 مئی سے موثر ہونے جا رہے ہیں‘ یورپی یونین کے باشندوں کا ڈیٹا ہینڈل کرنے والی کمپنیوں کیلئے پابندیوں میں اضافہ کر دیں گے۔ یاد رہے کہ ان کمپنیوں میں سے زیادہ تر کے ہیڈ کوارٹرز امریکہ میں ہیں اور وہیں سے سارے معاملات کو ہینڈل کیا جاتا ہے۔ نئے ریگولیشنز کا نفاذ ایک مشکل امر ہو سکتا ہے لیکن کا اتنا فائدہ ضرور ہو گا کہ دنیا بھر میں ایسی کمپنیوں پر دبائو بڑھے گا کہ وہ اپنی ڈیٹا ٹرانسپیرنسی کو بہتر بنائیں۔ اگرچہ امریکہ میں مصنوعی ذہانت کے انقلاب سے معاشی فائدہ اٹھانے کے حوالے سے صورتحال خاصی بہتر ہے‘ لیکن پرائیویسی کے سلسلے میں بڑھتا ہوا دبائو اگلی ایک دہائی میں تکنیکی ترقی کی رفتار پر اثر انداز ہو سکتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ احتیاطی طور پر وضع کئے گئے ریگولیشنز کی وجہ سے ٹیکنالوجی کی ترقی کے عمل کو گمبھیر نوعیت کے خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ یورپی یونین کی بات کی جائے تو ریگولیشنز کے حوالے سے‘ وہ کوئی رد عمل آنے سے پہلے ہی محتاط رہنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ یہ ایسا طرز عمل ہے جس نے یورپی یونین کے ٹیک (ٹیکنالوجی) سکیٹر کی ترقی کی رفتار کو متاثر کیا ہے۔ یہ دھیمی پڑ گئی ہے۔ اس کے برعکس امریکہ میں نئی ٹیکنالوجی کو پھیلنے اور فروغ پانے کی مکمل آزادی ہے۔ حال ہی میں سول لبرٹیز کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ‘ ان کو پیش نظر رکھا جائے‘ تو اس خدشے کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ اس شعبے میں امریکہ ‘چین سے پیچھے رہ جائے گا۔یہ سارے ایسے ایشوز ہیں‘ جن کی چین کو فی الحال کوئی فکر نہیں ہے۔ چین کے شہری فی الوقت پرائیویسی کے حوالے سے اتنے حساس نہیں ہیں جتنے مغربی ممالک۔ اسی لئے چین کو ویسے دبائو کا سامنا نہیں ہے‘ جیسا کہ امریکہ میں ہے۔ چین کے باشندوں نے اپنی ریاست کو یہ اجازت دے رکھی ہے کہ وہ ان کا ڈیٹا اکٹھا کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں مصنوعی ذہانت کے پروگرام تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں‘ تاہم طویل مدتی معاملات کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں چین کو بھی امریکہ جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چینی کارپوریشنیں پرائیویسی کو اہمیت دیتی ہیں اور وہ اپنی ایجادات اور اختراعات کی حفاظت کرنے کی تگ و دو بھی کرتی ہیں۔ چین کی نوجوان نسل اور تیزی سے بڑھتے ہوئے متوسط طبقے میں اپنی ذاتی معلومات کو محفوظ رکھنے میں‘ زیادہ دلچسپی لی جا رہی ہے۔ چین میں انٹرنیٹ پرائیویسی کے بارے میں آگہی بڑھ رہی ہے۔ چین ہو یا امریکہ یہ واضح ہے کہ مصنوعی ذہانت کے پروگراموں پر بڑھتی ہوئی پابندیاں مسائل کو بڑھانے کا باعث بنیں گی۔ میرے خیال میں اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے‘‘۔