بھارت کے قومی انتخابات‘ جو 11 اپریل سے شروع ہوئے‘ دنیا کے مہنگے انتخابات قرار دئیے جا سکتے ہیں۔مرکز ی میڈیابرائے معلومات و تحقیقاتی سینٹر دہلی نے حال ہی میں 7.2 بلین ڈالر کی لاگت کا اندازہ لگایا‘ جس نے 6.5 بلین ڈالر کا ریکارڈ توڑ ڈالا ہے‘جس کا 2016 ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں کانگریس نے تخمینہ لگایاتھا۔بھارت کی معیشت امریکہ کے مقابلے میں سات گنا کم ہے‘لہٰذاکئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ اتنی بھاری تعداد میں ڈالر آ کہاں سے رہے ہیں؟
روایتی حکمت یہ ہے کہ اکثریت غیر قانونی ہے۔سیاستدان‘ دلیل سے جانتا ہے‘جائز مارکیٹنگ یا کاروبار سے ایسا ممکن نہیں ‘ رشوت کے لیے بھی نقد کی ضرورت پڑتی ہے‘ لہٰذا وہ صرف ایسے لوگوں کے پاس جاتے ہیں ‘جو کافی مالیت رکھتے ہوں۔یہ باتیں ڈھکی چھپی نہیں‘ کاروباری افراد‘جو اکثر غیر قانونی اثاثوں پر قابض ہیں‘ سیاستدانوں کے اقتدار میں آنے کے بعد‘ اپنے کاروبار کے نام پر زمین کا ایک ٹکڑا یاغیر قانونی تعمیراتی اجازت نامہ با آسانی حاصل کرلیتے ہیں۔
سیاست اور کاروبار کے درمیان بدنام تنازعہ‘ جو طویل عرصے سے ‘ہندوستان کے سیاسی منظر کا حصہ بنا رہا‘جس کی بدولت2000 ء کے عشرے میں بھارت کی معیشت میں کافی حد تک اضافہ بھی ہوا۔اس کے نتیجے میں 2010 ء میں نہ رکنے والا‘ سکینڈلز کا سلسلہ شروع ہوا‘ یہ 2014ء کے عام انتخابات میں سب سے بڑا مسئلہ سمجھا جانے لگا۔بدعنوان عناصر کا اس انتخابی مہم میں ذکر کافی حد تک رہا‘ جس میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور حزب ِاختلاف کے بھارتی نیشنل کانگریس پارٹی کے تجارتی بدعنوانیاں سر فہرست ہیں‘ جن کی مزید بدعنوانیوں کے قصے موجودہ الیکشن میں زبان زد عام ہیں ۔یہ بھارتی سیاست کی چادر پر بہت بڑا دھبہ ہیں۔ بھارتی عوام کے دلوں میں خوف ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی اشرافیہ کا قبلہ تبدیل ہو رہا ہے۔
انٹرنیشنل میڈیا کے تحقیق کار صحافی کی کتاب میں چند باتوں کا کھل کر ذکر دیکھنے کو ملا؛2011ء سے 2016ء تک کتاب میں تین پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ‘ پہلے سیکشن میں‘ بھارت کی امیر ترین اشرافیہ اور فلم انڈسٹری کے ارب پتی افراد پر توجہ مرکوز رکھی گئی ‘ا ن میں عدم مساوات ‘ لامحدود طاقت کا اضافہ ہوتا ہوا دکھائی دیا۔دوسرا‘ سیاسی اور کاروباری دنیا کے درمیان الجھن پر رپورٹ بنائی گئی ۔تیسرا‘ اس کا استدلال ہے کہ پہلے دو مسائل نے بھارت کے بوم اور معاشی سائیکل کو کیسے خراب کیا گیا؟
بھارتیوں نے بدقسمتی سے آمدنی ٹیکس کافی حد تک بچا یا‘ اس طرح کے اعداد و شمار کوبھارت میںآٹے میں نمک کے برابر سمجھا جاتا ہے۔جو ‘ان کی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے‘ اس کے باوجود بھارت کی دولت کے فرق کی سمت واضح ہے‘ جس کا بھارت کے نئے ارب پتیوں اور حکومت کے درمیان تعلق ہے۔15 سال قبل سافٹ ویئر ٹائکونزکی اتنا کثیر تعداد نہ تھی ‘جس قدر آج کے نئے اشرافیہ صنعتوں میں کان کنی اور جائیداد کی حیثیت میں سامنے آ رہے ہیں؛حالانکہ یہ کامیابی‘ گورنمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی منظوری پر منحصر ہے۔
اسی وجہ سے کروڑپتی افراد نے مالیاتی فنانس کو تبدیل کر دیا ہے۔ قانونی فنڈ اور کم قابل احترام دونوں ذرائع جن میں سیاستدانوں کو نقد رقم ملتی ہے‘ ان کی حمایت یافتہ جماعتیں پھل پھول رہی ہیں ‘لیکن بھارتی سیاسی فنڈ 1969ء میں زیر زمین چلا گیا‘ جب وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بزنس عطیات بند کردیے تھے۔چنانچہ اس اقدام نے انہیں حقیقی طور پر حریفوں کو نچوڑنے میں مخفف طریقے سے لڑنے میں مدد دی۔ کاروباری ادارے اور نہ ہی سیاست دان‘ اس دور میں واپس جانا چاہتے ہیں‘کیونکہ اس دور میں معیشت اور کاروبار منجمد ہوکر رہ گیا تھا۔
2017ء میںبطورِوزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی پابندیاں پیش کیںاور الیکٹورل بانڈ متعارف کروایا‘ جس کی بدولت کوئی بھی سرمایہ کار کسی بھی پارٹی میں براہ راست سرمایہ کاری کر سکتا تھا‘ جبکہ عملی طور پر ایسا ممکن نہیں تھا۔یہ ایک غیر منافع بخش عمل ہے‘ مگر سیاستدانوں کے کئی مفادات منسلک ہوتے ہیں۔ حال ہی میں ان بانڈزپر عارضی طور پر پابندی ختم کرنے کی استدعا کی گئی‘ لیکن بھارت کی سپریم کورٹ نے انکار کر دیا‘ یہی وجہ ہے کہ بھارتی معیشت کا قدرتی سائیکل خرابی کی جانب گامزن ہے۔2000ء کے عشرے سے بھارت کی ترقی ماند پڑتی گئی‘ بہت سے ادارے ‘مزید قرض لینے کے لئے قائل ہوئے‘ لیکن اگلے چند عشروں میں اضافہ ہوا تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے ۔اس تصویر پر مزید نظر دوڑائیں‘توصورتحال واضح ہو جائے گی‘نام نہاد لوٹ مار کرنے والے ریاستی بینکوںپر زیادہ انحصار کیوں کرتے ہیں؟ ان قرض دہندگان کے درمیان‘ مارچ 2018ء تک‘ کل قرضوں کا تناسب تین گنا بڑھ چکا ہے ‘ اس میں مزید اضافہ بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے‘جو بھارتی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔سرکاری اور نجی خزانوں میں باہم دوڑ لگی ہے اور نریندر مودی کے دور میں ہمیشہ نجی و سرکاری خزانوں میں نجی خزانے آگے رہے۔آئندہ جیت کس کی ہوگی ؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا‘نریندرمودی کا یہ عالم تھا کہ وہ مالدار اداکاروں سے پارٹی فنڈز لینے کے لیے دو طرفہ نجی مذاکرات کرتے رہے۔