چین کی سمندری توسیع پسندی سے نہ صرف براعظم ایشیا میں‘ امریکہ کے کردار کو محدود کرنے کا باعث بنے گا بلکہ اس سے تائیوان بھی کمزور ہو سکتا ہے۔ اسی تناظر میں جے مائیکل کول کالکھا گیا مضمون پیش خدمت ہے۔
'' ایک وقت ایسا بھی تھا‘ جب ایشیا کے خطے میں امریکی سربراہی میں قائم اتحاد‘ جنوبی چین کے سمندر میں نہایت دھیمی رفتار سے ہونے والے قبضے اور وہاں فوجیں تعینات کرنے کے عمل پر رد عمل ظاہر کر سکتا تھا‘ غالباً چین کی اس پیش قدمی کو مکمل طور پر روک بھی سکتا تھا۔ اور یہ ایسا وقت تھا جب صدر اوبامہ ابھی وائٹ ہائوس میں موجود تھے۔ اس خطے پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کھڑکی اب بند ہو چکی ہے ‘کیونکہ چین نے اپنے آس پاس کے سمندروں میں گہرے نقش قائم کر لئے ہیں۔ حالات اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ ان کا پہیہ واپس نہیں موڑا جا سکتا۔ اگر یہی حقیقت ہے تو پھر فریڈم آف نیوی گیشن آپریشنز (ایف او این او پی ایس) اور دوسرے اقدامات کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ چین سائوتھ چائنا سمندر میں ایک نیا 'سٹیٹس کو‘ قائم کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے ‘ اس لئے اب اس کے آگے بند باندھنے کی کوششیں بے سود ثابت ہو ںگی۔
پچھلی ایک دہائی کے دوران اس سمندر میں جو کچھ ہوا اس میں حیران کن بات یہ نہیں کہ چین یہاں مصنوعی جزیروں کا ایک سلسلہ قائم کرنے اور اس علاقے میں اپنی فوج تعینات کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے‘ جسے وہ اپنی جھیل "lake" قرار دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال‘ بین الاقوامی برادری کو لا علمی میں اپنی گرفت میں لے سکتی ہے۔ چین نے شروع ہی میں سائوتھ چائنا سمندر کے حوالے سے اپنے مقاصد واضح کر دئیے تھے۔ اب اگر یہ سمندر اس خطے کے دوسرے ممالک اور امریکہ کیلئے 'نو گو ایریا‘ بن جاتے ہیں تو یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم صورتحال کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔اس خطے کی جمہوری ریاستیں ‘ بشمول اپنے سکیورٹی ضامن واشنگٹن کے‘ اب ایک نئی دوہری مشکل صورتحال کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ کوئی ایکشن نہ لیا گیا یا اس ایشو پر کوئی
توجہ نہ دی گئی تو اس کا مطلب ہو گا کہ آگے جا کر ہمیں (امریکہ کو) مزید مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اتحادی ممالک اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ سائوتھ چائنا سمندر میں چینی سرگرمیوں کا تعلق براہ راست مغربی بحرالکاہل اور ہند بحرالکاہل کے علاقے میں اپنے وسیع تر عزائم (جن میں امریکہ کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کر دینا بھی شامل ہے) سے ہے۔ اب یہ ان ممالک پر ہے کہ وہ چین کی جانب سے اس سمندر میں مزید وسعت پسندی کے ساتھ گزارا کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلے ایسٹ چائنا سمندر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں بھی چین نے اپنی فوجی اور سمندری سرگرمیوں میں اضافہ کر لیا ہے‘ خصوصی طور پر متنازعہ علاقے شینکاکو میں‘ جس کے چین کے علاوہ جاپان اور تائی پی بھی دعوے دار ہیں۔ سائوتھ چائنا سمندر کی طرح یہاں بھی چین نے یہ حکمت عملی اپنا رکھی ہے کہ غیر محسوس طور پر پیش رفت جاری رکھی جائے اور توازن آہستہ آہستہ چین کے حق میں کر لیا جائے۔ دراصل بیجنگ نے ایسٹ اور ویسٹ چائنا سمندر میں ''مستقل تنازعے‘‘ جیسی صورتحال پیدا کر دی ہے ۔
مختلف نوعیت کی وجوہ‘ جیسے جاپان کی دفاعی فورسز کی طاقت اور ٹوکیو کا امریکہ کے ساتھ کیا گیا دفاعی معاہدہ‘ کی بنا پر ایسٹ چائنا سمندر میں چین نے سائوتھ چائنا سمندر کی نسبت زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس کے باوجود حالیہ برسوں میں کوسٹ گارڈز اور مچھلیاں پکڑنے کے لئے سمندر میں اتارے گئے جہازوں کی جانب سے ‘جاپان کے سمندری علاقوں ‘ یا 'شینکاکو‘ کے متنازعہ جزیروں کے آس پاس کے علاقوں میں مداخلت
تشویشناک حد تک بڑھی ہے۔ اگر ہمارا (امریکہ کا) اس سمندر (سائوتھ چائنا سی) میں واپسی کا کوئی ارادہ نہیں تو پھر یہ علاقہ چین کی دسترس میں دے دینے میں شاید کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کرنے کے بعد امریکہ کیا کرے گا؟ اس کا اگلا اقدام کیا ہو گا؟ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس سلسلے میں اگر ہم کچھ نہیں کریں گے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے اسی طرح معاملات کو آگے بڑھنے دیں گے تو اس کا فائدہ بیجنگ کو ہو گا اور وہ مشرقی سمندر کی طرف اپنی توجہ مبذول کر لے گا اور وہ اب تک وہاں جو کامیابیاں حاصل کر چکا ہے‘ ان سے زیاددہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے گا۔ اگر اس خطے کا ڈیموکریٹک الائنس چین کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کو تیار اور رضا مند ہو تو ایک اور آپشن بھی زیر غور لایا جا سکتا ہے۔ یہ کہ پورے ایسٹ چائنا سی East China Sea کو چین کے لئے دم گھونٹنے والا مقام بنایا جا سکتا ہے۔ اسے ایک ایسا علاقہ قرار دیا جا سکتا ہے‘ جہاں پیپلز لبریشن آرمی نیوی People's Liberation Army Navy (PLAN) اور PLA Air Force (PLAAF) اس قابل نہیں رہیں گی کہ ان نو راستوں کو استعمال کر سکیں جہاں سے عام طور پر جہاز گزرتے ہیں۔ جاپان‘ امریکہ اور تائیوان کے پاس بہرحال اتنی طاقت ہے کہ وہ اس علاقے کو چینی ملٹری کے لئے بند کر سکیں۔ اس مقصد کیلئے وہ کئی نیول اور زمینی بیسز اور ہوائی دفاعی نظام مرتب کر سکتے ہیں ۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ایسا کوئی اقدام چین کو مشتعل کر دے گا‘ پھر بھی ایسے اقدام کیلئے جواز کے طور پر ثالثی کی مستقل عدالت کی جانب سے 2016ء میں چین کے ان اقدامات کے خلاف دئیے گئے فیصلے کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ایسے ایکشن کا مقصد چین کو سمندری پانیوں کے استعمال کے حوالے سے محدود کرنا ہے۔ اس سے چین کو کچھ فائدہ ہو گا کہ اس نے اب تک جوکامیابیاں حاصل کی ہیں‘ اس سے لطف اندوز ہو سکے گا لیکن دوسرے ممالک کو فائدہ یہ ہو گا کہ چین کی ان سمندروں کے پانیوں پر اجارہ داری حاصل کرنے کی مہم رک جائے گی اور جاپان کا تجارتی راستہ بھی محفوظ ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ چین کو ان معاملات کو پتہ نہ ہو اور اس نے اس خطے کے جمہوری ممالک کی جانب سے کسی ردعمل کیلئے تیاری نہ کر رکھی ہو۔ چین یہ بخوبی جانتا ہے کہ ان ممالک کی جانب سے چین کی سمندری وسعت پسندی کو محدود کرنے کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ اس نے یقینا کچھ نہ کچھ سوچ رکھا ہو گا۔
میری اس حکمت عملی کا کچھ فائدہ جاپان کو بھی ہو گا۔ یہ کہ تائیوان کے ساتھ اس کے سکیورٹی تعلقات مستحکم ہو جائیں گے اور آبنائے تائیوان میں 'سٹیٹس کو‘ برقرار رکھنے کی ضرورت بڑھ جائے گی۔ جاپان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ ایک آزاد حیثیت میں تائیوان کی موجودگی اس حکمت عملی کا کلیدی جزو ہے۔ تائیوان کے چین کے ساتھ انسلاک سے چین کے مغرب اور انڈو پیسیفک کے خطے میں مقاصد پورے ہونے کی راہ میں حائل واحد اور سب سے اہم رکاوٹ دور ہو جائے گی‘ تاہم امریکہ کے اتحادی اس خطے کے جمہوری ممالک کی حکمت عملی کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ محض باتوں تک محدود نہ رہا جائے بلکہ عملی طور پر بھی کچھ کیا جائے۔ ورنہ تو صورتحال ویسی کی ویسی نہیں رہے گی‘ مزید چین کے حق میں چلی جائے گی۔ اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کی ضرورت اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کہ حال ہی میں بیجنگ نے چین کے کوسٹ گارڈز کا کنٹرول سویلین کمانڈ سے سینٹرل ملٹری کمیشن (سی ایم سی) کو منتقل کر دیا ہے‘ جس کے سربراہ صدر شی چن پنگ خود ہیں۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کی جانب سے یہ اقدام کسی منصوبے کے حصے کے طور پر کیا گیا ہے۔چین کی سمندری توسیع پسندی سے نہ صرف ایشیا پیسیفک کے خطے میں امریکہ کے کردار کو محدود کرنے کا باعث بنے گا بلکہ تائیوان کو کمزور کرنے کا سبب بھی بنے گا۔ جاپان اس صورتحال سے جو سکیورٹی خطرات محسوس کرتا ہے‘ وہ الگ؛ چنانچہ جب تک چین بین الاقوامی سمندری حدود کو تسلیم نہیں کرتا اور اپنے مشرق اور مغرب میں موجود سمندروں میں اپنے پائوں پھیلانے کی اپنی حکمت عملی کو ترک نہیں کرتا‘ایسٹ چائنا سی کوریڈدور میں اس کی نقل و حرکت کو محدود کیا جانا چاہئے‘‘۔