"NNC" (space) message & send to 7575

بھارت اور چین کا گمشدہ تنازع

(آخری قسط)
'' بھارت مسائل کا شکار ہے لیکن تمام تر فائدوں کے باوجود چین بھی کوئی بہت زیادہ اچھی حالت میں نہیں ہے۔ واشنگٹن کے ساتھ اس کی تجارتی جنگ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ تائیوان کے معاملے میں تنائو بڑھ رہا ہے اور یورپی یونین کے ساتھ بھی چین کے اختلافات تاحال موجود ہیں۔ چنانچہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں مزید خرابی کا مطلب ہو گا مسائل میں اضافہ جبکہ مختلف نوعیت کے تنائو میں کمی کا مطلب ہو گا کہ چین اس بڑھتے ہوئے اور شدت اختیار کرتے ہوئے چیلنج پر توجہ دے سکے گا جو امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک کی جانب سے اسے درپیش ہو رہا ہے۔ اگرچہ کئی عالمی اور مقامی واقعات ایسے پیش آ چکے ہیں‘ جو بھارت اور چین سے تقاضا کرتے رہے کہ وہ اپنی مخاصمت دور کر دیں یا کم از کم اس میں کمی ضرور لائیں لیکن ایسا نہیں ہوا‘ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کیلئے جس نرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ وہ وقتی ہے اور دونوں میں سے کسی نے بھی اپنی حکمتِ عملی میں کوئی واضح تبدیلی پیدا نہیں کی۔ ممکن ہے بھارت کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہو کہ وہ چین کے برابر کی ٹکر نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی یہ سوچ تبدیل ہو چکی ہے کہ چین ہی اس کا سب سے بڑا مخالف یا حریف ہے۔ بھارت کی یہ سوچ اپنی جگہ قائم ہے۔ اگر کچھ تبدیل ہوا یا بڑھا ہے تو وہ بھارت کے تفکرات ہیں۔ جنوبی ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے قدم اور اس کے پاکستان کے ساتھ گہرے ہوتے ہوئے تعلقات‘ ایسی چیزیں ہیں جو نئی دلی کے تفکرات میں اضافہ کرتے جائیں گے۔ اور چین‘ جو بھارت کے عالمی طاقت ہونے کے دعوے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے‘ بھارت کے عزائم اور ارادوں پر عدم اعتماد کرتا رہے گا اور بھارت کی واشنگٹن کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کو اپنے لئے خطرہ گردانتا رہے گا۔ 
تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے؟ یعنی ماضی کے واقعات کا جائزہ لے کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئندہ کیا ہو گا؟ یا ممکنہ طور پر کیا ہو سکتا ہے؟ 1960ء کی پُر تشدد دہائی کو اگر ایک طرف کر دیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت اور چین کے مابین کبھی سرد جنگ جیسے حالات نہیں رہے‘ اس طرح کی مستقل مخاصمت نہیں رہی‘ جیسی بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں پائی جاتی ہے۔ بھارت چین سرحد پر آخری پُر تشدد اور ہنگامہ خیز تصادم 1967ء میں ہوا تھا۔ اس کے بعد دونوں ملکوں میں حالات بتدریج بہتر ہوتے گئے۔ اور حالات میں بہتری 1988ء میں بھارتی وزیر اعظم ‘راجیو گاندھی اور چینی لیڈر ڈینگ زیائو پنگ کے مابین سرحدی بحران پر تاریخی کانفرنس کے بعد پیدا ہونا شروع ہوئی‘ جس کے نتیجے میں اعتماد سازی کے حوالے سے اہم اقدامات کا آغاز ہوا۔ چین‘ پاکستان کا 1963ء سے دوست اور اتحادی ہے لیکن 1999ء میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں وہ غیر جانب دار رہا تھا۔ خصوصی طور پر 2010ء سے پہلے کی دو دہائیوں میں چین اور بھارت نے مختلف حصوں میں تقسیم مخاصمت کا طریقہ کار اختیار کر لیا‘ جس میں اختلافات بھی قائم رہتے ہیں اور مختلف شعبوں میں تعاون بھی جاری رہتا ہے۔ انہوں نے اپنا اپنا بارود خشک رکھا اور مقامی سطح پر اپنی اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ بھی کرتے رہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ عالمی ایشوز پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی جاری رکھا۔لیکن 2010ء کے لگ بھگ تعلقات کا وہ سلسلہ اس وقت بگڑنا شروع ہو گیا‘ جب چین نے مقبوضہ کشمیر سے چین آنے والے شہریوں کو الگ شیٹس پر ویزے جاری کرنا شروع کر دئیے۔ اس کے رد عمل میں بھارت نے ''ون چائنا‘‘ اصول کے حوالے سے اپنے تمام حوالہ جات ڈراپ کر دئیے۔ بعد ازاں کم سطح کے فوجی تصادم واقعہ ہونا شروع ہو گئے‘ جبکہ بھارت نے تسلسل کے ساتھ یہ الزام عائد کرنا شروع کر دیا کہ چین کی جانب سے ان علاقوں میں در اندازی کی جا رہی ہے‘ نئی دلی کے دعوے کے مطابق جو اس کا حصہ ہیں۔ 2013ء میں دیپ سانگ سطح مرتفع اور 2014ء میں چومار کے علاقے میں پیش آنے والے واقعات کے بعد دونوں ملکوں کے مابین فوجی سطح پر جھڑپیں عام ہو گئیں۔ 
2014ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد نریندر مودی بطور وزیر اعظم انڈیا‘ امریکہ اور جاپان کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے سلسلے میں پچھلے تمام بھارتی وزرائے اعظم سے آگے نکل گئے تاکہ بھارت‘ چین کے ساتھ توازن قائم کر سکے‘ اور اس عمل نے مالا بار میں امریکہ کے ساتھ سالانہ بحری مشقوں کو سہ فریقی ایونٹ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس وقت مشقوں کے تیسرے فریق کے طور پر جاپان کو شامل کیا گیا تھا۔ حالات کو بگاڑنے کے اس عمومی رجحان کی وجہ سے جو خرابیاں پیدا ہوئیں‘ 2013ء میں طے پانے والے بارڈر ڈیفنس کوآپریشن ایگری منٹ اور بھارت میں 2014ء کے عام انتخابات کے فوراً بعد‘ نریندر مودی اور چینی صدرکے مابین گرم جوشی سے ہونے والی میٹنگ کی وجہ سے ‘ان میں کچھ بہتری تو آئی لیکن بلاشبہ بگاڑ بہت زیادہ ہو چکا تھا اور پھر حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے‘ حتیٰ کہ ڈوکلام کا واقعہ پیش آ گیا۔ ووہان کی ملاقات کے بعد سے بھارت نے چین کے حوالے سے جارحانہ کارروائیاں معطل کر رکھی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی دفاع کو مضبوط بنانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ اس نے جاپان کے ساتھ ایک لاجسٹک شیئرنگ معاہدے پر بات چیت کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ اور وہ ممکنہ طور پر اسی سال امریکہ کے ساتھ کمیونی کیشنز کمبٹے بیلٹی (مطابقت) اینڈ سکیورٹی ایگری منٹ (سی او ایم سی اے ایس اے) پر دستخط بھی کرنے والا ہے۔ یہ اہم ملٹری کمیونی کیشنز شیئرنگ معاہدہ ہو گا۔ ایسے پارٹنرز میں ویت نام اور انڈونیشیا بھی شامل ہو جائیں گے۔ علاوہ ازیں بھارت بحرِ ہند میں اپنی فوجی طاقت بڑھانے پر بھی خصوصی توجہ دے گا اور اس حوالے سے اس کی نظریں انڈامین اور نیکوبار جزیروں پر گڑی ہیں کہ وہ اس سلسلے میں ان جزیروں سے استفادہ کرے گا۔
حتمی طور پر اب نئی دلی‘ چین کے بارے میں ایک زیادہ نازک فرق والی اور نفیس پالیسی اختیار کرنے جا رہا ہے۔ وہ دوبارہ اپنی مخاصمت کو حصوں میں تقسیم کر کے تعلقات کو آگے بڑھانے کے اصول پر عمل کر رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی فوجی طاقت اور صلاحیتوں کو بڑھانے کا بھی شوقین ہے ۔ یہ واضح ہے کہ بھارت ایشیا میں کسی ایسے کثیر جہتی معاہدے کے تحت کسی اتحاد یا ملٹری بلاک کا حصہ نہیں بنے گا‘ جو چین کے مقابلے میں تیار کیا گیا ہو۔ بھارت کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر اس نے چینی سرمائے کے لئے خوش آمدید والے میٹ بچھا دئیے ہیں۔ بھارت بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی حمایت تو نہیں کرتالیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اس میں دوسرے ذرائع سے حصہ لے رہا ہے۔ بھارت نے اس حوالے سے ابتدائی اشارہ افغانستان میں چین کے ساتھ مل کر مشترکہ انفراسٹرکچر پروجیکٹ کا اعلان کر کے دیا ہے۔ بھارت ‘چین کی سرپرستی میں انیشی ایٹوز‘ جیسا کہ ایشین انفراسٹرکچر انویسٹ منٹ بینک اور شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن ‘ میں اپنا حصہ بڑھاتا رہے گا۔یہ سارے عوامل مل کر ایشیا کے ان دو بڑے ممالک کے مابین کثیر سمتی معاملات پر سکیورٹی ایشوز سے ہٹ کر تنائو کم کرنے کا باعث بنیں گے لیکن دونوں جوانب سے سٹریٹیجی میں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت اب بھی باقی ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں