کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنے‘برآمدات اور درآمدات کا سلسلہ جاری رکھنے میںملکی‘ مذہبی امور،دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے۔ خارجہ پالیسی میں نہ توکوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے‘ ایٹمی قوت ہونے کے باعث بھی اسے اقوام ِعالم میں اور مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاصل ہے۔
پاک امریکہ تعلقات کی کہانی سات عشروں پر محیط ہے۔ ایک ایسی داستان جو اس سارے عرصے میں بے پناہ پر پیچ راہوں سے گزری ۔ نشیب و فراز بھی بہت آئے اور پر اسرارخاموشی بھی کچھ کم نہیں رہی۔یہ ہماری بدقسمتی رہی کہ ہم نے امریکہ سے تعلقات کو طویل المیعاد ‘ باقاعدہ منصوبوں کے ساتھ آگے نہیں بڑھایا۔ پاکستان وہ ملک ہے جسے قدرت نے انمول جغرافیائی حیثیت عطا کر رکھی ہے۔ دنیا بھر کو قریب لانے اور زمینی فاصلے سمیٹنے کیلئے CPEC کی شکل میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ وہ ریاست جو خطے میں توازن اقتدار کی علامت ہے، اور غنیم کی لاکھ سازش کے باوجود افغانستان سمیت خطہ میں قیام امن کی ضامن ہے۔
پاک امریکہ تعلقات پر بات کریں توتقسیم ہند سے قبل مسلم لیگ کے صدر قائداعظم محمد علی جناح مختلف ممالک کے سفیروں سے رابطے میں تھے۔ انہوں نے ایک امریکی صحافی کو انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان کو امریکہ کی نہیں بلکہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ ستمبر 1947ء میں کابینہ کے ایک اجلاس میں جناح صاحب نے کہا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، کمیونزم ممالک میں نہیں پنپ سکتا۔ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے مفادات امریکہ اور برطانیہ سے پنہاں ہوں گے ۔ ممالک کے مفادات کا تعین وزارت خارجہ، فوج کے نمائندے اور مقننہ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ابتدائی طور پر امریکہ کا کوئی مفاد وابستہ نہیں تھا‘ لہٰذا سفارتی تعلقات قائم کرنے سے زیادہ پاکستان کو لفٹ نہ کرائی گئی۔
قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک کی قیادت لیاقت علی خان نے سنبھالی۔ 1949ء میں امریکہ کی جانب سے جواہر لعل نہرو کو دعوت ملی تو پاکستان کی طرف سے کوشش شروع ہوئی کہ کچھ ایسا بندوبست ہمارے لئے بھی ہو جائے۔ ایران میں پاکستانی سفیر کے ذریعے روس کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ لیاقت علی خان ماسکو کا دورہ کرنا چاہتے ہیں‘ لہٰذا انہیں دعوت نامہ بھیجا جائے۔جس کے بعد امریکہ کی جانب سے باضابطہ دعوت نامہ بھی موصول ہو گیا۔ مئی 1950ء میں لیاقت علی خان امریکہ پہنچے اور ہوائی اڈے پر ان کا استقبال صدر ٹرومین (Truman) نے کیا۔ دورے کے دوران فوج کے متعلق ایک رپورٹر کے سوال پر لیاقت علی خان نے جواب دیا کہ اگر آپ کا یہ عظیم ملک ہمیں جغرافیائی سالمیت کی یقین دہانی کرائے تو ہم کسی بھی قسم کی فوج نہیں رکھیں گے۔ امریکہ کی طرف سے امن مشن کے لیے فوجی دستوں کی درخواست بھی کی گئی، یوں پاک امریکہ تعلقات کا نیا دور شروع ہوا۔
9/11کے بعد پاک امریکہ تعلقات کافی حد تک متاثر ہوئے ‘گزشتہ سالوں میں بھی ان میں کوئی اہم پیش رفت دیکھنے کو نہ ملی ۔گزشتہ ماہ پاکستانی وزیراعظم کے دورۂ امریکہ کے بعد حالات کافی مختلف دکھائی دیے۔سب سے اہم بات پاکستان کے مؤقف کی تائیدکی گئی۔ اس کے ساتھ افغان جنگ میں پاکستان کے امن کی کوششوں کا خراج تحسین پیش کیا گیا۔صرف یہی نہیں پاکستان اور بھارت کا دیرینہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔اسی حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات یکم اگست کو صحافیوں کے ساتھ گفتگو کے دوران ایک بار پھر اپنی اس پیشکش کو دہرایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو سلجھانے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورۂ واشنگٹن کے دوران امریکی صدر نے مہمان وزیر اعظم کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران یہ پیشکش کی تھی کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کی سب سے بڑی وجہ بننے والے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ثالثی کرنے کو تیار ہیں۔
22 جولائی کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات میں ٹرمپ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس معاملے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی ان سے مدد کی درخواست کر چکے ہیں۔ ان کے اس بیان کے فوری بعد بھارتی حکومت نے اس بات کی تردید کردی تھی کہ بھارتی وزیر اعظم نے ٹرمپ سے ایسا کوئی کردار ادا کرنے کی بات کی تھی۔بھارتی وزارت خارجہ نے اپنا یہ مؤقف دہرایا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کا باہمی معاملہ ہے اور اس پر کبھی بات ہوئی بھی تو یہ صرف انہی دونوں ممالک کے درمیان ہو گی اور اس پر کسی تیسرے فریق کی ثالثی بھی قبول نہیں کی جائے گی۔مگرامریکی صدر نے ایک بار پھر اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ رپورٹر کے ایک سوال کے جواب میں ٹرمپ نے کہا ''میں وزیر اعظم خان اور وزیر اعظم مودی سے مل چکا ہوں، وہ زبردست لوگ ہیں...اگر وہ کسی کی ثالثی چاہیں تو میں یہ کردار ادا کر سکتا ہوں اور سچی بات یہ ہے کہ میں نے اس پر پاکستان سے بات کی ہے اور بھارت سے بھی بات کی ہے‘‘۔رپورٹرنے سوال کیا کہ وہ کشمیریوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ ٹرمپ کا کہنا تھا'' میں کر سکتا ہوں، اگر وہ مجھ سے ایسا چاہیں تو، میں لازمی طور پر اس میں اپنا کردار ادا کروں گا‘‘۔
دوسری طرف بھارت نے ایک مرتبہ پھر امریکی صدر کی کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش کو ایک بار پھر رد کیا ہے۔ بینکاک میں ایشیا سکیورٹی فورم کے حاشیے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے درمیان ملاقات ہوئی‘ جس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایس جے شنکر نے کہاکہ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو پر یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر کشمیر کے معاملے پر کبھی بات ہوئی تو وہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہی ہو گی اور اس پر کسی کی ثالثی قبول نہیں کی جائے گی۔بھارت کا یہ رویہ کوئی نیا نہیں ‘وہ ہر دور میں مسئلہ کشمیر پر اس طرح کے حربے استعمال کرتا رہا ہے ۔پاکستان اور بھارت اس معاملے پر دو جنگیں لڑ چکے ہیں ‘ یہی معاملہ خطے کے استحکام اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی سمجھا جاتا ہے۔مگر حالات اب وہ نہیں رہے دنیا حقائق جان چکی ہے اور سفارتی سطح پر بھارت پر دباو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔
۱