"NNC" (space) message & send to 7575

شعلوں میں شانتی

سندھ کے وزیراعلیٰ ‘مراد علی شاہ نے اپنا سرکاری گھر خالی کر دیا ہے۔غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ کسی وزیراعلیٰ نے ہفتوں پہلے اپنی سرکاری قیام گاہ خالی کردی ہو ۔ اب وہ اپنے نجی انتظام کے تحت رہنے لگے ہیں۔ہو سکتا ہے لاہور والوں کو مشکل میں ڈالنے کے لئے زرداری صاحب نے جان بوجھ کرایسی صورت حال پیدا کر دی ہو کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ ہر چند اس وقت کسی سرکاری منصب پر فائز نہیں ہیں۔ بھارتی وزیراعظم بھی اپنی مدت اقتدار پوری کرنے والے ہیں۔متعدد وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ حلف اٹھانے سے کچھ وقت پہلے ہی اپنا سرکاری گھر دیکھ کر‘ وہاں کی ڈیکوریشن خود کراتے ہیں۔ میاں صاحب کے حالات مختلف ہیں۔انہوں نے جب وزرات عظمیٰ چھوڑی تو اپنا سرکاری گھر بھی فوراً چھوڑ دیا تھا۔یہ تحقیق اس لئے کرنا پڑی کہ مجھے تازہ صورت حال میں علم نہیں تھا کہ میاں صاحب کہاں قیام پذیر ہیں؟ بطور وزیراعظم میاں صاحب‘ اسلام آباد میں اپنے لئے مختص محل نما گھر میں رہتے تھے۔ اب صرف بطور مہمان ‘اسلام آباد کے پنجاب ہائوس میں رہائش پذیر ہیں۔آج اتفاق سے میری نظر سندھ کے وزیراعلیٰ ‘ مراد علی شاہ پر گئی۔ خبر تھی کہ مراد علی شاہ نے اپنا سرکاری گھر حاصل کرنے سے پہلے ہی‘ وزیراعلیٰ ہائوس چھوڑ دیا ہے ۔میں اب کراچی میں بہت کم آتا جاتا ہوں۔ مراد علی شاہ کے والد بھی وزیراعلیٰ تھے۔ مجھے علم نہیں کہ وہ اپنے والد کے گھر میں رہتے ہیں یا وزیراعلیٰ کی رہائش میں رہنا ہی پسند کیا ہو۔ بڑے عہدیداروں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ چھیڑ خانی کے لئے طنزاً پوچھ لیتے ہیں کہ ''سنائیں شاہ جی! وزیراعلیٰ کا گھر ملا؟ یا کوئی اور تلاش کر لیا ہے؟‘‘ غالباً لوگوں کی پوچھ گچھ سے پہلے ہی انہوں نے مسئلہ حل کر دیا۔ نہ صرف اپنے گھر میں منتقل ہو گئے بلکہ اخبار میں خبر بھی شائع کرا دی کہ سی ایم ہائوس کا پتا پوچھنے کی ضرورت نہیں‘ اس کا انتظام میرے پاس ہے۔
یہ ذکر تو برسبیل تذکرہ ہی آگیا۔آج اتفاق سے میں نے ایک ٹی وی مذاکرے میں بھارت جانے والے وفد کے انتخاب پر گفتگو سنی‘ جس میں اس وفد کے مجوزہ اراکین کا انتخاب ہو رہا تھا‘ جسے چند روز میں بھارت سے مذاکرات کے لئے دلی جانا ہے۔ظاہر ہے پاک بھارت تعلقات کی خاص اہمیت ہے۔ عرصہ ہوا دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کا وہ آخری وقت تھا‘ جب ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔اس وقت پاکستان کے وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی تھے۔اتفاق سے جب وہ دلی گئے تھے‘ عین اسی وقت ممبئی کے واقعات ہوئے۔ بھارتی میزبانوں نے انہیںمشورہ دیا کہ حالات خراب ہو گئے ہیں۔ یہاں آپ کو جان کا خطرہ ہے۔مناسب ہو گا کہ ہم فوری آپ کی واپسی کا انتظام کر دیں۔ لیکن وہ درویشیوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے میزبانوں سے پوچھا کہ ''اگر آپ میرے قیام کو اپنے لئے نا مناسب سمجھیں تو میں فوراً چلا جاتا ہوں لیکن میری اپنی خواہش یہ ہو گی کہ موجودہ ہنگامی حالات میں‘ آپ لوگوں سے بات چیت بھی کرتا رہوں‘‘۔ میزبانوں نے بخوشی مخدوم صاحب کے دعوت نامے میں فوراً ہی ردو بدل کر دیا۔ دلی کے حالات یقینی طور پر انتہائی اشتعال انگیز تھے۔ ممبئی میں ہونے والے سانحوں کی تعداد زیادہ بھی تھی اور المناک بھی۔ یہ فطری نتیجہ تھا جس میں دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہو جاتے اور ایسا ہوا بھی۔ ممبئی میں ہونے والے سانحوں کا اثر دونوں ملکوں کے عوام پر پڑا۔یقینی طور پر پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں کے لئے پیچیدہ صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ بھارت کے حکمران‘ پاکستان کی حکومت پر شک و شبہ کر رہے تھے۔ پاکستانیوں کو اندیشہ تھا کہ اس دہشت گردی کا الزام پاکستان پر آئے گا اور ہو سکتا ہے دلی جوابی کارروائی بھی کرے۔
یقینی طور پر جوابی ردعمل کا امکان تھا۔ اور ایسا ہونے بھی لگا تھا۔ بھارتی حکومت نے پاکستانی سرحدوں پر اپنی افواج جنگی حالات کے لئے متعین کر دیں۔ جواب میں پاکستان کو بھی کسی تاخیر کے بغیر تیاریاں کرنا پڑیں۔ لیکن دھیمے مزاج کے من موہن سنگھ نے حیرت انگیز صبر کا مظاہرہ کیا۔ من موہن سنگھ کے ہونے والے جانشین نریندر مودی سے زیادہ متعصب تھے۔ اس شخص نے بھارت میں پھیلے ہوئے اشتعال کو بڑی دانش مندی سے کنٹرول کیا۔ نہ صرف انتہا پسند ہندوئوں کے جوابی اشتعال کو روکا بلکہ اپنی حکومت کے اندر شدید عوامی ردعمل کے اثرات کو بھی زائل کیا۔ یہ بھارتی وزیراعظم کی ہمت تھی کہ نہ صرف اس نے ریاستی فوجوں کو اشتعالی ماحول کی لپیٹ میں آنے سے روکا بلکہ افواج کو بھی کنٹرول میں رکھا۔ یہ کشیدگی محض دونوں طرف محدود نہیں تھی۔اس میں بیرونی طاقتیں بھی ملوث ہوئیں۔ خصوصاً امریکہ جو بھار ت کا نیا نیا اتحادی بنا تھا اور چین جو پاکستان کے ساتھ اپنے نئے نئے تعلقات میں پرجوش تھا۔ ان دونوں حکومتوں نے اپنے اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے‘ انتہائوں کو چھوتی ہوئی اشتعال انگیزی پر کنٹرول رکھا اور دونوں ملکوں نے سروں پر منڈلاتی جنگ سے‘ دو طرفہ اشتعال انگیزی سے اجتناب کیا۔دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے رہنما موجودہ حالات پر بھی قابو پا لیں گے یا نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہر وقت اشتعال انگیزی کی فضا موجود رہتی ہے۔اس فضا میں شعلوں کے بھڑکنے کا امکان ہر وقت رہتا ہے۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو جنگ کی آنچ کو ہر وقت کنٹرول میں رکھنا پڑتا ہے۔دونوں حکمران تعلقات میں سردی و گرمی کی تیزی سے بدلتی فضا کو اعتدال میں رکھنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ممکنہ مذاکرات میں تلخی سے زیادہ شانتی اور امن کی امید رکھنا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں