جنگوں کا وسیع ہوتادائرہ‘ اب فضا تک پھیل چکا ہے۔آنے والے دور کی جنگیں زمین پر تو لڑی ہی جائیں گی لیکن فضا کو بھی خارج ازامکان نہیں کیا جا سکتا۔عمر لامبرانی کا ایک ایسا ہی معلوماتی مضمون پیش خدمت ہے۔
''فضا جنگ لڑنے کا ایک دائرہ اثر ہے‘‘ یہ وہ منترا ہے جو امریکی حکام‘ چین کی جانب سے 2007ء میں اینٹی سیٹیلائٹ میزائل ٹیسٹ کے دوران‘ اپنا موسمی مصنوعی سیارہ فضا میں چھوڑنے کے بعد سے دہراتے چلے آ رہے ہیں۔ گیارہ برس گزر چکے ہیں لیکن پھر بھی اس حوالے سے وقتاً فوقتاً ایسے جملے ادا کئے جا رہے ہیں۔ امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو ابھی اسی مارچ میں یہ بات دہرائی تھی۔ یہ کہہ کر وہ دراصل سپیس فورس (فضائی فوج) تیار کرنے کے لئے فضا ہموار کر رہے تھے۔ اگرچہ فضا میں فوجیں تعینات کرنے کے معاملات نئے نہیں رہے اور اس بارے میں آگہی بڑھ رہی ہے۔ اب تک سپیس فورس پر بحث زیادہ تر بیوروکریسی کی سطح پر رہی ہے یا بھی مختلف متعلقہ اداروں میں ‘ لیکن جہاں فضا میں وسیع تر دفاع ضروری ہے‘ وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ اکیلی پیش رفت زمینی طاقتوں کے درمیان غیر زمینی جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے مسئلے کو حل نہیں کر سکے گی۔
محض ایک آخری محاذ ہونے سے بھی آگے سپیس ایک حتمی ہائی گرائونڈ بھی ہے۔ فضا محض زمین پر جاری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے ایک فوقیت دلانے والی جگہ ہی نہیں‘ بلکہ یہ جہاز رانی‘ کمیونی کیشن‘ ہدف کو نشانہ بنانے اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کے حوالے سے بھی بے حد سہولت فراہم کرتی ہے۔ پچھلے ستر سالوں سے امریکی فوج فضائی معاملات کی جانب خاصی راغب ہوئی ہے۔ وہ اسے جنگ لڑنے کی مشترکہ و متحدہ صلاحیتوں میں اضافے کا ایک اہم اور ناگزیر حصہ تصور کرتی ہے۔ اس کا یہ بھی خیال ہے کہ اس طرح طاقت میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کیلئے وہ سینسرز اور سیٹیلائٹس کی ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کی شکر گزار ہے‘ جس کے بغیر فضا میں طاقت بڑھانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ آج امریکی سپیس انفراسٹرکچر ملک کے فوجی آپریشنوں کے لئے اس قدر اہمیت اختیار کر چکا ہے‘ لیکن فضا پر بڑھتا ہوا انحصار ایک کمزوری بھی بن چکا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو امریکہ کے مخالفین کی نظروں سے بھی پوشیدہ نہیں رہ سکا جیسے چین اور روس۔ ان دونوں ممالک نے بھی پچھلی دو دہائیوں کے دوران اپنی ذاتی فضائی صلاحیتوں میں بے حد اضافہ کر لیا ہے۔ ان رجحانات اور میلانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے‘ امریکی فوج نے سپیس میں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے پر اپنی توجہ مرکوز کر لی ہے تاکہ وہ فضا میں اپنا دفاع بہتر طریقے سے کر سکے اور اگر سپیس میں اس کے اثاثوں کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ مختصر یہ کہ امریکہ سمیت دیگر ممالک‘اب فضا کو بھی زمین‘ ہوا اور سمندر کی طرح ایک ایسی جگہ سمجھتے ہیں‘ جہاں جنگ لڑی جا سکتی ہے۔
یہ وہ صورتحال ہے جس میں سپیس فورس (فضائی فوج) پر بحث شروع ہوئی۔ امریکہ کی چار فوجی سروسز ہیں۔ آرمی‘ نیوی‘ ایئر فورسز اور میرین کورز۔ یہ سب ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کے تحت آتی ہیں‘ جس کی بنیادی ذمہ داریوں میں اپنی فورسز کو تربیت دینا‘ ان کو منظم کرنا اور انہیں ہر طرح سے مسلح کرنا شامل ہے۔پانچویں نوعیت کی مسلح فورسز بھی ہیں۔ ان کو کوسٹ گارڈز کہا جاتا ہے اور یہ ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی کے تحت آتے ہیں۔ اب تک ابتدائی طور پر ایئر فورس فضا میں قومی سلامتی کے امور کی نگرانی کرتی رہی ہے۔ یہ کام ایئر فورس سپیس کمانڈ کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔ یہ فورس 1982ء میں قائم کی گئی تھی۔ اگر امریکہ سپیس فورس قائم کرتا ہے تو یہ حربی نوعیت کی چھٹی سروس ہو گی۔ سپیس فورس کے قیام کے پس منظر میں کارفرما مین آئیڈیا یہ ہے کہ امریکی ایئر فورس ‘فضا میں ایسی صلاحیت کی حامل نہیں ہے‘ جو ایک آزاد اور سپیشلائزڈ سروس فراہم کر سکتی ہے۔ عمومی لحاظ سے بات کی جائے تو ایک نئی فورس بنانے کے محرکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایئرفورس نے فضا میں طاقت بڑھانے کو اپنی ترجیحات کا حصہ نہیں بنایا اور یہ کہ اس کے دوسرے مشن اسے اپنی توجہ زمین سے باہر فضا پر مرتکز کرنے سے روکتے ہیں۔ ایئر فورس پر تنقید کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نے فضا میں امریکی قوت بڑھانے کے لئے بہت تھوڑی رقم خرچ کی‘ فضا کے لئے مواد حاصل کرنے کے سلسلے میں بے حد سست روی سے کام کیا گیا۔ یہ سپیس مشن میں شامل حکام کو پروموٹ کرنے میں ناکام رہی اور آخری بات یہ کہ اس نے اس بات کو مسترد کر دیا کہ سپیس کوئی ایسی جگہ ہے‘ جس میں کوئی جنگ لڑی جا سکے۔
جب امریکی حکام ایئرفورس سے الگ ایک سپیس فورس قائم کرنے کے میرٹس کا وزن کرتے ہیں تو اس پر آنے والی لاگت (یہ سروس قائم کرنے کے لئے 10بلین ڈالر درکار ہوں گے) کانگریس کی جانب سے اس منصوبے کی نگرانی اور کسی آرگنائزیشن کی جانب سے نیا کام شروع کرنے کی طرف مائل نہ ہونا ایسے
معاملات ہیں‘ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عمل بہت سست رفتار رہے گااور اس پر بہت بحث کی جائے گی۔ جو چیز واضح ہے‘ یہ ہے کہ امریکہ کے لیڈر آنے والے برسوں میں اس فورس کے قیام کی طرف زیادہ توجہ دیں گے۔ اس وقت امریکہ دس متحدہ کمانڈز پر انحصار کئے ہوئے ہے‘ جن کی مختلف جیوگرافک اور فنکشنل ذمہ داریاں ہیںاور جو ملک کی کسی ایسی سروس کے ساتھ منسلک نہیں ہیںجو جنگ لڑنے کی غرض سے وضع کی گئی ہیں۔ اس معاملے میں حکام ایک الگ تھلگ سپیس فورس کے قیام سے پہلے ایک ایسی متحدہ کمانڈ وضع کرنا پسند کریں گے (جو امریکہ کی سٹریٹیجک کمانڈ جیسی ہو ‘ جس کا کام ایٹمی ہتھیاروں کے معاملات کو چلانا ہے)تاکہ صرف اور صرف سپیس (فضا)پر توجہ دی جا سکے۔ اس حوالے سے یہ واضح ہے کہ جو تنظیم بھی سپیس میں آگے بڑھنے کے حوالے سے دوسروں پر فوقیت حاصل کرلے گی‘ امریکہ یقینی طور پر اس پر توجہ بڑھا دے گا اور اس کے لئے زیادہ فنڈز کا انتظام کرے گاتاکہ فضا میں نیشنل سکیورٹی مشن کو آگے بڑھایا جا سکے۔ یہ ملک فضا کو نیوی گیشن‘ کمیونی کیشن‘ کمانڈ اینڈ کنٹرول اور نگرانی سے بھی آگے یعنی سپیس کو کسی حملے کی صورت میں دفاع کیلئے ‘ حتیٰ کہ جنگ لڑنے کیلئے‘ استعمال کرنے کے بارے میں بھی سوچ رکھتا ہے۔ امریکہ کو اس وقت اپنے قریبی مقابلہ بازوں چین اور روس کی جانب سے جن محاذوں کا سامنا ہے‘ اس کو پیش نظر رکھا جائے تو فضا میں اپنی طاقت بڑھانے پر اس کی بڑھتی ہوئی توجہ کی سمجھ آتی ہے۔ روس اور چین دونوں اپنی اینٹی سیٹلائٹ صلاحیتوں میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں ۔ مسئلہ اب یہ ہے کہ امریکہ اگر اپنی فضا میں صلاحیت بڑھانے کی منصوبہ بندی کرے تو روس اور چین الرٹ ہو جائیں گے۔ بہرحال یہ واضح ہے کہ آنے والے برسوں میں فوج کے اندر اورباہر ‘سول حلقوں میں یہ معاملہ زیادہ شدت کے ساتھ زیرِ غور آئے گا کہ فضا میں امریکی دفاع کی ضرورت ‘ایک نئی سروس کے قیام سے پوری ہوگی یا نہیں۔ جس معاملے پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے‘ یہ ہے کہ غیر مستحکم کر دینے والی اور مسلح کسی سپیس ریس سے بچنے کیلئے بین الاقوامی قواعد و ضوابط بنانے کیلئے فوری طور پر ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہے۔ کیونکہ فضا میں پیدا ہونے والا کوئی بھی تنازعہ بڑی مقدار میں فضائی فضلہ پیدا کرے گاجو فضا میں موجود تمام ممالک کے اثاثے تباہ کر دے گااور اس عمل میں دنیا بھر کی معیشت تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ اس کیلئے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ جنگ نہ ہونے پائے لیکن اس کیلئے ایسے ہی کسی معاہدے اور قواعد و ضوابط بنانے کی ضرورت ہو گی جیسے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے کیلئے بنائے گئے تھے۔ اس زمین اور اس کے پڑوسی سیاروں کے مستقبل کا انحصار‘ انہی قواعد و ضوابط اور معاہدوں پر ہی ہو گا‘‘۔