جنوبی اور مشرقی دونوں سمندروں میں چین کی بڑھتی ہوئی بحری سرگرمیاں بھی ایک بڑے مقصد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ چین کو تائیوان کی جانب سے مزید خطرات کا سامنا ہے ۔تائیوان‘ چین اور جاپان دو جسموں کوپانی کی سطح پر الگ کرتا ہے۔ نکسن کے چین جانے سے قبل تائیوان ایک فلیش پوائنٹ تھا۔ اگر 1950ء میں جزیرہ نما کوریا میں چین جنگ نہ کرتا‘ تو چینی رہنما ماؤ ‘ اس کی بجائے تائیوان پر حملہ کر سکتے تھے۔ حالات تب کشیدہ ہوئے جب نکسن اور امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ماؤ اور چینی وزیر اعظم چاؤ انیلائی کے ساتھ تائیوان کی آزاد حیثیت کو موثر طریقے سے نمائندگی دینے کے لئے معاہدہ کیا‘ جبکہ حقیقت میں اس کو دھمکی سمجھا جانے لگا‘یوں تائیوان صرف تناؤ کا شکار مقام بن گیا۔ اب یہ ایک فلیش پوائنٹ کی حیثیت سے واپس آگیا ہے۔ چین نے اپنے ساحل سے فوجی مشقیں جاری رکھی ہوئی ہیں‘ یہاں تک کہ بیجنگ نے بھی جزیرے کے خلاف میزائل داغنے اور سائبرجنگ میں مشغول ہونے کی اپنی صلاحیت کو بتدریج بہتر بنایا ہے‘یہ بھی مطالبہ کیا گیاہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس کی 2.2 بلین ڈالر کی اسلحے کی فروخت منسوخ کردی ہے۔ تائیوان یہ سب قدرتی طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قوم پرستی پر مبنی پالیسیوں کو تقویت بخشنے کے لیے کر رہا ہے۔
1942 ء میں جب امریکی بحری جہاز جاپانیوں کے ساتھ سفاکانہ جزیرے کی لڑائی میں مصروف تھے‘ لڑائی کی کوئی انتہا نہ تھی‘ اس وقت ایک ڈچ امریکی مبصر‘ چین کے خلاف امریکہ اور جاپان کے اتحاد کی پیش گوئی کی تھی۔ کہا گیا کہ جاپان امریکہ کا ایک اہم جنگجو حلیف بن سکتا ہے‘ جاپان امریکہ کیلئے وفادار اور مفید ثابت ہوگا‘ سمندر کی حفاظت کیلئے اسے امریکہ کی ضرورت ہوگی ‘تاکہ وہ خوراک اور تیل کی درآمد کرسکے‘ جبکہ دونوں صارفین کی بڑی آبادی مضبوط تجارتی تعلقات کی بنیاد بنائے گی۔ یہ بھی کہا گیاکہ چین بالآخر جنگ سے ایک طاقتور اور خطرناک ملک کے طور پر ابھرے گا‘ جس کے خلاف امریکہ کو توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ڈچ مبصر نے اشارہ کیا کہ جاپان سرزمین ایشیاء کے سلسلے میں برطانیہ کے برابر ہوگا‘جوامریکہ کاایک بڑاغیر ملکی اتحادی ثابت ہوگا۔
انہی پیش گوئیوں کے ساتھ مبصر اگلے سال کینسر سے مر گیا تھا۔ اپنی پیش گوئیوں کوسچ ہوتا دیکھنا نصیب نہ ہوا ۔بقول ان کے در حقیقت‘ یہ ایک ایسا وژن تھا‘ جو ایشیاء کو استحکام‘ دونوں ممالک کے درمیان ایک صدی کے چوتھائی حصوں کیلئے امن اور معاشی خوشحالی عطا کرے گا۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن 1972 ء میں چین کے افتتاحی موقع پر‘ سوویت یونین کے خلاف توازن برقرار رکھنے کیلئے ‘ چین کے قریب ہوئے ‘جاپان اور امریکہ کے اس نقطہ نظر میں ایک شکن پڑ گئی‘ لیکن اس کے باوجود امریکہ اور جاپان کا اتحاد ایشین استحکام کا سنگ بنیاد رہا۔ جاپان کے ساتھ امریکہ کی شراکت کے بغیر‘ نکسن انتظامیہ کا بیجنگ میں سفارتی بغاوت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین جاری تجارتی جنگ کے دوران‘ سپیک مین (مبصر)کا نقطہ نظر‘ جو اس نے کہا تھا‘ آج کل کہیں زیادہ متعلقہ معلوم ہوتا ہے؛ اگرچہ آج کل بہت کم لوگوں کو اس کا نام یادہوگا۔
دوسری جانب سپیک مین(مبصر) کا ایشین آرڈر در حقیقت اب ٹوٹنا شروع ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلے عشرے میں ایشیاء میں قابل ذکر تبدیلی آئی ہے۔ یہ تبدیلیاں متعدد ممالک میں پھیل رہی ہیں اور بہت سے لوگوں نے محسوس کی ہیں کہ ہم ایک نئے دور میں داخل ہورہے ہیں۔ یہ ایک ایسا ماحول ہے‘ جو مزید داخلی طور پر ہنگامہ خیز چین کی حیثیت رکھتا ہے۔چین امریکہ سے کئی گنا زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ایک فریکچر امریکی اتحاد کے نظام اور امریکی بحریہ کا اقتدار دن بدن کم ہو رہا ہے۔ حالیہ عشروں میں اس سے کہیں زیادہ تبدیلیاں دیکھی گئیں ہیں۔ ہانگ کانگ کا بحران اور جنوبی کوریا اور جاپان کے مابین تعلقات کا بگڑنا آنے والے برسوں میں کچھ اور منظر پیش کر رہا ہے۔ ایشین سکیورٹی کو اب کسی حد تک کم نہیں کیا جاسکتا۔
سب سے پہلے تو‘ چین اب چین نہیں رہا‘ کم از کم جس طرح سے یہ جانا جاتا تھا۔ چین جس کی معیشت سالانہ دو ہندسوں پر ترقی کرتی ہے اورمعیشت کوسخت محیط حدود کی نگرانی میں رکھے ہوئے ہے ۔چین پر خطرے سے بچنے والے‘ اور اجتماعی ٹیکنوکریٹس کے ایک گروپ نے حکومت کی تھی‘ اس ملک کی جگہ ایک واحد‘سخت خودمختار حکومت کرنے والے ملک نے لے لی ہے۔ معاشی ترقی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ‘ یہ ایک ماہر نظام کی شکل اختیار کر رہی ہے‘ جس میں انتہائی ہنر مند افرادی قوت موجود ہے۔ نئے متوسط طبقے قوم پرست اور ملکی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ سخت اورمطمئن نظر آتے ہیں‘ کیونکہ وہ حکومت کو اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ اس مڈل کلاس کو عالمی طاقت کے درجہ کے لیے تیار کررہے ہیں‘ جو خصوصی طور پریوریشیا میں پھیلی بندرگاہوں اور تجارتی راستوں کی ایک کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔ ادھرقوم پرستی کو روک کر اور معاشی اصلاحات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے‘ لیکن وہ اپنے لوگوں کے طرزِ عمل کی نگرانی کیلئے ٹیکنالوجی کی ایک بے مثال سرزمین کو بھی استعمال کررہا ہے۔ اس میں جدیدٹیکنالوجی بھی شامل ہے۔
دوسری طرف امریکہ جانتا ہے کہ اسے سخت مقابلے کاسامنا ہے ۔ اسے اپنے ملک کو سیاسی طو رپر برقرار رکھنے کے ساتھ‘ برآمد سے چلنے والی معیشت میں اصلاحات لانے اور سیاسی کنٹرول کو سخت کرنے کی ضرورت ہے۔